چوہدری اسلم- کامیابی اور خوف کی علامت
کراچی: ان کے اس سفاکانہ انداز میں قتل سے کسی حد تک پولیس کے مورال میں فرق پڑے گا۔یہ ان کے ساتھیوں کے لیے بھی ایک ایسا نقصان ہو سکتا ہے جس کا انہوں نے کبھی نہ سوچا ہو لیکن ایس پی محمد اسلم خان کی زندگی کا اس انداز میں اختتام یقیناً غیر متوقع نہ تھا۔
ان کے ایک ساتھی نے مسلسل روتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔۔۔۔۔ یہ ناگزیر تھا ، انہوں نے اس طرح جان دینے کا انتخاب کیا۔
کراچی پولیس سے واقف لوگوں کے لیے مشہور ایس پی محمد اسلم کا نام نیا نہ تھا۔ سٹی پولیس میں 30 سالہ ملازمت کے بعد ایس پی خان بہت سے لوگوں لیے فتح اور کچھ کے لیے نفرت کی علامت تھے۔
بہت سے لوگوں کے لیے وہ حفاظت کا ذریعہ تو کچھ کے لیے مستقل دہشت کی حیثیت رکھتے تھے، تنازعات ان کی زندگی کا اہم جزو رہے لیکن یہ چیزیں بھی مجرموں کو منہ توڑ جواب دینے کے اصول کی راہ میں حائل نہ سکیں۔
انیس سو نوے کی دہائی میں ہونے والے کراچی آپریشن سے لے کر 2009 میں عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیٹ کے قتل تک، گینگ وار کے ملزموں کے خلاف اپریل 2012 لیاری میں کئی روز تک آپریشن سے لے کر اپنی ہلاکت سے کچھ گھنٹے قبل منگھو پیر میں مزتبہ دہشت گردوں کے مارے جانے تک ، ایس پی خان میڈیا، پولیس حکام اور سیاسی جماعتوں میں کیب حوالوں سے جانے جاتے تھے۔
کالعدم تنظیم کے ارکان کی گرفتاری کے کامیاب آپریشن کے بعد آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کی جانب سے شہر کے خطرناک ترین افسران میں سے ایک قرار دیے جانے ایس پی خان کرائم سندھ پولیس انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ(سی آئی ڈی) کے انسداد انتہا پسندی سیل کے سربراہ تھے۔
تحریک طالبان پاکستان نے جمعرات کو ان پرجان لیوا حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جرائم کی دنیا سے وابستہ بہت سے افراد انہیں زندہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ 1984 میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس کا حصہ بننے والے چوہدری کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں بھرپور عزائم کی کئی بار قیمت چکانا پڑی۔
متحدہ قومی موومنٹ اور شہر میں سیاسی خون خرابے کی تاریخ سے واقف لوگوں کے لیے وہ 1990 کی درمیانی دہائی میں گلبہار اسٹیشن ہاؤس افسر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ سینئر رپورٹرز کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب وہ بہت کم پولیس کی وردی میں ملبوس دکھائی دیتے تھے۔
نوے کی دہائی میں جب چوہدری اسلم کراچی پولیس میں متحرک تھے، بہت سے سیاسی کارکن بالخصوص اس وقت کی مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد پولیس مقابلے میں مارے گئے، ان ہلاکتوں کو بعدمیں ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا اور متحدہ آج بھی اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیتی ہے۔
وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے دور میں قائم ہونے والا اس ظالمانہ رجحان کی وجہ سے 1996 میں بینظیر بھٹو حکومت اپنے انجام کو پہنچی کیونکہ صدر فاروق احمد خان لغاری نے کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور کرپشن اسکینڈل کے باعث اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔
گزشتہ دہائی کے دوران کراچی آپریشن سے منسلک زیادہ تر افسران کو قتل کر دیا گیا لیکن ایس پی خان کی 1998 میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی کر دی گئی اور اپنے کام میں پیشہ ورانہ مہارت کے باعث 2005 انہیں سپرنٹنڈنٹ کا منصب سونپ دیا گیا لیکن اس دوران تنازعات کے باعث ان کے کیریئر کو شدید نقصان پہنچا۔
سن 2006 میں لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت سے بدنام زمانہ ڈکیٹ مشتاق بروہی کے قتل کے الزام میں انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
سولہ ماہ تک جیل میں بند رہنے کے بعد دسمبر 2007 میں سندھ ہائی کورٹ نے اسلم خان اور ان کےساتھیوں کوضمانت پر بری کر دیا۔ ابھی 2006 میں ہونے والے بروہی قتل کی بازگشت ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ 2009 میں وہ ایک بار پھر انہی پرانی وجوہات کی بنا پر منظر عام پر آ گئے۔
ایس پی انوسٹی گیشن شرقی-2 کی حیثیت سے چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں نے لیاری سے تعلق رکھنے والے رحمان ڈکیٹ کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا۔
ستمبر 2011 میں وہ ایک بار پھر اس وقت شہہ سرخیوں کی زینت بنے جب ڈیفنس سوسائٹی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر حملے میں وہ بال بال بچے جبکہ اپریل 2012 میں لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے کے لیے علاقے میں کیے جانے والے محاصرے میں بھی ان کا نام میڈیا میں زیر گردش رہا۔
ایس پی خان اور ان کی ٹیم کی ناکامی اور اس دوران بارہ جانباز اہلکاروں سے محروم ہونے کے بعد لیاری میں جاری آپریشن ایک ہفتے بعد ختم کر دیا گیا۔
شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد سے مقابلوں سے لے کر ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے تک 47 سالہ افسر ہرمرحلے پر انتہائی مطمئن دکھائی دیتے تھے۔
عالمی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے سب سے سخت جان پولیس افسرقرار دیے جانے والے اسلم پر اسے سے قبل بھی متعدد قاتلانہ حملے کیے گئے جن میں وہ سلامت رہے لیکن جمعرات کو خوش قسمتی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
ان کے ایک ساتھی نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اسلم پر ہونے والے حملوں کے بارے میں کچھ یوں بتایا 'شاید پانچ اور پھر کچھ وقفے کے بعد سوچتے ہوئے دوبارہ کہا کہ رکیں، میرے خیال میں شاید نو لیکن یہ چیز اتنی اہم نہیں، میرے خیال میں انہیں صرف وہ حملے یاد رہے یا ان کا ذکر کیا جنہوں نے کسی حد تک نقصان پہنچایا ہو، جیسے کہ کسی حملے میں انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا ہو اور ان کے محافظ ہلاک ہو گئے ہوں، یہ روزانہ کا معمول تھا اور وہ 1995 کے بعد سے اس کا سامنا کر رہے تھے'۔
ایس پی خان کبھی بھی منظر عام سے غائب نہیں رہے، چاہے وہ میڈیا ہو، پولیس یا سیاسی حلقے، وہ ہمیشہ ہی گفتگو کا حصہ رہے۔1998 میں انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کو بنکاک سے وطن واپسی پر کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیے جانے کوایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔
مرزا کو کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ملک شاہد حامد اور 1995 میں امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کے پاکستانی ملازم سمیت متعدد افراد کے قتل کے الزامات تسلیم کرنے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔
حیرت انگیز طور پر ایس پی خان اور مقتول شاہد حامد کے اکلوتے بیٹےعمر قریبی ساتھی رہے اور انہوں نے لیاری ٹاسک فورس اور سی آئی ڈی میں ایک ساتھ کام بھی کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں