• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

تحفظ پاکستان آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج

شائع January 28, 2014
سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک مشترکہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس قانون کو کالا قانون قرار دے، کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متضاد ہے۔ —. فائل فوٹو
سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک مشترکہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس قانون کو کالا قانون قرار دے، کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متضاد ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: بائیس جنوری سے نافذ ہونے والے تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، یاد رہے کہ اس قانون سے جبری گمشدگی کو قانونی تحفظ فراہم ہو رہا تھا۔

پیر کے روز انعام الرحمان اور طارق اسد کی جانب سے ایک مشترکہ پٹیشن جمع کرائی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس قانون کو ایک کالا قانون قرار دے، اس لیے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متضاد ہے۔

یہ آرڈیننس سیکیورٹی فورسز کو اختیار دیتا ہے کہ وہ زیرِ حراست شخص اور حراست کے مقام کی شناخت کے بارے میں معلومات کو پوشیدہ رکھ سکتی ہیں۔ اس قانون پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے، خاص طور پرعاصمہ جہانگیر نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ آرڈیننس ملک کو ایک فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردے گا۔

انعام الرحیم نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”تحفظ پاکستان آرڈیننس مسلح افواج کوسول معاملات میں گھسیٹنے کی سازش ہے، جس سے بالآخر ان کی کارکردگی پر اثر پڑے گا اور لوگوں میں ان کی عزت کم ہوجائے گی۔“

اس پٹیشن میں قانون اور داخلہ کے سیکریٹریوں کے ساتھ ساتھ صدر کے پرنسپل سیکریٹری کے ذریعے وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پاکستان کے ان شہریوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے غیرقانونی طریقے سے اغوا کیا گیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ احتیاطی حراست سمیت کوئی بھی قانون آئین سے بالاتر نہیں ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ”لیکن یہاں تحفظ پاکستان آرڈیننس شہریوں کے بنیادی حقوق سے تجاوز کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت فرد کی آزادی میں تخفیف کی جارہی ہے، جب کہ ایک ایسی حکومت برسرِ اقتدار ہے، جسے لوگوں نے اپنے ووٹوں سے عوام کے خصوصی فائدے کے لیے منتخب کیا ہے، وہ حکومت لوگوں سے ان کی آزادی کیسے چھین سکتی ہے۔“

اس کے علاوہ آئین بھی فرد کے وقار کی ضمانت دیتا ہے۔ 1996ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں بھی اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا۔

آئین کاآرٹیکل 14 بھی کہتا ہے کہ فرد کے وقار اور گھر کی پرائیویسی کی ہر قیمت پر عزت کی جائے گی۔ آرٹیکل چودہ کے تحت بنیادی حقوق کو محفوظ بنایا گیا ہے اور فرد کے وقار کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

آئین میں زور دیا گیا ہے کہ ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، جس سے کسی فرد کی زندگی، آزادی، جسم، عزت یا جائیداد کو کوئی نقصان پہنچتا ہو، سوائے ایسی کارروائی کے جو قانون کے مطابق ہو۔ اسی طرح کسی بھی فرد کو کسی ایسے کام سے نہیں روکا جائے گا، جو قانونی طور پر ممنوع نہیں ہے،اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی فرد کو ایسا کرنے پر مجبورنہیں کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ آرٹیکل دس بھی گرفتاری اور حراست یا ایسی گرفتاری جس کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا ہو، سے تحفظ فراہم کرتا ہے، نہ ہی گرفتار فرد کو مشورہ کرنے کے حق اور اس کی مرضی کے وکیل کے ذریعے دفاع کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔

ہر ایسا فرد جسے گرفتار کیا گیا ہو، اور زیرِ حراست ہو، کو اس کی گرفتاری کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے، ایسے معاملے کو استثنیٰ حاصل ہوگی، جس میں گرفتاری کے مقام سے قریبی مجسٹریٹ کی عدالت تک کے سفر میں وقت درکار ہو۔اور کسی بھی فرد کو اس مدت سے زیادہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر حراست میں نہیں رکھا جائے گا۔

اس پٹیشن میں آئین کے آرٹیکل 10-اے پر بھی زور دیا گیا ہے، جو منصفانہ سماعت کے حق کو یقینی بناتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024