انتہا پسندی سے روشن خیالی تک
یہ ایک سچّی کہانی ہے۔ پڑھنے سے آپکو یہ اندازہ ہوگا کہ کس طرح مختلف عوامل ملکر ہمارے نوجوانوں کو دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف لے جاتے ہیں۔ کہانی میں ہم اپنے اس کردار کے اصل نام کی بجائے اُس کے بچپن کا نک نیم "محبّی" استعمال کرتے ہیں۔
محّبی ابھی بچہ ہی تھا کہ نانی نے اُسے نماز پڑھنا سکھایا۔ نماز پڑھنا سیکھ کر محبّی نماز پڑھنے میں ایسے جُت گیا کہ صبح کی نماز کے لئے رات دو بجے ہی مسجد پہنچ جاتا۔ جنوری کی سردی میں جب مسجد کے غسل خانوں میں پانی برف ہو جاتا تھا محبّی اسے توڑ کر صبح غسل کرکے نماز پڑھتا۔
صرف یہ نہیں بلکہ جنگل میں میں بھی برف سے وضو کرکے اور آذان دیکر نماز پڑھتا۔ محبّی اتنے "متّقی" بن گئے اس کمسنی میں ہی محلّے والے اسے "پیر صیب" کہہ کر بلاتے۔ یہاں تک تو بالکل ٹھیک تھا مگر جب محّبی کے اندر "تقدّس" کو محلّے میں موجود تبلیغی جماعت کے مبلغین نے تاڑ لیا تو انہوں نے اسے پھسلایا کے وہ بھی ان کے ساتھ روازانہ "عصر کی گشت" میں شریک ہو اور گاؤں میں "بے نمازیوں" کو مسجد آنے کی تلقین کرے۔
ان تبلیغیوں کے زیر اثر محّبی مسجد میں عصر اور عشاء کی نمازوں کے بعد "فضائل اعمال" نامی کتاب جسے کسی زمانے میں تبلیغی نصاب سے بھی جانا جاتا تھا، میں سے "دعوت تبلیغ" سے متعلق احادیث لوگوں کو سناتا۔ یہ کتاب پشتو زبان میں ترجمہ تھی اور محّبی کا پشتو کی اور کسی بھی غیر نصابی کتاب سے یہ پہلا واسطہ تھا۔
محّبی کو یہ کتاب قرآن شریف کے بعد سب سے بڑی اور مقدّس کتاب لگی۔ محلّے کے ان سادہ لوح تبلیغی حضرات کے زیر اثر اپنا محّبی دعوت تبلیغ میں "سہ روزوں اور عشروں" میں جاتا رہا اور ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کے سالانہ اور علاقائی اجتماعات میں شرکت کرتا رہا۔
علاقے کے مرکزی گاؤں میں تین بڑی مسجدیں تھیں جن میں دو تبلیغی جماعت کے مطابق "بدعتی" تھے. تیسری مسجد سے ہی تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کی ہفتہ وار "تشکیل" برائے سہ روزہ و عشرہ ہوا کرتی تھی۔ یہی مسجد بڑی زور و شور سے علاقے میں "اصل دین" کا پرچار کیا کرتی تھی اور اس کے لئے صوبے کے دوسرے علاقوں جیسے صوابی کے پنچ پیر کے علماء کو بھی اکثر اوقات دعوت دیتی تھی۔
اپنے گاؤں میں "جمعے کی نماز کے غیر شرعی" ہونے کے فتوے کی وجہ سے محبّی اس دیوبندی مسجد میں ہر جمعے کو حاضر ہوتا اور وہاں نماز کے بعد گھنٹوں "تعلیم" سنتا۔ تبلیغی حضرات نماز کے بعد فضائل اعمال نامی کتاب سے احادیث سنانے کو تعلیم کہتے ہیں۔ محبّی کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اس جامع مسجد میں "تعلیم" سنانے کے قابل ہوجائے. بلآخر وقت آیا اور وہ "اصلی تے وڈے مسلمانوں" کی مسجد میں لوگوں کو فضائل اعمال سے احادیث سنانے لگا۔
ابھی آٹھویں کلاس میں ہی تھا کہ اس نے دُنیا کو "غلط عقائد" سے پاک کرنا اپنا فرض گردانا۔ چونکہ تینوں مسجد والوں میں "بڑے بڑے" اختلافی مسئلوں مَثَلاً؛
کیا سنّت نماز کے بعد دُعا کرنا جائز ہے کہ نہیں،
پانئچے ٹخنوں سے اوپر رکھنا لازمی ہے،
میت پر قرآن شریف کا "دورہ" جائز ہے یا نہیں
اور ان جیسے بہت سے 'سنگین' مسائل پر انتہائی تلخ اور اکثر پرتشدّد اختلافات رہتے تھے، لہذا دیکھا دیکھی محبّی بھی "پُرانے مسلک" سے وابسطہ لوگوں کو مشرک سمجھنے لگا۔ اس کے گاؤں میں جنتے بزرگ تھے محبّی ان سے الجھتا رہتا اور کہتا کہ وہ "جاہل، بدعتی اور مشرک" ہیں۔
محبّی جب نویں جماعت پہنچا تو اسے علامہ اقبال کی "انقلابی اسلامی" شاعری سے عشق ہوگیا۔ علامہ کی وہ خیالی تصویر جس میں موصوف مونچھوں کو تاؤ دئیے فلمی ہیرو لگتے ہیں اور ایک کندھے پر باز بیٹھایا ہے محبّی کی ہر کتاب پر چسپاں ہوتی۔ اس نے علامہ کی مشہور نظم "شکوہ و جوابِ شکوہ" ازبر یاد کی اور اقبال کی لے اور وزن میں ُتک بندی بھی شروع کردی۔ شاہین سے ایسا عشق ہوا کہ معصوم بچّہ خود کو بھی "اقبال کا شاہین" سمجھنے لگا۔
انٹرمیڈیٹ کیا تو وہ اقبال اکیڈیمی لاہور کا ممبر بن چکا تھا جو اسے اقبال اور دوسرے اکابرین پر کتابیں بھیجتا رہتا۔ بسا اوقات مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اور مفتی شفیع عثمانی کی معرف القرآن کو بھی پڑھتا رہتا۔ جماعت اسلامی کے بعض سنیئر ساتھیوں سے رسالہ "ترجمان القرآن" بھی لیتا اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا تاہم اس رسالے کی دقیق اردو سے بڑا نالاں بھی تھا۔
کالج میں جمعیت طلباء اسلام اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستہ رہے مگر یہ رشتہ موصوف کی الگ لسانی شناخت اور پشتو کے بولنے میں مشکل کی وجہ سے کبھی پختہ نہ رہی۔ ان دو وجوہات کی وجہ سے محبّی کالج میں میل جول سے کتراتا تھا اور الگ تھلگ رہنا پسند کرتا تھا۔
اب محبّی اپنے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھوانے کے قابل ہوچکا تھا مگر جب کوئی اسے "ملان" --اسکی مادری زبان کا لفظ جو مولوی کے مترادف ہے-- کہہ کر پکارتا تو اسے اچھا نہیں لگتا، لیکن مولوی کے ذمے کے سارے کام محبّی کرتا رہتا۔
میٹرک کے امتحان میں بی گریڈ کے ساتھ اپنے سکول اور پورے علاقے میں اّول آیا تو اس کی شہرت جمیعت طلباء اسلام اور اسلامی جمیعت طلبہ تک پہنچ گئی اور وہ موصوف کی "اورینٹیشن" کے لئے اس کے اور دیگر ساتھیوں کے پاس پہنچ گئے۔
کچھ وقت محبّی دونوں تنظیموں کا رکن بھی رہا۔ جو شے اس وقت اسے تڑپاتی تھی وہ علاقے اور گاؤں میں اسکے والد کی غربت اور اسکی وجہ سے بے توقیری تھی۔ محبّی کی آرزو تھی کہ اس کے والد کو بھی لوگ پہچانیں اور بازار میں "عزّت" ہو۔ اس کے لئے محبّی "سکول پڑھنے" کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں سخت محنت بھی کرتا رہتا اور ان سارے معاشی جھمیلوں سے آگاہ رہتا جو اس کے والد کے گرد رہتیں۔ والد صاحب ایک دہقان تھے جن کے پاس اپنی زمین کم تھی اور وہ دوسروں کی کھیتوں کو "اجارے یا قلنگ" پر لیتے۔ دہقان ہونے کا یہ دھبّہ بھی محبّی کو ستاتا تھا۔
اس صورت حال میں اگے کی تعلیم ممکن نہیں تھی لیکن والد محترم نے ہار نہ مانی اور اسے انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لینے کی اجازت اور درکار رقم دیدی اور اس نے 70 کلومیٹر دور واحد کالج میں داخلہ لیا۔
ابھی سال اوّل سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ محلّے کے ایک بدمعاش اور اس کے رشتہ داروں نے محبّی کو مارا پیٹا اور جھگڑوں کا یہ سلسلہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔ اس سے محبّی میں سماجی کمتری اور ظلم کا احساس اور گہرا ہوتا گیا۔ انٹر کرنے کے فوری بعد محبّی نے علاقے میں واحد پرائیویٹ اسکول میں ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض پڑھانا شروع کیا۔
اس دوران اس کی 'دوستی' جماعت اسلامی کے ایک مقامی امیر رکن سے ہوئی جو کافی پرھے لکھے ہیں۔ وہ اپنی 'نسیم حجازی' ٹون اور سقّہ زبان میں مختلف ایشوز پر تقریریں کرتے اور اکثر جماعت اسلامی کی 'شاندار' کاردگی اور تاریخ پر روشنی ڈالتے رہتے۔ علاقے میں پہلا کمپوٹر اسی رکن کے پاس تھا اور اس کے ذریعے بسا اوقات محبّی اور اس کے ساتھیوں کو مشرقی تیمور اور فلسطین میں مسلمانوں پر مبینہ ظلم کے ویڈیوز بھی دکھاتے۔
مذکورہ امیر اکثر وہ وڈیو بھی دکھاتے جس میں جماعت کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا گیا تھا جب انہوں نے سابق ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر احتجاج کیا تھا۔ اس ویڈیو میں مشرقی تیمور سے بھی کلپس غالباً شامل تھے۔
جب محبّی نے پرایئویٹ سکول میں 'جاب' شروع کی تو اس وقت مولانا صوفی محمد کی تحریک برائے نفاذِ شریعتِ محمدی زوروں پر تھی۔ اس سے متاثر ہو کر محبّی اور اس کے ساتھیوں --جو کہ نسیم حجازی کے ناولوں کے شیدائی تھے-- نے چند دوسرے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ایک تنظیم "انجمن جان نثارانِ اسلام" کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا بڑا ہدف "معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ" تھا۔
انہی دنوں محبّی کے علاقے کے مرکزی گاؤں میں ٹی وی کی سیٹلائیٹ ڈش انٹینا کا رواج عام ہوا۔ اس "برائی" کا قلع قمع کرنا انجمن نے اپنے ذمہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ ایک نشست میں محبّی نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے جماعت اسلامی والوں سے مناظرہ کیا تھا جب جماعت کے ایک انتخابی امیدوار نے اپنی کتاب میں مبینہ طور پر مسواک پر ٹوتھ پیسٹ کو ترجیح تھی۔ محبّی نے یہ کتاب نہیں پڑھی تھی بلکہ اسے جمعیت علماء اسلام کے حامیوں نے ایسا بتایا تھا۔
اس زمانے میں بھی محبّی تبلیغی جماعت اور اس دیوبندی مسجد سے وابستہ رہا جو کہ علاقے میں تبلیغی جماعت کا مرکز تھی۔ وہ اپنے ایمان کو کب آخری درجے پر گوارا کرتا اور کسی موقعے کی تلاش میں تھا کہ کس طرح "برائی" کو "بزورِ بازو" منع کرے اور نتیجتاً ایمان کو اعلیٰ ترین درجے پر فائز کرے۔
صوفی محمد کی تحریک سے بہتر موقع اور کیا ہوسکتا تھا۔ محبّی "تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی" کا سر گرم کارکن بن گیا، اسکے جلسوں میں شریک ہوتا رہا اور جب اس تحریک نے ملاکنڈ ڈیویژن میں شریعت کے نفاز کے لئے ہتھیار اٹھائے تو موصوف نے بھی اس میں اپنے ساتھی سمیت حصّہ لیا۔ مگر جلد ہی اس مسّلح تحریک کو اس وقت کی حکومت نے کچل دیا اور موصوف بھی کئی لوگوں کی طرح حکومت کو کوستے اور فتوے لگاتے رہ گئے۔
زندگی یوں ہی چلی جا رہی تھی۔ پرائیویٹ سکولوں میں استاد ہونے کا محّبی کو بڑا فائدہ ہوا۔ مالی فائدہ توخیر نہیں تھا لیکن اس جاب نے محبّی کے اندر علم حاصل کرنے خصوصاً انگریزی زبان سیکھنے اور لکھنے کی خواہش کو زندہ رکھا۔ وہ ان اسکولوں میں انگریزی کا استاد ہوا کرتا تھا۔ بچّوں کو انگریزی قواعد پڑھانے کے لئے محبّی کو مختلف کتابیں پڑھنی ہوتی تھیں۔
آہستہ آہستہ محبّی اپنے شاگردوں کے لئے انگریزی ادب کے بڑے بڑے ناولز اور کہانیوں کے آسان (abridged version) آکسفرڈ یوینورسٹی پریس سے منگوانے اور اپنے شاگردوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کتابوں میں شیکسپئیر کی کہانیاں بھی شامل تھیں جنہیں چارلس لیمبز نے قدرے آسان انگریزی میں ترتیب دیئے ہیں۔ اسی طرح چارلس ڈکنز کے مشہور ناولوں Great Expectations اور David Copperfield کے آسان ورژنز بھی شامل تھے۔
ان سکولوں میں انگریزی پڑھانے سے سٹودنٹس کو اگر نہیں تو استاد کو فائدہ ضرور ہوا اور وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی تعلیم کو اگے جاری رکھ سکیں۔
اس کے بعد محبّی نے ایک بار پھر تعلیم کی طرف رجوع کیا اور بی اے اور ایم اے پرایئویٹ امیدوار کے طور پر کرتا رہا۔ بی اے کے بعد محبّی نے ماسٹرز انگریزی ادب میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایم اے میں محبّی کا واسطہ ان کتابوں سے پڑا جن کو عمومًا یونیورسٹیوں کی باقاعدہ کلاسوں میں نہیں پڑھایا جاتا کیونکہ مطمح نظر صرف امتحان ہوتا ہے اور پرچے کے پانچ سوالات دیگر اسان نصابی کتب اور معاون شرحوں کی مدد سے بہ آسانی حل ہوسکتے ہیں۔
ایم اے میں محبّی کا واسطہ برٹرنڈ رسل کی کتابوں سے ہوا کیوں کہ موصوف کے مضامین پر شامل ایک کتاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل تھی۔ اس کتاب کو اکثر کالجوں اور یونیورسٹی کے انگریزی ادب و زبان کے شعبوں میں نہیں پڑھایا جاتا کیوں کہ امتحانی پرچے میں چوائس کے ہونے کی وجہ سے اس کتاب اور کئی دیگر کتابوں کو پڑھے بغیر بھی امتحان پاس کیا جا سکتا ہے۔ رسل کی یہ کتاب محبّی پر کارگر ثابت ہوئی اور اس نے موصوف کے ذہن کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔
اسی دوران محبّی ان پرائیویٹ سکولوں سے الگ ہوا اور اپنے علاقے سے دور کسی سکول میں استاد بننے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک ایسی ہی تلاش میں جب وہ انٹرویو کے لئے گیا تو وہاں پرنسپل کے آفس میں اس کی نظر علی عباس جلالپوری کی معروف کتب "عام فکری مغالطے" اور "اقبال اور علم کلام" پر پڑی۔
اس بڑے پرایئویٹ سکول میں جاب تو نہ مل سکی لیکن محبّی مذکورہ پرنسپل سے ان دو کتابوں کو قرض لینے میں کامیاب ہوا۔ ان کتابوں سے موصوف کا تعارف مغربی فلسفے سے ہوا اور اس نے برٹرنڈ رسل کی آپ بیتی، ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی ؛ ول دیورنٹ کی کتاب "نشاط فلسفہ" Pleasure of Philosophy اور "فلسفے کی کہانی" Story of Philosophy پڑھنا شروع کئے اور یہیں سے "تبدیلی" کا سفر شروع ہوا۔
رفتہ رفتہ اس سفر میں محبّی کے ساتھی اور شاگرد بھی شامل ہونا شروع ہوئے اور بتدریج ان کی الماریاں ایسی کتابوں سے بھرنے لگیں۔ وہ ان کتابوں کو ذیادہ تر ردی سے لیتے اور جمع کرتے رہتے۔
کافی عرصے بعد پچھلے دنوں ایک نجی محفل میں ملاقات ہوئی تو ایک پر اعتماد اور روشن خیال محبّی سے مل کر نہایت خوشگوار حیرت اور مسرّت ہوئی. اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی نظریاتی کشمکش سے نکلنے میں اور انتہاپسندی سے انسان دوستی کی طرف سفر میں ان کتابوں کے مطالعے کو سنگِ میل سمجھتا ہے اور اس لحاظ سے سمجھتا ہے کہ ہمارے ملک میں "کسی استاد اور درسگاہ کی بجائے آزاد مطالعہ" زیادہ مفید رہتا ہے کیونکہ ایسی کتابیں سوال کرنا سکھاتی ہیں اور آزاد مطالعے میں سوالات پوچھنے پر اُستاد کی ڈانٹ نہیں پڑتی۔ پڑھنے والا خود سے سوالات پوچھتا ہے اور خود ہی ان کے جوابات کی تلاش کرتا ہے۔
رخصت ہوتے وقت میں نے محبّی سے پوچھا کہ ان کے خیال میں پاکستان کی نئی نسل کو فکری انتشار سے نکالنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری کیا چیز ہے؟
جواب آیا؛ کوئی فارمولا نہیں لیکن سب سے زیادہ ضروری اور ارجنٹ ہے، "آزاد مطالعہ" (Self Study).
تبصرے (2) بند ہیں