توہین رسالت کے ملزم کو سزائے موت
اسلام آباد: روالپنڈی کی ایک عدالت نے جمعرات کو ایک خودساختہ نبی کو توہین رسالت کے جرم میں ملوث ہونے کے بعد موت کی سزا سنائی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوید اقبال نے ایک پینسٹھ برس کے برطانوی شہریت رکھنے والے محمد اصغر پر دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
محمد اصغر کو 2010ء میں صادق آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، اس نے ایک پولیس آفیسر سمیت مختلف لوگوں کو خط تحریر کیا تھا، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک پیغمبر ہے۔ پولیس نے محمد اصغر کو پی پی سی کے سیکشن 295-سی کے تحت گرفتار کیا تھا۔
اس سیکشن میں درج ہے کہ ”جوکوئی بھی الفاظ کے ذریعے یا بات چیت کے ذریعے یا تحریر کے ذریعے یا تہمت طرازی کے ذریعے، یا اشارے کنایے میں، یا درپردہ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کرے تو اس کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جانی چاہیٔے اور اس کو جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔“
پبلک پراسیکیوٹر جاوید گل نے کورٹ کے سامنے اس خط کی نقل پیش کی، جو محمد اصغر نے صادق آباد کے ایک ایس ایچ کو تحریر کیا تھا۔ چار پولیس اہلکاروں نے محمد اصغر کے خلاف گواہی دی۔
استغاثہ نے ہینڈ رائٹنگ کے ماہرین کی رائے بھی پیش کی، جنہوں نے تصدیق کی تھی کہ یہ خط ملزم نے تحریر کیا تھا۔
مندرجا بالا ثبوت کے ساتھ استغاثہ نے محمد اصغر کا اعترافی بیان بھی پیش کیا۔
ابتداء میں لاہور کی سارہ بلال بطور دفاعی وکیل پیش ہوئی تھی، لیکن پھر ان کے اس کیس کی پیروی سے ہچکچاہٹ کے اظہار کے بعد حکومت نے اصغر کے دفاع کے لیے ایک وکیل کا تقرر کیا تھا۔
وکیل صفائی نے دلیل دی کہ محمد اصغر ذہنی بیماری میں مبتلا ہے، اس کے کیس کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر لیا جانا چاہئیے۔ عدالت نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تاکہ وکیل صفائی کی دلیل کی توثیق کی جاسکے۔
لیکن میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اصغر نفسیاتی طور پر صحت مند تھا، اور اس کو کسی قسم کی بیماری لاحق نہیں ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں