ملے جو دیں سیاست سے - 3
روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔
'سیاست ایک گٹر ہے'، یہ فقرہ ہم سب بہت بار سن چکے ہیں، لیکن مذہب اور سیاست کے تعلق پر بات کرنا کبھی گوارہ نہیں کرتے. اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں گرنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی. تاریخ گواہ ہے مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت ہونے کا واحد ایک ہی مطلب اور نتیجہ نکلتا ہے، ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے مذہب جیسے عظیم اور مقدّس آئیڈیل کا ناجائز استعمال اور استحصال.
گو علامہ اقبال نے مذہب اور سیاست کے تعلق سے فرمایا تھا؛
"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"
لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کرّاہ اٹھتے کہ؛
"ملے جو دیں سیاست سے تو آجاتی ہے چنگیزی!"
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا مہلک ترین غلطی ہے اور جس کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔
یہ اس بلاگ کا تیسرا حصّہ ہے، پہلے اور دوسرے حصّے کے لئے کلک کریں
جون 1948ء میں جھنگ کے دورے کے دوران مولانا مودودی نے ایک اخبار نویس کو بتایا;
"میرے نزدیک کسی کو 'مہاجر' کہنا ازروئے شریعت ناجائز ہے کیونکہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا یہ سفر ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت اعلائے حکم اللہ کے لئے کی جاتی ہے۔ لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اس لئے حاصل کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر اسلامی خلافت چلائی جائے گی بلکہ یہ قومیت کی جنگ تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ میرے نزدیک مہاجرین کی جانی و مالی قربانیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ بھگوڑے اور بزدل ہیں۔ انہوں نے ایک غلط قدم اٹھایا تھا، قومیت کی جنگ لڑی تھی اور جب اس کی سزا بھگتنے کی باری آئی تو مشکلات سے گھبرا کر راہ فرار اختیار کی"۔
یہ باتیں کرنے والے مولانا خود پٹھان کوٹ سے فرار ہو کر آئے تھے لیکن مہاجرین کو بھگوڑا اور بزدل کہتے وقت اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق نہ ہوئی۔
جولائی 1948ء کے ترجمان القرآن میں مودودی صاحب نے لکھا؛ "اسی حل کو مسلمانوں نے قبول کیا (یعنی پاکستان کو) اور اپنی ساری قومی طاقت، اپنے تمام ذرائع اور اپنے جملہ معاملات اس قیادت کے حوالے کر دیئے جو ان کے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس کے بعد آج اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس نے کس طرح، کس صورت میں ہمارے مسئلے کو حل کیا۔ جو کچھ ہو چکا، وہ تو انمٹ ہے اور اب اسے بدلا نہیں جا سکتا، اس پر بحث بیکار ہے کہ یہ کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ البتہ اس حیثیت سے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل ہمیں اب درپیش ہیں، کیا ان کے حل کے لیے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اسی طرح حل کر چکی ہے؟ کیا اس کا اب تک کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ اب جو بڑے بڑے اور نازک مسائل ہمارے سر آن پڑے ہیں جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے، انہیں حل کرنے کے لیے ہم اس پر اعتماد کریں؟ تحریک پاکستان کے اجزاء ترکیبی میں مومن اور کھلے کھلے ملحد سب شامل تھے بلکہ دین میں جو جو جتنا ہلکا تھا، وہ اتنا ہی اوپر آیا۔ اس میں اخلاق کی سرے سے کوئی پوچھ نہیں تھی۔ عام کارکنوں سے لے کر بڑے بڑے ذمہ داروں تک میں انتہائی ناقابل اعتماد سیرت کے لوگ موجود تھے۔ بلکہ تحریک کا قدم جتنا آگے بڑھا اس قسم کے عناصر کا تناسب بڑھتا ہی چلا گیا۔ اسلام کو اتباع کے لیے نہیں بلکہ عوام میں مذہبی جوش پیدا کرنے کے لیے فریق جنگ بنایا گیا تھا۔ کبھی ایک دن کے لیے بھی اس کو یہ حیثیت نہیں دی گئی کہ وہ حکم دے اور یہ اسے مانیں اور کوئی قدم اٹھاتے وقت یہ اس سے استصواب کریں"۔
نوائے وقت نے تبصرہ کیا؛ "حضرت مولانا نے 10 سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کھول کر بات کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائداعظم مانو! اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے؟ اپنا پروگرام نہ بتانا اور محض نعروں ہی سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائد اعظم کو ’احمق‘، ’غلط کار‘ اور ’دین میں ہلکا‘ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہرگز آ پ کے شایان شان نہیں"۔
جناح صاحب کی وفات پر مولانا نے فرمایا؛ "بے وقت موت ایک ملحدانہ اصطلاح ہے۔ مسلمان کے نزدیک ہر موت اپنے ٹھیک وقت پر آتی ہے اور خدا اس کا وقت کسی مشورے سے نہیں بلکہ اپنی حکمت اور مصلحت کے اعتبار سے مقرر کرتا ہے۔"
اگست 1948 ء میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں پاک فوج میں بھرتی ہونے سے منع فرمایا کیونکہ انکے مطابق وہ ایک "غیر اسلامی فوج" تھی (ساٹھ سال بعد انکی جماعت کے سربراہ نے طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجیوں کو ’شہید‘ کہنے سے انکار کیا، جواب میں فوج نے منور حسن پر چڑھائی تو کی لیکن مودودی صاحب کی تعریف بھی کر ڈالی۔ تاریخ سے ناآشنائی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے)۔
اکتوبر 1948ء میں حکومت پاکستان نے غداری کے الزام میں جماعت پر پابندی عائد کر دی اور اسکے زیر تحت تمام اخبارات اور رسائل کے اجازت نامے منسوخ کر دیے۔ اس کے علاوہ جماعت کے سربراہان کو جیل بھیج دیا گیا، افسر شاہی میں جماعت سے ہمدردی رکھنے والے افسران کو برطرف کر دیا گیا اور وزیر اعظم لیاقت علی خان نے سرکاری ملازمین کو جماعت کا لٹریچر پڑھنے سے منع کر دیا۔
جیل کی سلاخوں کے عقب سے مولانا نے اپنے ساتھیوں عبدالجبار غازی (قائم مقام امیر جماعت) اور عبدالغفار حسن کے ذریعے شبیر عثمانی تک اپنا پیغام پہنچایا۔ بعد میں شبیر عثمانی نے قرارداد مقاصد کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا، اس قرارداد کے الفاظ میں جماعت اسلامی اور اسکے مطالبات کی گونج واضح ہے۔
اس صورت حال کے باوجود مولانا نے قرارداد کی منظوری کے بعد یہ بیان دیا؛
"ان حضرات کے قرارداد مقاصد پاس کرنے کی حیثیت بالکل ایسی ہے جیسی کوئی میم صاحبہ کسی مسلمان نواب یا رئیس زادے سے نکاح کرانا چاہے اور وہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے وراثت کے حقوق اور مسلمان سوسائٹی میں برابری کے حقوق حاصل کرنے کے لیے کلمہء اسلام پڑھ لے۔ لیکن نہ اس کلمے سے پہلے اس کی زندگی میں کوئی تغیر آئے اور نہ اس کے بعد کوئی تبدیلی رونما ہو۔ جیسی میم صاحبہ وہ پہلے تھیں، ویسی ہی میم صاحبہ وہ بعد میں رہیں۔"
مودودی صاحب کے اس بیان پر یہ محاورہ راس آتا ہے کہ بکری نے دودھ دیا، وہ بھی مینگنیوں بھرا!
مارچ 1949ء میں دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد زیر بحث تھی تو جماعت اسلامی کے ایک وفد نے کراچی جا کر حزب اختلاف کے قائد سریش چندر چٹوپادھیا کو مودودی کی ایک کتاب دی تھی جس میں لکھا تھا کہ ’اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہیں ہے‘۔ اس پر چٹوپادھیا نے اگلے روز ایوان میں مودودی کے اس ’اسلامی نظریے‘ کے خلاف بہت واویلا کیا تو سردار عبدالرب نشتر نے اس موقع پر مداخلت کر کے کہا، ’یہ شخص آج کل جیل کی ہوا کھا رہا ہے‘ اور لیاقت علی خان نے کہا، ’لاہور کے جن علماء نے یہ اسلامی لٹریچر مہیا کیا ہے، وہ شرپسند ہیں اور پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ خدا کے لیے ان کے شرانگیز پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں۔ میں ایسے عناصر کو، جو پاکستان میں انتشار پھیلاتے ہیں، متنبہ کرتا ہوں کہ ہم انکی سرگرمیوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے‘۔
ستمبر 1949ء میں جماعت کے قائم مقام امیر عبدالجبار غازی نے بیان جاری کیا؛
"قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی کو آئینی اصطلاح میں ایک سیاسی جماعت قرار دینا لغویت ہے۔ اس اصطلاح کی بنیاد اس غلط تصور پر ہے کہ مذہب اور سیاست الگ الگ ہیں۔ یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کو، جس کا نصب العین اسلام کو اس کی مکمل صورت میں نافذ کرنا ہے، محض ایک سیاسی جماعت قرار کہنا اور سرکاری ملازمین کے لیے اسکی رکنیت کی مخالفت کرنا بے ہودگی ہے"۔
غازی صاحب نے اس امر پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا کہ کچھ سال قبل انکی جماعت کے امیر نے کارکنان کو سرکاری ملازمت سے منع کیا تھا تو اب اس مسئلے پر شور و غوغا منافقت کے ذمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
مئی 1950ء میں عدالتی احکامات کے ذریعے جیل سے رہائی حاصل کرنے کے بعد مولانا نے ایک نیا پینترہ بدلا۔ زبان کے مسئلے پر بنگالیوں نے جمہوری، سیکولر حکومت پاکستان سے اختلاف کیا تو جناب نے حکومت کی حمایت کی اور جون 1950ء کے ترجمان القرآن میں اسلام اور اردو کو اسلامی مملکت کی وحدت کے لیے ضروری قرار دیا۔ مودودی صاحب نے ایک تقریر میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ مستقبل میں بننے والے آئین میں پاکستان کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ رکھا جائے۔
اسی طرح جمہوریت کو 'کفریہ نظام' قرار دینے والی جماعت نے مارچ سن 1951ء میں پنجاب میں منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
مودودی صاحب نے اس موضوع پر فرمایا؛
"دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کے پاس ہو جانے کے بعد ریاست پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اب ہمارے لئے دوسرا اہم مرحلہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو بھی ایک اسلامی حکومت میں تبدیل کیا جائے۔ اس تبدیلی کی سعی کا ایک ضروری جزو یہ ہے کہ جہاں جہاں انتخاب کا موقع پیدا ہو، وہاں ہم ایسے صالح لوگوں کو منتخب کرانے کی کوشش کریں جو اپنی ذہنیت اور سیرت کے اعتبار سے سچے مسلمان ہوں، جن پر یہ بھروسہ کیا جا سکے کہ اقتدار کی امانت پا کر وہ خدا اور اسکے دین اور ملت پاکستان کے ساتھ خیانت نہیں کریں گے اور جن سے یہ امید کی جا سکے کہ وہ حکومت کے نظام کو خلافت راشدہ کے طریق پر ڈال سکیں گے"۔
انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایک انوکھا تجربہ یہ کیا کہ امیدواری اور پارٹی ٹکٹ سسٹم کو امہات الخبائث قرار دے کر ترک کر دیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ؛
’جماعت نہ اپنے پارٹی ٹکٹ پر آدمی کھڑے کرے گی، نہ اپنے ارکان کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونے کی اجازت دے گی، نہ کسی ایسے شخص کی تائید کرے گی جو خود امیدوار ہو اور اپنے لیے آپ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔‘
طریق انتخاب یہ تھا کہ جماعت ان علاقوں کو جدوجہد کے لیے منتخب کرے گی جہاں پہلے ہی اس کا اثر و نفوذ ہے، ان حلقوں کے ووٹروں سے رابطہ قائم کیا جائے گا اور ان کے سامنے جماعت اپنے مقاصد واضح کرے گی، پھر جو ووٹر جماعت کے مقاصد سے اتفاق کریں گے ان پر مشتمل انتخابی پنچایتیں بنائی جائیں گی۔ وہ ووٹر جو جماعت کا ترتیب کردہ ایک عہد نامہ پورا کر لیں، انکو ابتدائی اور ثانوی پنچایتوں کی شکل میں منظم کیا جائے گا اور پھر یہ پنچایتیں اپنے حلقے میں ایک ’صالح نمائندہ‘ منتخب کریں گی، جس کی شرائط بھی جماعت نے مقرر کیں۔
اس طریقے سے جو شخص بھی چھانٹا جائے گا اسے حلقہ انتخاب کے عوام کی طرف سے کھڑا کیا جائے گا۔ وہ شخص خواہ جماعت اسلامی کا رکن ہو یا نہ ہو، یہ جماعت اسی کی تائید کرے گی۔ وہ انتخاب کی مہم میں ایک پیسہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہ کرے گا، سارا خرچ حلقہ کے لوگ کریں گے، وہ اپنی تعریف کے گن نہ گاتا پھرے گا اور نہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے ایجنٹ چھوڑے گا۔ اس کو یہ حق تو ضرور ہو گا کہ کسی دوسرے حلقے میں، کسی دوسرے مرد صالح کی تائید کے لیے جا کر انتخابی جدوجہد کرے، مگر خود اپنے حلقے میں اپنے لیے وہ کوئی جدوجہد کرنے کا حقدار نہ ہو گا۔
اس طریق پر عمل کے بعد جماعت نے پنجاب کے سینتیس (37) حلقوں میں 1390 پنچایتیں تشکیل دیں اور بلآخر باون (52) امیدواروں کی حمایت کی۔
ان انتخابات میں مولانا مودودی کم و بیش تیس نشستوں پر کامیابی کا ’یقین‘ رکھتے تھے اور جماعت کے دیگر اکابرین کے اندازے اس سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ جماعت کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف ایک ’صالح امیدوار‘ انتخابات میں کامیاب ہو سکا اور پینتالیس لاکھ ووٹوں میں سے جماعت کے امیدوار صرف ڈھائی لاکھ ووٹ حاصل کر سکے۔ اسی سال کے اختتام پر صوبہ سرحد کے صوبائی انتخابات میں جماعت نے پانچ صالحین کو منتخب کیا جن میں سے تین کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے اور جماعت نے ان انتخابات سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔
(...جاری ہے)
ریفرنس:
روداد جماعت اسلامی
http://www.scribd.com/doc/39933698/Maududi-and-I-Dr-Israr-Ahmad-Bio -- مولانا مودودی اور میں، اسرار احمد
http://www.scribd.com/doc/126864150/tehreek-e-jamat-e-islami-by-dr-israr-ahmed -- تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، اسرار احمد
جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد
پاکستان کی سیاسی تاریخ: ترقی اور جمہوریت کو روکنے کیلئے اسلامی نظام کے نعرے، زاہد چوہدری
The Vanguard of Islamic Revolution, Vali Nasr -- http://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=ft9j49p32d;brand=ucpress
تبصرے (19) بند ہیں