• KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:29pm
  • ISB: Zuhr 12:16pm Asr 4:33pm
  • KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:29pm
  • ISB: Zuhr 12:16pm Asr 4:33pm

اپاہج پاکستان

شائع January 23, 2014
۔—فائل فوٹو۔
۔—فائل فوٹو۔

نئے سال کو مشکل سے ایک ماہ گزرا ہے کہ 2014 میں پاکستان میں پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں کا بے رحمانہ قتل شروع ہوچکا ہے۔ اس سال پہلے ہی پاکستان میں پولیو کے چار نئے کیسز منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ بدھ کے روز چارسدہ میں سات پولیو ورکرز اور ان کے ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم اب تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ آئی ای ڈی میں حملے کا ہدف پولیو ٹیم تھی یا نہیں۔

سال 2013 میں پولیو سے وابستہ 19 ہلاکتیں ہوئیں جن میں دس پولیو رضاکار اور نو پولیس اہلکار شامل ہیں۔ اسی دوران پولیو کیخلاف مہم سے وابستہ 22 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ان حملوں کی ذمے داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی اور پولیو کیخلاف مہم کومغربی سازش قرار دیتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

تاہم عسکریت پسندی کے موضوع پر لکھنے والے ڈان اخبار کے خصوصی نمائندے حسن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہیلتھ ورکروں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں ٹی ٹی پی کے مختلف افراد کے رائے میں فرق پایا جاتا ہے۔ حسن عبداللہ کے مطابق دہشتگرد تنظیم کی اعلیٰ قیادت پولیوختم کرنے کی مہم کی مخالف نہیں لیکن وہ اس ضمن میں اپنا واضح آفیشل مؤقف ظاہر نہیں کررہی اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔

'اس کی پہلی وجہ ہے کہ وہ کسی بیان سے پہلے ایک ایک حتمی اتفاقِ رائے چاہتے ہیں، دوسرا انہیں اب بھی یقین ہے کہ ویکسینیشن کی آڑ میں ان کیخلاف آپریشن جاری ہے اور وہ بیان دے کر کوئی واضح سگنل نہیں دینا چاہتے ۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، قاری حنیف جالندھری طالبان کے دعووں کی نفی کرتے ہیں، ' یہ ویکسین ہمارے بچوں کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی غیر اسلامی بات نہیں،' انہوں نے کہا۔ اس ضمن میں علما نے ڈاکٹروں سے تفصیلی مذاکرات کئے ہیں اور اقرار کیا ہے کہ پولیو ویکسین خلافِ شریعت نہیں۔

ایک معروف عالمِ دین نے کہا ' یہ تو ہمارے بچوں اور ملک کے ساتھ نا انصافی ہے اور یہ محض مستقبل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے'۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی بھلائی اور صحت سے ذیادہ سے ذیادہ آگہی حاصل کریں۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اس سے پولیو ٹیم بھی ان خطروں سے محفوظ رہیں گی جن سے آج وہ دوچار ہی۔

پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی پولیو بچوں کو اپاہج بنارہا ہے۔ افغانستان نے اپنے سرحدی علاقوں میں پولیو کیخلاف بھرپور مہم چلاکر اہم پیش رفت کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سال 2013 میں بلوچستان میں پولیو کیسز بہت کم نمودار ہوئے ۔ گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 91 کیسز منظرِعام پر آئے اور 2012 میں 58 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن یہ شرح 2011 کے مقابلے میں بہت کم تھی اور اس سال پولیو کے 198 کیسز منظرِ عام پر آئے تھے۔

اس سال ملک بھر میں شروع ہونے والے پولیو مہم اس بازگشت کے ساتھ شروع ہوئی تھی کہ اس سال پولیو کیسز میں نمایاں کمی کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم جیسے جیسے ہیلتھ ورکرز کی لاشیں جمع ہوتی جارہی ہیں اور پولیو مہم روکنی پڑرہی ہے ویسے ویسے آفیشلز میں یہ خدشہ سر اٹھارہا ہے کہ اس سال بھی ملک میں پولیو کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے پشاور کو دنیا میں ' پولیو کا سب سے بڑا ذخیرہ' قرار دیا ہے۔

دوسری جانب، کراچی جیسے بڑے شہروں کو پولیو کیخلاف مہم میں نسبتاً پرسکون قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ یہاں بھی سیکورٹی کی بگڑتی صورتحال نے پولیو کیخلاف مہم کو متاثر کیا ہے۔ 2012 میں پانچ پولیو ورکرز کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ 2013 میں ایک پولیو ٹیم پر حملہ کیا گیا جو ناکام ثابت ہوا۔ قیوم آباد میں ایک انسدادِ پولیو مہم ٹیم پر ہونے والے تازہ ترین حملے میں تین افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے ۔

' اس عمل ( پولیو ورکرز کے قتل ) کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،' ایکسٹینڈیڈ امیونائزیشن انی شی ایٹوو کی ڈائریکٹر درِ ناز قاضی نے کہا۔

جب کراچی کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت کراچی میں گڈاپ اور ہائی رسک والے علاقے تھے۔' 20 جنوری کو جب یہ پولیو مہم بلدیہ میں شروع کی گئی تو وہاں پولیس اہلکاروں کی تعداد پولیو ورکرز سے ذیادہ تھی،' قاضی نے کہا

لیکن قیوم آباد کو ' ایک محفوظ یا کم خطرناک علاقہ' قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت دو ٹیمیں ایک ساتھ ایک ہی روڈ کے دو طرف کام کررہی تھی اور کوئی پولیس نہ تھی کہ انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ' لیکن اب پورا کراچی ایک ہائی رسک زون ہے اور ہمیں اپنے منصوبوں پر مکمل نظر ثانی کرنا ہوگی،' انہوں نے کہا۔

قاضی کے مطابق کراچی کو اب ' مرحلہ وار انداز میں ویکسین ' دی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ 8,000 پولیو ورکرز کی سیکیورٹی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ پولیو ویکسنیٹرز کی موت کے بعد مہم معطل ضرور کی گئی ہے لیکن منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ تاہم جب تک یہ رپورٹ شائع نہیں ہوجاتی دوبارہ اسے شروع کرنے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔

صحت کے رضاکاروں کو ' پولیوکیخلاف فرنٹ لائن فورس' قرار دینے والی پولیو کیخلاف وزیرِ اعظم سیل کی فوکل پرسن عائشہ رضا فارق نے بھی وہی سوال اُٹھایا جو اس وقت گونج رہا ہے،' کوئی آخر کیسے انہیں قتل کرسکتا ہے جو ان کے بچوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں؟'

عائشہ فاروق نے بتایا کہ وہ ' پوری حکمتِ عملی پر نئے سرے سے غور' کررہے ہیں اور اگلا لائحہ عمل مرتب کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ' سخت اقدامات کئے جائیں گے، ہم پہلے ہی بہت سے ورکرز کھوچکےہیں۔' اسی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا،' اسی دوران ہمیں اپنے ان ( پولیو کیخلاف) اقدامات کو جاری رکھنا ہوگا کیونکہ یہ بزدلانہ ہتھکنڈے ہمیں ہمارے مقصد سے دور نہیں کرسکتے۔'

وزیرِ اعظم کے پولیو مانیٹرنگ سیل کے ٹیکنکل فوکل پرسن ڈاکٹر الطاف بوسن نے چند اہم تجاویز دی ہیں۔ پولیو کیخلاف کام کرنے والی ٹیم اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان خصوصاً صوبہ خیبر پختونخواہ اور کراچی میں تعاون اوررابطہ مضبوط کیا جائے۔ ' محفوظ مہم' ہماری بہترین حکمتِ عملی ہوگی، بوسن نے کہا۔ انہوں نے پولیو والے علاقوں میں چند گھنٹوں کے لئے ' چھوٹے کرفیو' کی تجویز پیش کی تاکہ پولیو ٹیم آسانی سے بچوں کو قطرے پلاسکے۔

افغانستان میں پولیو کیخلاف مہم

افغانستان میں پولیو مہم کی کامیابی کا راز جاننے کیلئے ڈان ڈاٹ کام نے ڈاکٹر عصمت اللہ عرب سے رابطہ کیا جو افغانستان میں گیٹس فاؤنڈیشن کے فوکل پرسن ہیں۔

سال 2013 میں افغانستان میں رونما ہونے والے پولیو کے 13 میں سے 12 کیسز کا تعلق ملک کے شمالی علاقوں کنڑ اور قندھار سے تھا جو پاکستانی سرحد سے منسلک ہیں اور ایک ہلمند سے رپورٹ ہوا تھا۔ جون 2013 میں افغان طالبان نے انسدادِ پولیو مہم کیلئے اپنا تعاون پیش کیا اور علاقوں تک پولیو ورکرز کی رسائی کیلئے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ ' لیکن اس میں چند شرائط ' تھیں، عرب نے کہا۔ ' صرف مقامی ہیلتھ ورکرز کو ہی وہاں جانے کی اجازت دی گئی اور کسی غیرملک میں بسنے والے افغانی کو اجازت نہ تھی لیکن اس طرح بھی ہمیں ان علاقوں تک جانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ۔

چونکہ دور سے بیٹھ کر پولیو مہم کی کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل تھا اور کسی علاقے سے ' پولیو نہ ملنے' کی شرح ایک بہتر انڈیکٹر ثابت ہوا۔

اسی کے ساتھ ساتھ مذاکرات کار اور طالبان کے درمیان رابطے بھی جاری رہے۔ ' انہوں ( طالبان) نے پولیو خاتمے کی ذمے داری بھی قبول کی اور کہا کہ ہمیں اپنے ملک سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے اور اپنے بچوں کو لاچار ہونے سے بچانا ہے،' عرب نے کہا۔

پولیو کیخلاف پاک افغان تعاون

پولیو وائرس کی جینیات ( جنیٹکس) کودیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے افغانستان میں ہونے والے پولیو کیسز کی غالب تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے ، عرب نے کہا۔ ' اس ضمن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک میٹنگ مئی 2013 میں ہوئی تھی لیکن اس کے بعد سے اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی۔'

بعض علاقوں ، مثلاً ہلمند اور قندھار کے کچھ حصوں میں 70 تا 80 فیصد پولیو مہم اور فنڈنگ طالبان کے حوالے کردی گئی ہے اور وہ اسے چلارہے جبکہ مجاز ادارے صرف اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔

دوبارہ پاکستان کی بات کرے تو عائشہ فاروق کے مطابق پاکستان اور افغانستان کا موازنہ کرنا درست نہ ہوگا۔ ' پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک فرنٹ لائن ملک ہے اور بین الاقوامی سیاست کے زخم بھی اس کے حصے میں آئے ہیں۔'

انہوںنے مزید کہا، 'کسی بھی ملک میں ویکسینیشن پر پابندی نہیں لگائی گئی تو ضروری ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ہم کن کن مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ '

کارٹون

کارٹون : 16 مارچ 2025
کارٹون : 15 مارچ 2025