ملے جو دیں سیاست سے - 4
روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔**
'سیاست ایک گٹر ہے'، یہ فقرہ ہم سب بہت بار سن چکے ہیں، لیکن مذہب اور سیاست کے تعلق پر بات کرنا کبھی گوارہ نہیں کرتے. اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں گرنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی. تاریخ گواہ ہے مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت ہونے کا واحد ایک ہی مطلب اور نتیجہ نکلتا ہے، ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے مذہب جیسے عظیم اور مقدّس آئیڈیل کا ناجائز استعمال اور استحصال.
گو علامہ اقبال نے مذہب اور سیاست کے تعلق سے فرمایا تھا؛
"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"
لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کرّاہ اٹھتے کہ؛
"ملے جو دیں سیاست سے تو آجاتی ہے چنگیزی!"
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا مہلک ترین غلطی ہے اور جس کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔
یہ اس بلاگ کا چوتھا حصّہ ہے، پہلے، دوسرے اور تیسرے حصّے کے لئے کلک کریں
پنجاب کے ایک سیاست دان نے 1951ء کے انتخابات کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا؛
"مسلم لیگ کے مخالفوں میں سب سے بلند آہنگ جماعت اسلامی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اس لئے اس کا آئین جماعت اسلامی کو بنانا چاہئے۔ میں پوچھتا ہوں کہ جس وقت حصول پاکستان کی جدوجہد جاری تھی تو مولانا مودودی کیا کر رہے تھے؟ وہ پاکستان کی مخالفت اسلام کے نام پر کر رہے تھے۔ آج اس اسلام کو وہ پاکستان میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر سمجھدار آدمی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یا تو یہ ’اسلام‘ مودودی صاحب کے اپنے دماغ کی اختراع ہے، یا پھر مولانا مودودی محض ابن الوقت ہیں"۔
سن 1952 ء میں قحط اور مہنگائی کے مسئلوں پر خاکسار تحریک نے حکومت مخالف مظاہرے شروع کیے۔ اس موقعے پر جماعت نے موچی گیٹ کے مقام پر آٹے کی قیمت میں اضافے کے خلاف جلوس نکالا لیکن وہ جلوس ہنگامے کی صورت اختیار کر گیا۔
خاکسار تحریک کے سربراہ علامہ مشرقی کی گرفتاری کے بعد اس تحریک کا علم مجلس احرار نے سنبھالا۔ احرار نے معاشی مسائل کے ساتھ مذہب کے اونٹ کو بھی سیاست کے خیمے میں داخل کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ مسلمانوں نے اپنا ملک بنانے کے لیے قربانیاں دیں لیکن اس شجر کا پھل احمدی حاصل کر رہے ہیں۔
ان حالات میں جماعت کی شوریٰ نے احرار اور دیگر مذہبی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل میں شرکت کا فیصلہ کیا لیکن احرار کے طریق کار سے سطحی اختلاف ظاہر کیا۔
اگست 1952ء کے ترجمان القرآن میں احمدیوں کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جنوری 1953ء میں کل پاکستان علماء کنونشن نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے اس مسئلے پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث استعفی طلب کیا۔
5 مارچ 1953 ء کو مولانا نے اپنی کتاب ’قادیانی مسئلہ‘ شائع کی جس میں احمدیوں کی تکفیر کے حق میں دلائل جمع کیے گئے تھے۔ احمدی مخالف ہنگاموں نے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس ہنگامے کو ہوا دینے میں صوبائی مسلم لیگ کے سربراہ ممتاز دولتانہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مارچ 1953ء میں پنجاب میں جزوی مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
مسئلہ قادیانیت میں جماعت کے کردار پر ڈاکٹر اسرار نے لکھا؛
"ایک تو یہ مسئلہ کوئی آج کی پیداوار نہیں تھا بلکہ گزشتہ صدی کے اواخر ہی سے اس کے بارے میں مسلمانوں میں بے چینی کے آثار پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ لیکن اپنے تاسیس کے دن سے سن 52ء تک گیارہ بارہ سال جماعت اسلامی نے بحیثیت جماعت یا اس کے اکابرین نے بحیثیت افراد اس پر کوئی عملی اقدام تو کجا زبان سے ایک حرف تک نہ نکالا، بلکہ ایک اصولی اسلامی جماعت کی حیثیت سے اپنے دور اول میں اس نے ایسی باتیں کہیں کہ جن سے قادیانیوں کی تکفیر کی براہ راست نہ سہی بالواسطہ ضرور ہمت شکنی ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی کے اکابرین نے نجی محفلوں میں قادیانیوں اور ان کے خلاف احرار کی تحریک کے بارے میں کیے گئے سوالات کے مندرجہ ذیل جواب دیئے؛
ختم نبوت لازمی طور پر جزو ایمان ہے اور اس کا منکر کافر، لیکن تکفیر کا کام کسی فرد یا کسی گروہ کے کرنے کا نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا کام ہے۔
’قادیانیت‘ مسلمان قوم میں دین حق سے لگاؤ میں انحطاط آجانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اور بہت سی گمراہیوں میں سے ایک گمراہی ہے۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ دین کی اصل تعلیمات واضح نہیں ہیں۔ اور اس کا علاج منفی طور پر اس کی مخالفت اور بیخ کنی سے نہ ہوگا بلکہ اس طرح ہوگا کہ دین کی اصل تعلیمات کو واضح اور عام کیا جائے۔
قادنیوں کی مخالفت جس طرز سے ہو رہی ہے، وہ ان کو کوئی نقصان پہنچانے کے بجائے ان کی تقویت کا موجب ہو رہی ہے۔ اگر ان کا ابطال کرنا ہی ہے تو چاہیے کہ سنجیدہ علمی طریقے سے ان پر تنقید کی جائے اور عوام کو ان کے غلط عقائد سے خبردار کیا جائے۔
لیکن جب سن 52ء میں زعمائے مجلس احرار نے اسے واقعی ایک مسئلہ بنا لیا اور عوام کے جذبات کو مشتعل کر لیا تو اصول پرستی اور مردانگی کا تقاضا یہ تھا کہ یہی باتیں علی الاعلان کہی جاتیں اور لوگوں کو بتایا جاتا کہ تم خوامخواہ مشتعل کیے جا رہے ہو، نہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت رکھتا ہے اور نہ اس کے حل کی وہ صورت ہے جو اختیار کی جا رہی ہے۔
حسب موقعہ جماعت اسلامی نے اپنی اصول پسندی اور اصول پرستی کو ذبح کر کے ’حق گوئی‘ سے کتراتے ہوئے ’روباہی‘ کا ثبوت دیتے ہوئے جو طرز عمل اختیار کیا، وہ بے اصولے پن اور عوام خوفی کی عملی تصویر ہے۔ مجلس عمل کے ساتھ تعاون شروع کر دیا گیا اور ان لوگوں کی قیادت قبول کر لی گئی جن کے پاس بیٹھتے ہوئے بھی بقول بزرگان جماعت، جماعت کے زعماء کو گھن آتی تھی۔"
مئی سنہ 1953 ء میں خصوصی عدالت نے مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی۔
قادیانی مسئلے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی عدالتی کمیشن مقرر کیا گیا، جس کی مرتب کردہ رپورٹ ’رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب -- 1953‘ یا عرف عام میں ’منیر رپورٹ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مذہب اور سیاست کے بے جوڑ رشتے کے خلاف اس رپورٹ سے زیادہ مضبوط دلیل ہماری تاریخ میں موجود نہیں۔
رپورٹ کے صفحہ نمبر 334 پر علماء کے مابین بنیادی اصطلاحات پر اختلاف کی جو تصویر نظر آتی ہے، ملاحضہ کریں؛
"ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ ’مسلم‘ کی تعریف کریں۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہونگی بلکہ وہ ’مسلم‘ کی تعریف بھی قطعی طور پر کر سکیں گے، کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں شخص یا فلاں جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ دعوی کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ ’مسلم‘ کس کو کہتے ہیں۔
تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر ژولیدگی موجود ہے تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہو گا"۔
اس کے بعد مولانا ابوالحسنات قادری، مولانا احمد علی، مولانا مودودی، غازی سراج الدین منیر، مفتی ادریس، حافظ کفایت حسین، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا محمد علی کاندھلوی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ’مسلم‘ کی تعریف اپنے علم کے مطابق بتائی۔
اس پر جسٹس منیر نے تبصرہ لکھا؛
"ان متعدد تعاریف کو جو علماء نے پیش کی ہیں، پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں، اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہے، تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔ شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں اور اہل قرآن متفقہ طور پر کافر ہیں، یہی حال آزاد مفکرین کا ہے۔ اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ، سنی، دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے تو کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص اگر عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے، اسکو اسلامی مملکت میں لازمی موت ک سزا دی جائے گی‘۔
منیر رپورٹ کے مندرجہ ذیل الفاظ اس قابل ہیں کہ انہیں قومی نصاب میں داخل کیا جائے؛
"عام آدمی پاکستان کو ایک اسلامی مملکت سمجھتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس عقیدے کو اس مسلسل چیخ و پکار سے تقویت پہنچی ہے جو اسلام اور اسلامی مملکت کے متعلق قیام پاکستان کے وقت سے اب تک مختلف حلقوں کی طرف سے مچائی جا رہی ہے۔ اسلامی مملکت کے خواب نے ہر زمانے میں مسلمانوں کو پریشان کیا ہے اور یہ اس شاندار ماضی کی یاد کا نتیجہ ہے جب اسلام دنیا کے ایک دور و دست گوشے سے اٹھا اور چشم زدن میں دنیا پر چھا گیا۔ عرب کے خانہ بدوشوں کی اس شاندار کامیابی کی کوئی مثال اس سے پیشتر دنیا نے نہ دیکھی تھی۔ اور یہی وہ کامیابی ہے جس کی یاد کے باعث مسلمان ماضی کے تصورات میں غرق رہتا ہے اور اس عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کا خواہاں ہے جو ایک زمانے میں اسلام سے وابستہ تھی۔
آج مسلمان یاد ماضی کا لبادہ اوڑھے صدیوں کا بھاری بوجھ اپنی پشت پر لادے مایوس و مبہوت ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور فیصلہ نہیں کر سکتا کہ دونوں میں سے کس موڑ کا رخ کرے۔ دین کی وہ تازگی اور سادگی جس نے ایک زمانے میں اس کے ذہن و عزم مصم اور اسکے عضلات کو لچک عطا کی تھی، آج اسکو حاصل نہیں ہے۔ اس کے پاس نہ فتوحات حاصل کرنے کے وسائل ہیں نہ اہلیت ہے اور نہ ہی ایسے ممالک موجود ہیں جن کو فتح کیا جا سکے۔ مسلمان بالکل نہیں سمجھتا کہ جو قوتیں آج اسکے خلاف صف آراء ہیں، وہ ان قوتوں سے بالکل مختلف ہیں جس سے اسکو ابتدائے اسلام میں جنگ کرنی پڑی تھی اور اس کے اپنے آباؤ اجداد ہی کی راہنمائی سے ذہن انسانی نے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جن کو سمجھنے سے وہ قاصر ہے۔ لہذا وہ اپنے آپ کو عجیب بے بسی کی حالت میں پاتا ہے اور انتظار کر رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اس بے یقینی اور ژولیدگی کی دلدل سے باہر نکالنے میں مدد کرے، لیکن وہ برابر یونہی انتظار کرتا رہے گا اور اس انتظار کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو آج اسلام کو ایک عالمگیر تصور کی حیثیت سے محفوظ رکھ سکتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی نئی تاویل و تشکیل دلیرانہ کی جائے جو زندہ حقائق کو مردہ تصورات سے الگ کر دے"۔
(جاری ہے)
یہ اس بلاگ کا چوتھا حصّہ ہے، پہلے، دوسرے اور تیسرے حصّے کے لئے کلک کریں
ریفرنس:
تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، اسرار احمد
http://www.scribd.com/doc/126864150/tehreek-e-jamat-e-islami-by-dr-israr-ahmed
پاکستان کی سیاسی تاریخ: ترقی اور جمہوریت کو روکنے کیلئے اسلامی نظام کے نعرے، زاہد چوہدری
منیر رپورٹ، ترجمہ بشکریہ ماہنامہ ’نیا زمانہ‘
http://www.scribd.com/doc/133185923/Justice-Muneer-Enquiry-Report-1954-Urdu
The Vanguard of Islamic Revolution, Vali Nasr
http://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=ft9j49p32d;brand=ucpress
تبصرے (5) بند ہیں