• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

مشرف غداری کیس: عدالت نے تفیشی رپورٹ طلب کرلی

شائع January 22, 2014
فائل فوٹو—
فائل فوٹو—

اسلام آباد: پاکستان سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں عائد الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے عدالت نے گزشتہ روز منگل کو وفاقی حکومت سے تفتشی رپورٹ طلب کی ہے۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا کہ اگر تفتیشی رپورٹ تیار ہے تو عدالت کو دکھائی جائے۔

جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم خصوصی کے سامنے ایک روز قبل سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ وفاقی تفتیشی ادارے یعنی ایف آئی اے نے تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے ذمہ داروں میں خاص طور پر ان کو شامل کیا تھا۔

ایڈوکیٹ انور منصور نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ان کے مؤکل سے دشمنی تھی، جبکہ نواز شریف تفتیش کے عمل میں اثر اندار ہوئے اور داخلہ سیکریٹری نے ٹرائل کے لیے پرویز مشرف کا انتخاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے خصوصی عدالت کے قیام کے معاملے کو سابق چیف جسٹس کے پاس بھیجنے سے پہلے وفاقی کابینہ سے مشاورت نہیں کی۔

اس موقع پر استغاثہ کے وکیل محمد اکرم شیخ نے کہا کہ داخلہ سیکریٹری نے پرویز مشرف پر الزام نہیں لگایا تھا، لیکن یہ تیفیشی ٹیم تھی جس نے پرویز مشرف کو 2007 کی ایمرجنسی کا ذمہ دار ٹھرایا۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت خصوصی عدالت کا قیام حکومت کا حق ہے۔

اکرم شیخ نے دلائل دیے کہ سیکریٹری قانون حکومت کی نمائندگی کرتا ہے اور وزیراعظم اور کابینہ اس سلسلہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل اور اس کے ججوں کا تقرر قواعد اور متعلقہ قانون کے مطابق کیا گیا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ کامیاب حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کے معاملات پر خاموشی اختیار کرتی ہیں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف شکایات دائر کرنے سے بھی گریزاں رہتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنگین غداری کے مقدمے میں شکایات دائر کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور اس کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی تھی جب 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے مسلم لیگ نون کی حکومت کو تحلیل کیا تھا۔

یہ معاملہ عدالتوں میں لایا گیا اور اس پر سوال اٹھائے گئے کہ آیا قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا غداری کے ایکٹ میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 1994ء میں غداری کے مقدمے میں شکایات دائر کرنے کے قوانین جاری کیے تھے اور داخلہ سیکریٹری کو شکایات کے لیے نامزد کیا تھا۔

اس موقع پر عدالت کے جج جسٹس فیصل عرب نے اکرم شیخ سے پوچھا کہ آیا سیکریٹری قانون ملزم یا کسی مخصوص شخص کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا ہے۔

جس پر ان کا کہنا تھا کہ قانون داخلہ سیکریٹری کو اختیار دیتا ہے وہ تفیشی رپورٹ حاصل ہونے کے بعد ملزم کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پراسیکیوٹر ایجنسی نے گواہوں اور ثبوت کی فہرست اور الزامات کے بیان کی تیاری کے دوران قوانین کی سختی سے پیروی کی تھی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ استغاثہ کے گواہوں میں پرویز مشرف کے ایک سینیئر وکیل شریف الدین پیرزادہ کا نام بھی شامل ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو اس معاملے میں شریک افراد کا علم ہے تو وہ ان کے نام ثبوت کے ساتھ عدالت میں پیش کرسکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024