مُردے بولتے نہیں
ایک بار پھر بلوچستان گرما گرم خبروں کی زد میں ہے۔ مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر خوفناک خودکش حملے کو گذرے بمشکل ہی چند روز گذرے تھے کہ ضلع خضدار کے علاقے توتک سے تیرہ مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مقامی چرواہوں نے سنسان علاقے میں دو ادھ ۔ دفن لاشیں دیکھی تھیں، جس کی پولیس اور لیویز کو فوراً اطلاع دی گئی، کم گہرائی پر دفن لاشوں کو نکالنے کے بعد، جب اُس مقام پر مزید کھدائی کی گئی تو اور گیارہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ لاشیں خراب ہونے کی ابتدائی سطح پر تھیں۔
تمام لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ضلع اسپتال منتقل کر کے شناخت کے واسطے ڈی این اے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں۔
اس یقین کے باوجود کہ یہ گندے کھیل کا حصہ ہے لیکن اس مرحلے پر کہ جب شناخت اور اس گھناؤنے عمل کے پیچھے موجود عزائم کا تعین باقی ہے، خاص طور پر بلوچستان کے سب سے کشیدہ حصے، ضلع خضدار سے ان لاشوں کی برآمدگی پر صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔
یہاں قبائل کے درمیان اور خود قبیلے کے اندر بھی دشمنیاں عام ہیں، یہاں اغوا اور ڈکیتیوں وغیرہ میں ملوث گروہوں کی بھی بہتات ہے جو مقامی جاگیرداروں کی سرپرستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ خضدار بلوچ بغاوت کا گڑھ ہے، یہاں بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکارموجود ہیں اور جبری طور پر لاپتا بلوچوں کی بڑی تعداد کو بھی یہیں سے اٹھایا گیا ہے۔
ان لاشوں کی دریافت کے ساتھ ہی، اُن متعدد اہلِ خانہ کے دل بھی ھڑکنا بھول گئے تھے، جن کے پیارے جبری طور پر لاپتا کیے جاچکے ہیں۔
اس مشتعل صورتِ حال میں، شاید ہی یہ تعجب کی بات ہو کہ کہانی کے مبالغہ آمیز ورژن کی گردش بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال کا ذمہ دار کسی اور کے بجائے، فوری طور پر، صرف ریاست کو ہی سمجھا جاتا ہے۔
ستم ظریفی کے لیے یہی بڑھتا تاثر کافی ہے کہ لوگوں کو اٹھانے، جبری طور پر اٹھائے گئے افراد کو قانون کے سامنے پیش کرنے اور سیکیورٹی اداروں کو قانون کے دائرے میں لانے کی خاطر سپریم کورٹ کی طویل عرصے تک کی جانے والی ساری محنت اور اقدامات ضائع ہوچکے۔
حال ہی میں نافذ کیے گئے تحفظِ پاکستان آرڈیننس اور اس میں کی جانے والی سیاہ ترامیم کے ذریعے، نظر یہی آتا ہے کہ اداروں کو اپنے اقدامات کے لیے ریاست کی طرف سے اور بھی زیادہ چھوٹ مل چکی ہے۔
خواہ یہ سچائی کسی کے واسطے تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو، یہ نہایت ضروری ہے کہ بلوچستان کی حکومت شفاف اور حقیقی انداز میں ان ہلاکتوں کی نہایت سرگرمی سے تحقیقات کر کے، ذمہ داروں کو بے نقاب کرے۔
اس واقعے کے پسِ پشت حقائق کو 'قومی سلامتی کی ضروریات' کی تاریکی میں دفن نہیں رہنا چاہیے۔