تعلیم آخری ترجیح
سنہ دو ہزار تیرہ میں اگر پاکستان میں تعلیم کا احوال مختصراً بیان کیا جاۓ تو یہ کہنا مناسب ہوگا، کہ ' جہاں تھی وہیں ہے '- سواۓ اس سیکٹر میں شور و غوغا مچاۓ جانے کے اور کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا- دو سال قبل تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن صاف ظاہر ہے کہ اس کا کچھ نتیجہ نہیں نکلا- مختلف صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیے گۓ بلند بانگ دعوے محض ہوائی قلعے ثابت ہوۓ-
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کی اہمیت فقط پیسا کمانے اور اپنا سماجی لیول اونچا کرنے کی حد تک رہ گئی ہے- افسوسناک بات یہ ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ بہتر تاثر پیدا کرنے کے لئے تعلیمی معیار کا بہتر ہونا ضروری ہے-
قومی قیادت نے لوگوں کے مطالبات کے جواب میں بڑے برے وعدے تو کر لئے لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ایسے وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے- سنہ دو ہزار تیرہ چونکہ الیکشن کا سال تھا چناچہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں تعلیم کے لئے ایک سیکشن شامل رکھا- اور توقع کے عین مطابق مئی الیکشن کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی کسی بھی جماعت نے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی بامعنی اقدامات نہیں کیے-
اخبارات کی شہ سرخیاں نے ملک کے دگرگوں تعلیمی معیار کی پول کھول دی- ہم پچھلے بیس سالوں سے یہی خبریں پڑھتے آرہے ہیں: امتحانات میں نقل، غیر حاضر اساتذہ، گھوسٹ اسکولز، ناقص نصابی کتابیں، تعلیمی سکیموں کے لئے فنڈز ناپید، پانچویں کلاس کا سٹوڈنٹ تیسری کلاس کی کتاب پڑھنے سے قاصر- یہ ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے اور ان لوگوں کے لئے مایوس کن بھی جو پروا کرتے ہیں- صاف ظاہر ہے کہ تعلیمی سیکٹر میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا-
سنہ دو ہزار تیرہ میں کچھ ایسے اہم مگر ناگوار واقعات سامنے آۓ ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سنہ دو ہزار چودہ میں تعلیم کے حوالے کس قسم کی توقعات رکھی جانی چاہییں- شروع کرتے ہیں ملالئے یوسفزئی کی تعلیمی مہم سے جسے بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا- طالبان کے حملے سے زخمی ہونے کے بعد مکمل حد تک روبصحت ہونے والی اس نوعمر ایکٹوسٹ نے منظر عام پر آکر مغرب میں علیٰ سطح کی تقریبات میں ایوارڈ وصول کیے- یہ دیکھ کر پاکستان میں اس کے خلاف چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں- مغرب اس لڑکی کا سر پرست کیوں بنا بیٹھا ہے، لوگ پوچھنے لگے- آخر اسکا مقصد کیا ہے- ملالئے کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید کی تفصیلات میں جاۓ بغیر ہی آپ اس کے پس پردہ مزاحمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس کا سامنا ملک میں تعلیم کو مختلف حلقوں کی طرف سے ہے-
ایک طرف تعلیم نسواں کی مخالفت کرنے والے ظلمت پسند طالبان اور مذہبی انتہا پسند ہیں، جبکہ دوسری طرف سامراج مخالف ہیں جو امریکا کی مخالفت کرتے ہیں ساتھ ہی ہر اس چیز کی جسے مغرب پروموٹ کرتا ہے چاہے وہ ہماری بھلائی کے لئے ہی کیوں نہ ہو-
اور پھر اس کے بعد پرائیویٹائزیشن کو چیلنج کرنے والے نیو-لبرل اکنامکس کے مخالفین بھی ہیں- پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے ملالئے کے والد قابل ذکر ہیں جنہیں سوات میں موجود اپنے اسکولز کی بنا پر منافع بخش پرائیویٹ شعبے کے مشعل بردار کے طور پر مانا جاتا ہے- یہ سب حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم پھیلانا کتنا کٹھن کام ہے-
لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے- تعلیم کا شعبہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہوجانے کے بعد یہ صوبوں کی ذمہ داری بن گئی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں اس اہم سرگرمی کو فروغ دیں- اس حوالے سے انکی کوششیں مایوس کن رہیں- مذکورہ بالا ترمیم کے تحت آئین میں متعارف کراۓ گۓ آرٹیکل 25-A کے لئے ابھی مؤثر ہونا باقی ہے- اس میں پانچ سال سے سولہ سال تک کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کا کہا گیا ہے- اس کے لئے حق تعلیم ایکٹ تمام صوبائی اسسمبلیوں میں منظور ہونا ضروری ہے- اس حوالے سے کارکردگی سست ہے- اب تک قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلی نے قانون تو منظور کر لیا ہے لیکن اسے مؤثر بنانے کے لئے جو قوائد مطلوب ہیں ان کی تیاری ابھی باقی ہے-
تعلیمی بجٹ نے بھی ایسا کوئی ڈرامائی تاثر پیش نہیں کیا کہ تعلیم کے فروغ کے لئے کسی قسم کا سیاسی رجحان کی موجودگی کا پتا چلے- حالانکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیمی اخراجات کا حجم بڑھا دیا ہے لیکن گنجائش کی کمی اور بدعنوانی جیسے مسائل کی موجودگی کا مطلب ہے مختص شدہ رقم کا بڑا حصّہ استعمال نہیں کیا گیا یا خردبرد کردیا گیا-
حکومتی حکمت عملی کے ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ ملکی خواندگی کی شرح اٹھاون فیصد پر ہی اٹکی ہوئی ہے- یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر تعلیم پر حکومت سے زیادہ خرچ کر رہا ہے- حکومتی اداروں کے ناقص معیار کی بنا پر پرائیویٹ اسکولوں اور کالج میں داخلوں کی شرح بڑھ گئی ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم پر اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں-
حکومتی کارکردگی پر عوامی اعتماد کی بتدریج کمی کا اندازہ او-لیول اور اے-لیول امتحانات میں بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے- برٹش کونسل کے ذارئع کے مطابق، پاکستان سے سولہ ہزار بچوں نے کیمبرج بورڈ کے تحت منعقدہ امتحانات میں حصّہ لیا- سنہ دو ہزار تیرہ میں سات سو بیس ملین روپے نجی طور پر او-لیول اور اے-لیول امتحانی فیس کی مد میں خرچ کے گۓ کیوں کہ ہمارے اپنے بورڈ اپنی ساکھ کھو چکے ہیں-
تعداد بڑھانے کے چکر میں حکام نے معیار کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے- 'تعلیم سب کے لئے' کا نعرہ تو لگا لیا گیا لیکن ہم بس تعداد پر ہی توجہ مرکوز کر کے بیٹھے ہیں- تعلیمی بہتری کے لئے کوئی بات نہیں کی جاتی حالانکہ یہ بھی ہدف کا حصّہ ہونا چاہیے- ایک مثالی مقصد تو یہ ہونا چاہیے تاکہ تمام طلبہ کو معیاری تعلیمی مواقع یکساں طور پر مہیا ہوں-
ترجمہ: ناہید اسرار