شمالی وزیرستان: طالبان سے مذاکرات کے بعد کرفیو ختم
پشاور: پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک مسجد کے قریب خودکش حملے کے بعد نافذ کرفیو کو کل پیر کے روز مقامی طالبان، انتظامیہ، اور قبائلی اراکین کے ساتھ مذاکرات کے بعد اٹھا لیا گیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ کئی روز سے نافذ کرفیو کے دوران فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان متعدد بار جھڑپیں بھی ہوئیں۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں قبائلی عمائدین کے مطابق مقامی طالبان کی شوریٰ میں شامل اراکین نے میران شاہ اور اس کے اطراف دیہاتی علاقوں میں اعلان کیا کہ دونوں فریقن کے درمیان 2006ء کے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت مذاکرات ہوگئے ہیں۔
کرفیو ختم ہونے کے بعد شمالی وزیرستان میں اسپن وام اور بنوں سے ملحقہ اضلاع میں پھسے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں جاسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ کئی روز سے فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان مسلسل لڑائی کے باعث یہاں کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔
تحصیل میر علی کے ایک قبائلی مولوی گل عباس نے طالبان شوریٰ کے ترجمان حمداللہ احمدی کی بات کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیاں جن میں مقامی انتظامیہ، طالبان اور عمائدین بھی شامل تھے، نے معاملے کو حل کرنے کے لیے امن معاہدے پر عمل کرنے پر اتفاق کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب میران شاہ، میر علی اور شمالی وزیر ستان کے دیگر علاقوں میں کہیں بھی کرفیو کا نفاذ نہیں ہے اور بے گھر لوگوں کو چاہیے کہ وہ واپس اپنے گھروں میں آجائیں۔
انہوں کہا کہ گرینڈ جرگے نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ علاقے میں متاثرہ افراد کو معاوضہ دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اتمان خیل قبائل کے عمائدین، طالبان شوریٰ کے اراکین اور مقامی انتظامیہ کے مابین 2006ء میں ایک امن معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے میں مسلح گروہوں کی سرحد پار نقل حمل پر پابندی کے علاوہ وزیر ستان سے غیر ملکی اور مقامی فورسز کی واپسی، سرکاری تنصیبات کی حفاظت جیسے اہم نکات شامل تھے، جبکہ یہ معاہدہ 2007ء میں ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے ہوا تھا۔
حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب شدت پسندوں نے گزشتہ ہفتے بدھ کی شام ایک مسجد پر خودکش حملہ کیا تھا جس میں ایک فوجی اہلکار اور ایک کانٹریکٹر ہلاک جبکہ 11 اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس حملے کے جواب میں سیکیورٹی فورسز نے میر علی کے بازار میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی، جبکہ حکام کا کہنا ہے تقریباً ایک ہفتے کی اس لڑائی میں 34 شدت پسند ہلاک ہوئے جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔
تاہم مولوی گل عباس نے حکام کے اس دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ تحصیل میر علی اور اس کے اطراف دیہاتی علاقوں میں فورسز کی کارروائیوں میں 60 کے قریب عام شہری ہلاک ہوئے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کرفیو نافذ ہونے کے بعد ایک بڑی تعداد میں لوگ بنوں میں پھسے گئے، جنہں میر علی اور اس کے قریبی دیہاتوں میں جانا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہزاروں افراد اب بھی بنوں سے واپس نہیں آسکے ہیں۔
حسن خیل گاؤں کے ناصر خان کا کہنا تھا کہ مسلح جھڑپوں کی وجہ سے تقریباً 70 فیصد لوگ یہاں سے نقل مکانی کرے بنوں اور اسپن وام چلے گئے تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی ان کے دیہاتوں سے نقلِ مکانی ک بعد میر علی ایک ویران سا منظر پیش رہا تھا۔
دوسری طرف فاٹا ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نقل مکانی کرنے والے افراد سےمتعلق کوئی تفصیل نہیں ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں