بت ہیں 'جماعت' کی آستینوں میں
(روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، اور ہم جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا ایک سنگین غلطی ہے اور ہم آج اس غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔)
سید ابوالاعلی مودودی ستمبر 1903ء میں اورنگ آباد، دکن کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید احمد حسن مودودی نے کچھ وقت علی گڑھ کالج میں بسر کیا اور پھر الہ آباد سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
1910ء میں سید احمد حسن نے مولوی محی الدین کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور خاندان سمیت دہلی منتقل ہو گئے۔ ابوالاعلی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جہاں انہوں نے فارسی، اردو، منطق، فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
گیارہ سال کی عمر میں انہیں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں داخل کروایا گیا۔ عربی زبان پر عبور کے باعث انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں مصری عالم قاسم امین کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔
اس کے بعد کچھ وقت حیدرآباد کے دارالعلوم میں بسر کیا۔ مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد ابوالاعلی نے کوچہء صحافت کا رخ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بڑے بھائی ابوالاخیر مودودی سمیت دہلی میں رہائش اختیار کی اور مختلف رسائل میں مضامین بھیجتے رہے۔
ان دنوں رولٹ ایکٹ اور تحریک خلافت کے زیر اثر مودودی صاحب نے پنڈت مدن موہن اور موہن داس کرم چند گاندھی کے حالات زندگی تحریر کیے۔ سنہ 1919 ء میں انہوں نے ’تاج‘ نامی کانگرسی رسالے کی ادارت سنبھالی۔ بعد ازاں دو سال جمیعت علمائے ہند کے اخبار ’مسلم‘ کی ادارت کا کام انجام دیا۔
سنہ 1925 ء میں انہوں نے جمیعت کے نئے اخبار ’الجمیعت‘ کی ادارت شروع کی اور ساتھ ساتھ درس نظامی میں بھی داخلہ لیا۔
سن 1924ء میں تحریک خلافت کی ناکامی نے مودودی کو قائل کر دیا کہ قوم پرستی اور جمہوریت ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں۔ انہوں نے سن 1925ء میں ’اسلام کا چشمہء قدرت‘ نامی سلسلہ مضامین شروع کیا جس میں انہوں نے ماضی کے واقعات کی روشنی میں حال کے مسائل کے حل تجویز کیے۔
1932ء میں ترجمان القرآن نامی رسالے کا آغاز کیا اور 1939ء میں ’متحدہ قومیت اور اسلام‘ اور ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کے نام سے پمفلٹ اور کتابچے تحریر کیے۔ (سن 1963ء میں خورشید احمد نے ان کو یکجا کر کے دو جلدوں میں ’تحریک آزادیء ہند اور مسلمان‘ کے نام سے چھاپا۔ ان کتابوں میں کافی ردوبدل کی گئی اور بہت سی ’متنازعہ‘ باتیں مٹا دی گئیں، البتہ تاریخ کو مسخ کرنا اتنا آسان نہیں اور ہم اس علمی بد دیانتی کو بے نقاب کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔)
1937ء میں علامہ اقبال نے پٹھان کوٹ میں ایک دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ کیا جہاں جدید تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کیا جا سکے۔ اس ادارے کے سربراہ کی تلاش کا کام اقبال نے اپنے رفیق چوہدری نیاز علی کے ذمے لگایا۔
نیاز علی نے پہلے اشرف علی تھانوی سے بات کی مگر انکار کا سامنا کرنا پڑا، پھر مودودی صاحب سے رابطہ کیا۔ اسی سلسلے میں مودودی اور اقبال کی ملاقات بھی ہوئی اور بالآخر مودودی صاحب کو دارالاسلام کے وقف کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
1939ء میں نیاز علی سے شدید اختلافات کے بعد مودودی نے وقف سے استعفیٰ دے دیا (نیاز علی مسلم لیگ کے حامی تھے اور وہ مودودی صاحب کو سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے میں ناکام ہونے پر دلبرداشتہ ہو گئے تھے)۔
اگست 1941ء میں مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ 1941ء سے 1947ء تک جماعت اور امیر جماعت کے سیاسی نظریات سمجھنے کے لیے ان کی تصنیفات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
’تحریک آزادیء ہند‘ کا مقدمہ خورشید احمد (1953ء میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلی) نے لکھا ہے اور سیاست کے متعلق فرقہ مودودیہ کا موقف انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’مسلمان اور غلامی، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اسلام غلبے اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموں کے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا۔‘
اس قسم کی خیالی باتیں وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں تاریخ اور سیاست سے ذرہ برابر بھی آشنائی نہیں۔ ان نظریات کی روشنی میں جماعت یا اس کے لے پالک بچوں کو کسی بھی سامراج کے خلاف بات ہی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ نظریات بذات خود Imperialist
سوچ کا ایک نمونہ ہیں۔ یہی خورشید احمد صاحب بعد میں پاکستان کی سینیٹ کے رکن رہے اور جمہوری نظام کا حصہ بنے۔
'مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش' کے حصہ اول میں صاحب کتاب نے کانگرس اور ہندوستانی قوم پرستوں پر چاند ماری کی۔ ابتدائی مضامین میں ہندوستان میں مسلمانوں کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آبادی کے ایک بڑے حصے کو اسلامی اعتبار سے جاہل قرار دیا۔
اس کتاب کی دوسری جلد (جو بعد میں ’تحریک آزادی اور مسلمان‘ حصہ دوم کے نام سے چھاپی گئی) میں صاف صاف لکھ دیا کہ وہ جمہوریت اور کمیونزم کے مقابلے میں ’اسلامی نظام‘ (جو آجکل 'اسلام ازم' یا 'سیاسی اسلام' کہلاتا ہے) کو افضل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس نظام کے متعلق لکھا؛
’میں صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔‘
موصوف نے اسلام کو مذہب کی بجائے ’عالمگیر تحریک‘ بنانے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں ایسے نکات بلند کیے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔ دسمبر 1939ء میں لکھا؛
’اسلام کی رو سے مسلمانوں کی جمیعت صرف وہ ہو سکتی ہے جو غیر الہی حکومت کو مٹا کر الہی حکومت قائم کرنے اور قانون خداوندی کو حکمراں کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ جو جماعت ایسا نہیں کرتی وہ نہ تو اسلامی جماعت ہے نہ اسے مسلمانوں کی جماعت کہنا درست ہے‘ (یہاں اسلام سے مراد ’مودودی صاحب کی مرضی کا اسلام‘ ہے۔ جولائی 1940ء میں انہوں نے ’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘ نامی مضمون تحریر کر کے اختلاف کا راستہ ہی بند کر دیا)۔
اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی پہلی بار مودودی صاحب نے نہیں کیا لیکن اس دعوے کی بنیاد پر ایک نظریاتی عمارت کی تعمیر میں انکا حصہ ضرور ہے۔ اسلامی فکر و عمل کے استاد ڈاکٹر خالد ظہیر کے مطابق یہ دعوی پہلی دفعہ بیسویں صدی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا اور اس کی کوئی تاریخی مثال موجود نہیں۔ اسی طرح اسلام کو مذہب کی بجائے دین قرار دینے کا کام بھی انہوں نے اپنے مضمون ’مذہب کا اسلامی تصور‘ میں انجام دیا۔
مودودی صاحب نے مذہب کی جو تعبیر کی، اس پر ہم کم علمی کے باعث تنقید کرنے کے اہل نہیں لیکن اس ضمن میں مولانا وحیدالدین کی تصنیف ’تعبیر کی غلطی‘ ایک اہم کاوش ہے۔ وحیدالدین صاحب جماعت کے ابتدائی کارکنان میں شامل تھے اور انکی تنقید کا تسلی بخش جواب مودودی صاحب یا ان کے قریبی ساتھی کبھی نہ دے سکے۔ البتہ تاریخ اور سیاست پر مولانا مودودی کی مشق ستم ہماری ناقص رائے میں ناقابل معافی ہے اور اس پر ہم چند اقتباس پیش کریں گے؛
لفظ سیکولر کو ’لادینی‘ کہنے کا عمل بھی مولانا مودودی نے شروع کیا (اور اب یہ غلط العام ہو چکا ہے)، حالانکہ انگریزی زبان کے اس لفظ کا ترجمہ ’مذہب اور سیاست کی علیحد گی کا نظریہ‘ زیادہ مستند ہے۔ سیدھے لفظوں میں "روادار حکومت" بھی کہا جا سکتا تھا۔ جمہوریت کے بارے میں انکی رائے مندرجہ ذیل ہے؛
"یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم اس نظام کے اندر داخل ہو کر اس کو اسلام کی طرف پھیر لیں گے۔ اس کے اندر داخل ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پہلے اس کے بنیادی نظریے (سلطانیء جمہور) کو تسلیم کیا جائے اور اس کے بنیادی نظریے کو تسلیم کرنا اسلام کے بنیادی نظریے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ لہذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ باہر سے اس کے خلاف لڑیں اور اپنی تمام تر کوشش پہلے یہ اصول منوانے میں صرف کریں کہ قانون سازی کتاب الہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔‘ انہوں نے دین و دنیا کی علیحدگی کے تصور کو ’جاہلی تصور‘ قرار دیا۔
سن 1941 میں جماعت میں داخلے کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی: ’اگر آپ کسی مجلس قانون ساز کے رکن ہیں تو اس سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ جو مجلس قرآن اور سنت رسول کو اساس اور منبع قانون تسلیم نہ کرے، اسلام کی رو سے اس کو انسانی زندگی کے لیے قوانین بنانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور اس کی رکنیت قبول کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں۔‘
ہر احیا پرست کی طرح جناب کو بھی اپنے نقطہ نظر اور طریقہ عمل کے بارے میں صد فیصد درست ہونے کا یقین تھا اور انکے مطابق جو راستہ انہوں نے چنا، وہی حقیقی اور سچا راستہ تھا (اسی رویے کو مولانا وحیدالدین نے ’مولانا مودودی کی مریضانہ ذہنیت‘ قرار دیا)۔
مسلم لیگ کے متعلق ارشاد فرمایا: ’مسلم لیگ کے بنیادی تصورات، اس کا نظام ترکیبی، اس کا مزاج، اس کا طریق کار اور اس کے مقاصد سب کچھ وہی ہیں جو قومی اور قوم پرستانہ تحریکوں کے ہوا کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ یہ مسلمانوں کی قومی تحریک ہے اس لیے خوامخواہ اسے بھی اسلامی تحریک سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ایک دوسری چیز ہوا کرتی ہے جس کا کوئی شائبہ بھی مسلم لیگ کی قومی تحریک میں نہیں پایا جاتا، اور یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اسلام اپنے مخصوص طریقہ کار سے جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اس تک آپ ایک قوم پرستانہ تحریک کے ڈھنگ اختیار کر کے پہنچ جائیں۔‘
اسی مضمون میں ایک اور مقام پر لکھا: ’مسلم لیگ کی ساری قوت محرکہ اس وقت مسلمان قوم کے ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دینی کی بجائے دنیوی نقطہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے، اسلام کی بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے، دینی تعلق کی بجائے قومیت کے تعلق کی بنا پر مسلمانوں کی حمایت و وکالت کر رہا ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ گروہ خود علانیہ اسلام کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرنے میں بیباک ہے، بلکہ اس کی راہنمائی و سربراہ کاری کی وجہ سے مسلمانوں میں بالعموم اسلام کے احکام کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی میں بے باکی بڑھتی جا رہی ہے، انکی دینی حس مردہ ہو رہی ہے اور ان پر دنیا پرستانہ ذہنیت چھا رہی ہے۔‘
ایک اور مقام پر لکھا:
’مسلم لیگ کے کسی ریزولوشن اور لیگ کے ذمہ دار لیڈروں میں سے کسی کی تقریر میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ انکا آخری مطمح نظر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کرنا تھا۔ برعکس اس کے ان کی طر ف سے بصراحت اور بتکرار جس چیز کا اظہار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ ان کے پیش نظر ایک ایسی جمہوری حکومت تھی جس میں دوسری غیر مسلم قوموں کو بھی حصہ دار بنایا جائے گا مگر اکثریت کے حق کی بنا پر مسلمانوں کا حصہ غالب ہو گا۔'
اس کے علاوہ اگر کوئی مودودی صاحب کے پاکستان اور جناح صاحب کے متعلق افکار پڑھنا چاہے تو اس کے لیے سن 1969ء میں لکھی گئی ’قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام: ابوالاعلی مودودی کی نظر میں‘ ملاحظہ کریں۔
قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی اور مودودی صاحب کے ’کارنامے‘ اگلی قسط میں تفصیل سے، ’کھول کھول کر‘ بیان کیے جائیں گے۔
(جاری ہے)
ریفرنس:
Mawdudi and Making of Islamic Revivalism by Vali Nasr
تعبیر کی غلطی، مولانا وحیدالدین خان
http://www.scribd.com/doc/100798620/tabeer-ki-ghalti-maulana-wahiduddin-khan
تحریک آزادیء ہند اور مسلمان
(حصہ اول: http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Tahreek-e-Azadi%20hind%20aur%20Muslman%201.pdf
حصہ دوم: http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Tahreek-e-Azadi%20hind%20aur%20Muslman%202.pdf )
مولانا مودودی اور میں، اسرار احمد
http://www.scribd.com/doc/39933698/Maududi-and-I-Dr-Israr-Ahmad-Bio
’قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام: ابوالاعلی مودودی کی نظر میں‘، مولانا محمد اشفاق
http://www.scribd.com/doc/183195594/Jinnah-Pakistan-Ideology-Islamic-System-and-Mawdudi-by-Sheikh-Muhammad-Ashfaque
تبصرے (29) بند ہیں