• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ان کے حوصلے اب بھی جوان ہیں

شائع December 26, 2013
وائر فوٹو
وائر فوٹو

آسمان تاریک تھا، بارش ہلکی مگر مستقل ہو رہی تھی، ٹھنڈ تھی مگر اتنی نہیں کہ اسے پارٹی میں شرکت نہ کرنے کا بہانہ بنایا جا سکے- کوئی برف باری نہیں ہو رہی تھی، روڈ گیلی تھی مگر خطرناک نہیں-

سلیمہ نے کھڑکی کے باہر دیکھا اور نہ چاہنے کے باوجود جانے کا فیصلہ کر لیا- اسے ایسی پارٹیوں سے نفرت تھی جہاں جہاں نۓ دولتیے دیسی صاحب اور میم صاحب اپنی دولت کی نمائش کرتے تھے-

لیکن اسے جانا ہی تھا، کیونکہ اسکی ماں نے جو سنسناٹی، اوہائیو میں رہتی تھیں، سلیمہ کے لئے گھر کا پکا حلوا بھیجا تھا- اور جو شخص اسے لے کر آیا تھا اگلے دن واپس جا رہا تھا-

"میرے لائق تو بس مرسیڈیز کار ہی ہے"- جیسے ہی وہ بڑے کمرے میں داخل ہوئی اس نے ایک موٹی توند والے شخص کو اپنے ہی جیسی موٹی توند والے سے کہتے ہوۓ سنا- "پچھلے دس سالوں سے میں نے کسی اور کار کی طرف دیکھا تک نہیں جبکہ میرے بچے مجھے بار بار کوئی نئی کار ٹرائی کرنے کو کہتے ہیں"-

ایک کونے میں ایک خاتون اپنی ہیروں کی بریسلیٹ کی نمائش کرتی نظر آئیں- سلیمہ نے دور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا کہ وہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہونگے-

ذرا آگے بڑھی تو کسی نے اسکا نام لے کر پکارا اور اپنی میز کی طرف بلایا جہاں ایک عورت جو حال ہی میں پاکستان سے واپس آئی تھی اور وہاں کی روداد سنا رہی تھی-

"نہ پوچھو کتنا ہولناک تھا وہ سب، وہ لوگ ہمارے پاسپورٹ پر مہر لگانے میں اتنا وقت لے رہے تھے، مجھے پینتالیس منٹ تک قطار میں انتظار کرنا پڑا-"

سلیمہ کو اپنے والدین کے ملک کا اپنا ٹرپ یاد آگیا جہاں انہیں جے ایف کے ائیرپورٹ پر سیکورٹی کلیئرنس کے لئے پورے دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور تب کسی نے کوئی شکایت نہ کی ایک لفظ بھی نہیں-

کراچی ائیرپورٹ پر صورتحال بالکل مختلف تھی- اس کے والدین تک بدل گۓ تھے- تبدیلی اتنی نمایاں تھی کہ سلیمہ کے لئے انہیں پہچاننا مشکل ہو گیا- "ہمیں یہاں آۓ ایک گھنٹہ ہو گیا لیکن کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے-" اسکی ماں نے شکوہ کیا-

"ہاں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے"، اس کے باپ سلیم نے بھی تائید کی-

"ماں، ہمیں بلڈنگ میں داخل ہوۓ صرف آدھ گھنٹہ ہوا ہے"، سلیمہ نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوۓ کہا، "اور وہ ہمیں کیوں پوچھیں گے ہماری طرح کے یہاں سینکڑوں لوگ موجود ہیں"، اس نے مڈل ایسٹ سے آنے والے دیگر مسافروں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا-

"ہاں، لیکن ہم تو امریکا سے آۓ ہیں"، اس کے والد نے کہا-

"تو کیا ہوا؟" سلیمہ نے پوچھا-

"تو چپ کر"، اسکی ماں نے ڈانٹا، "تو اس ملک کے بارے میں کچھ نہیں جانتی"-

سلیمہ اس یاد کو ذہن سے جھٹک کر میز کی طرف بڑھی اور لوگوں سے ملنے لگی-

وہ عورت جو تھوڑی پہلے لاہور ائیرپورٹ پر تاخیر کا شکوہ کر رہی اب شہر کے مرکزی ریلوے سٹیشن کی روداد سنا رہی تھی-

"اتنا غلیظ سٹیشن تھا، مکھیاں بھری پڑی تھیں، اور پکوڑے، الله کی پناہ! میں تو یہی سوچتی رہ گئی کہ ہم کیسے کھا لیتے تھے یہ سب"، وہ بتا رہی تھی- "اور اتنے فقیر کے نہ پوچھو، چھوٹے چھوٹے بچے- ان میں سے کچھ تو بہت پیارے تھے- میں نے اپنی شال ایک پیاری سی بچی کو دے دی، بارہ تیرہ برس کی ہوگی لیکن پوری عورت لگ رہی تھی، پتا نہیں یہ لوگ کیا کھاتے ہیں!"

یہ سب سلیمہ کے لئے ناقابل برداشت تھا، اس نے اپنے جیسے کسی ہم عمر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں اور اسے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی لڑکی نظر آگئی، سلیمہ اپنے گروپ کو چھوڑ کر اس لڑکی کے پاس چلی گئی- محفل کی دوسری سجی بنی خواتین کے برعکس اس نے ایک سوتی شلوار قمیض پہن رکھا تھا- نہ کوئی ہیرے کی بریسلیٹ نہ سونے کی چوڑیاں، پھر بھی وہ پیاری لگ رہی تھی-

"ہیلو"، سلیمہ نے کہا، اسے امید تھی کہ جواب اردو میں آۓ گا، لیکن اس نے رواں انگریزی میں جواب دیا اس کا لہجہ دیگر دیسیوں سے قطعی مختلف تھا- سلیمہ نے تعجب سے پوچھا، "تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟" "حوریہ ہوں افغانستان سے"، لڑکی نے جواب دیا-

"تم ان ادھیڑ عمر عورتوں کے بیچ کیا کر رہی ہو؟"، سلیمہ نے ایک اور سوال کیا-

حوریہ ہنس پڑی، "اگر میں تم سے بھی یہی سوال کروں تو؟"-

"میری ماں نے میرے لئے حلوہ بھیجا ہے اوہائیو سے، وہی لینے آئی ہوں"، سلیمہ نے مسکرا کر جواب دیا-

"حلوہ اور وہ بھی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا، اس کے لئے تو کابل تک چلے جانا چاہیے"، حوریہ نے سلیمہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا-

"میں اپنی عمر کے لوگوں کو تلاش کر رہی تھی، تمھیں دیکھ کر ادھر آگئی، امید ہے تمھیں برا نہیں لگا ہوگا"، سلیمہ نے وضاحت دی-

"نہیں مجھے تو بہت اچھا لگا، میں خود بھی یہاں اکیلی ہی بیٹھی تھی"، حوریہ نے جواب دیا- "میں اتنی کم عمر نہیں ہوں جتنا آپ سمجھ رہی ہیں-"

"میں بھی کوئی سولہ سال کی دوشیزہ نہیں ہوں"، سلیمہ نے کہا- "ویسے میں ایک صحافی ہوں اور ایک امریکی ریڈیو کے لئے کام کرتی ہوں-"

میں ایک افغان ہیومن رائٹس گروپ کے لئے کام کرتی ہوں- ہم افغانستان میں کام کرنے والوں کی اخلاقی اور مالی امداد کرتے ہیں"، حوریہ نے بتایا- "میں یہاں ہماری سپورٹ بیس پھیلانے کے امکانات دیکھنے آئی ہوں-"

اس نے بتایا وہ یہاں پاکستان کی پشتون خواتین ایکٹوسٹس سے ملنے آئی تھی- اس بات کے ساتھ ہی ان خواتین کا ذکر نکل آیا جو پاکستان اور افغانستان میں طالبان کنٹرول علاقوں میں زندگی گزار رہی تھیں-

"وہاں کے حالات خراب ہیں، بہت خراب"، حوریہ نے بتایا- "اسی لئے وہاں جو لوگ جدوجہد کر رہے ہیں میں انکی عزت کرتی ہوں- ہمارا کام تو فقط سپورٹ کرنا ہے- اصل مصائب تو وہ جھیل رہے ہیں-"

"کیا ان علاقوں میں خواتین ایکٹوسٹ بھی کام کر رہی ہیں"، سلیمہ نے پوچھا- "ہاں، وہاں ایسی عورتیں ہیں جنکو اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا، ان پر کوڑے برساۓ گے، تشدد کیا گیا، اور قید میں ڈال دیا گیا"، حوریہ نے کہا-

حوریہ نے سلیمہ کو خبردار کیا کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں اور افغانستان میں جدوجہد کرنے والوں کے لئے مغربی ایکٹوسٹس کی تعریف استعمال نہ کرنے کے لئے-

"وہاں کے کارکنوں کے لئے کوئی آفس یا ملاقات کی جگہ نہیں ہے- انکی کسی قسم کے لٹریچر تک رسائی نہیں ہے- نہ ہی ان کے پاس کوئی سپورٹ گروپ ہے"، حوریہ نے بتایا-

"یعنی وہاں کی صورتحال کافی سنگین ہے"، سلیمہ نے کہا-

"سنگین! ہاں، لیکن وہاں امید بھی موجود ہے"، حوریہ نے کہا- "اگر آپ ان خواتین سے ملیں، تو آپ دیکھیں گی کہ میں ان کے لئے کیوں پرامید ہوں، وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں اس کے ایک ایک لمحے سے محظوظ ہونا چاہتی ہیں-"

حوریہ نے شکوہ کیا کہ بعض صحافی محض ایسی کہانیاں ڈھونڈتے ہیں جنکی ہیڈ لائنز بنائی جا سکیں: سر قلم کرنا، درے مارنا، سنگسار کرنا- اس کا کہنا تھا کہ یہ کہانیاں بھی اہم ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سی خبریں ہیں- وہاں ایک خاموش بغاوت جاری ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا"، اس نے کہا- "اس بغاوت کو دیکھنے کے لئے آپ کو ہیڈ لائنز پر انحصار بند کرنا ہوگا-"

پھر حوریہ نے اپنا سمارٹ فون نکالا اور سلیمہ کو برقع پوش عورتوں کے ایک گروپ کی تصویر دکھائی ان میں سے ایک عورت چہرے سے نقاب ہٹا کر فوٹوگرافر کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی-

"یہی وہ روح ہے جسے طالبان محکوم بنانے میں ناکام رہے ہیں- یہ معصوم سی بغاوت بہت سے مردوں کو بے چین کر دیتی ہیں، حتیٰ کہ مغرب میں بھی"، حوریہ نے مزید بتایا- "اپنے قلم اور مائکروفون ایک طرف رکھ کر انکی دنیا میں داخل ہو کر دیکھیں- ان کے تجربوں سے گزر کر دیکھیں پھر آپ کو اندازہ ہوگا یہ مسکراہٹ کتنی طاقتور ہے-"

َِ


انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

وقار احمد

وقار احمد انجینئر اور پارٹ ٹائم جرنلسٹ ہیں، جنہیں مزاروں، ریلوے اسٹیشنوں، اور بس اسٹاپوں پر گھومنا پسند ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024