کراچی کی یاد میں: وصال
میں کراچی اپنی سالانہ زیارت کے پہنچ چکی ہوں- اس پورے سفر کے دوران میرا جوش اور توقعات اب ایک روحانی مسرت میں تبدیل ہوچکے ہیں- میں واپس اپنی سرزمین پر پہنچ چکی ہوں- ایک ضرورت سے زیادہ باضابطہ اور اتنے ہی آزاد، ترقی یافتہ ملک سے، واپس کراچی جہاں بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ہے- کراچی میں چاہے کچھ بھی چل رہا ہو، لیکن جب میں اس کے ائیرپورٹ پر اترتی ہوں تو مجھے اس کی فضا میں امید کا احساس محسوس ہوتا ہے، ایک عظمت کا احساس ہوتا ہے، اپنے چاروں طرف ایک ایسی انرجی محسوس ہوتی ہے جس سے میرا جسم اور روح سیراب ہوجاتے ہیں-
پچھلے سال میں یہاں آدھی رات کے وقت پہنچی تھی، تب پورا شہر سو چکا تھا- اس دن یہاں ہنگامے، لوٹ مار اور تباہیاں ہوئی تھیں- اس دن کراچی کے بڑے بڑے سنیما گھر، کیپری، نشاط اور پرنس تباہ کر دیے گۓ- وہ جگہ جو میرے لئے انتہائی مقدس رہی ہے ایک بار پھر پامال کر دی گئی- سڑکوں پر ٹوٹے ہوۓ شیشوں کے ٹکڑے پڑے تھے لیکن ایک واپس لوٹنے والے ہموطن کی سرسری نظر سے شکستہ زندگیاں اور خواب چھپ گۓ تھے- نسلی اور فرقہ وارانہ تناؤ اور ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر تھے- آج بھی وہی حال ہے- آج بھی یہ شہر بٹا ہوا ہے- لیکن کراچی کے بازار وہ جگہ ہے جہاں میرے شہر کی تمام تقسیمیں ختم ہو جاتی ہیں- جب معیشت کی بات آتی ہے تو تقسیم کی جگہ تول مول اور دل لگی لے لیتے ہیں- یہ دیکھ کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ امن و امان کی صورتحال کی بنا پر شہر کے پرانے بازاروں میں وہ کاروبار بند ہوتے جا رہے ہیں جنہوں نے اسے یکجا کر رکھا ہے-
جیسے ہی میں اپنے قدم جہاز سے باہر رکھتی ہوں، مجھے شہر کے مزاج کا اندازہ اسی وقت ہو جاتا ہے- اس سال کراچی تھوڑا اداس ہے- گزشتہ سال، امن و امان کی صورتحال کے باوجود بعض علاقوں میں رئیل اسٹیٹ اور کے ایس ای میں اتار چڑھاؤ چلتا رہا- اس سال میری آمد کے چند ہفتوں کے دوران دونوں ہی میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا- ماہر اقتصادیات کے مطابق اسے آپ 'کریکشن ' کہہ سکتے ہیں، لیکن ایک رئیلٹر کے مطابق کوئی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی اصل وجہ نہیں جانتا- کراچی ایک پارہ صفت اور غیر متوقع مزاج کا حامل شہر ہے-
گزشتہ سال میں نے سڑکوں پر پہلے سے زیادہ مرسیڈیز دیکھیں تھیں- اس سال بمشکل ہی کوئی نظر آئی- حتیٰ کہ کراچی میں ٹریفک بھی کافی محدود نظر آیا جبکہ لال بتی سے گزرتے ہوۓ ڈرائیور کا یہی اصرار تھا کہ حالات گزشتہ سال جتنے ہی برے ہیں- میرا اندازہ ہے کہ 'کالے دھن' کے بھی معیشت پر کئی اثرات ہیں- ایک سال کے عرصے میں بہت کچھ ہوا ہے- ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے لیکن ابھی اصل تبدیلی ابھی سامنے آنی باقی ہے-
کراچی کے ساحلوں پر گھومنا میری ملاقات کا لازمی حصّہ ہے لیکن اس سال مجھے لیاری کے حالات کی وجہ سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا- لیکن پھر بھی میں نے دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ پروگرام بنا ہی لیا جو مکمل سیکورٹی کے ساتھ جا رہے تھے- ساحل سمندر کی سیر تو ہے ہی دوستوں، فیملی اور گپ شپ کا نام- اس کے علاوہ یہاں کا پانی بھی میرے جسم اور روح کو سکون بخشتا ہے-
پچھلے سال میں نے یہاں امن فاؤنڈیشن کا لائف گارڈ دیکھا، جس نے نیوزی لینڈ کے لائف گارڈ سے تربیت حاصل کی تھی- مجھے یہ دیکھ کے بھی خوشی ہوئی کہ اب آپ یہاں بجٹ کے اندر رہتے ہوۓ ساحل سمندر پر آرام سے ایک ہٹ کراۓ پر لے سکتے ہیں، اس کے لئے آپ کا امیر اور بااختیار ہونا ضروری نہیں- فیملیاں آرام سے ساحل سمندر پر ایک دن گزار سکتی ہیں (ظاہر ہے جب شہر میں امن و امان ہو تب)- جب میں یہاں رہتی تھی تو ساحل پر ہٹ حاصل کرنے کے لئے آپ کی کسی سے جان پہچان ہونا ضروری ہوتا تھا-
کچھ سال پیشتر میں اپنے ایک پرانے دوست کو، ایک پوش ریسٹورانٹ لے گئی- وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں مختلف پسمنظر کے لوگ موجود تھے- انہوں نے بھی کہا کہ سنہ ساٹھ کی دہائی میں ایسی جگہیں صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص ہوتی تھیں-
شہر کا سماجی تانا بانا تبدیل ہو رہا ہے- میں نے بہت سی نوجوان ملازماؤں کو دیکھا جو پہلے وقتوں کی 'بواؤں' کے برعکس اچھے لباس پہن کر اپنی 'باجیوں' کے برابر صوفوں پر بیٹھتی ہیں-
سنہ نوے کے وسط میں جب میں نے ایک غیرملکی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تب یہاں صرف ایک مقامی این جی او تھی جو اچھی تنخواہ دیتی تھی- آج ایک سوشل سیکٹر پیداواری سیکٹر بن گیا ہے-
اس سال، میں شاہ فیصل کالونی سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او، آر ایل سی سی (RLCC) گئی- وہاں میں نے علاقے کی غریب عورتوں کے ہاتھ کے ری سائیکلڈ اشیاء سے بنی ہوئی چیزیں نہایت مناسب قیمت پر خریدیں- مغرب میں کاروباری رسک فیشن کا حصّہ ہے جبکہ یہاں قیمتیں کم رکھنا شاہ فیصل کالونی کی غریب عورتوں کی مجبوری-
جب میں یہاں نہیں ہوتی تو غیر ملکی فلمی میلوں میں پاکستانی فلمیں تلاش کرتی ہوں اور فلمیں جن میں اصلی پاکستان دکھایا جاتا ہے- چناچہ جب میں یہاں ہوتی ہوں تو سنیما میں پاکستانی فلمیں دیکھنے میں مزہ آتا ہے- پاکستانی سنیما اب بالغ ہوتا جا رہا ہے-
جب میں یہاں نہیں ہوتی تو غیر ملکی میڈیا پر اپنے شہر کی جھلک دیکھنے کو بیتاب رہتی ہوں- ایک غیر ملکی صحافی کی ڈاکومنٹری میں کراچی میں ایک بدنام زمانہ شخصیت کا گھر دکھایا گیا- باہر سے تو وہ دیکھنے میں کسی غریب محلے کا عام سا گھر ہی لگا- لیکن اندر سے وہ کسی کروڑ پتی کے محل جیسا تھا، جہاں سوئمنگ پول وغیرہ سب موجود تھا-
مجھ سے بار بار یہی سوال کیا جاتا ہے کہ مجھے بیرون ملک رہنا اچھا لگتا ہے؟ لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ میں واپس آنا پسند کروں گی- میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اس ازیت کو سمجھتی ہوں جس سے کراچی والوں کو گزرنا پڑتا ہے- لیکن میرے خیال سے کراچی والوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کراچی میں سٹریٹ کرائمز کو دوسرے شہروں کے مقابلے میں اس سطح تک پہنچنے میں کتنا لمبا عرصہ لگا ہے- المیہ یہ ہے کہ ایک بار جب سٹریٹ کرائمز نے یہاں اپنا سر اٹھانا شروع کیا تو اس نے بین القوامی معیار تک پہنچنے میں بہت کم وقت لگایا-
یہاں کے لوگوں کے لئے یہ دہری مصیبت ہے، ایک طرف تو بم دھماکے دوسری طرف بڑھتے ہوۓ سٹریٹ کرائمز- اس پر مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں، جس نے ہم میں سے بہت سے رجائیت پسندوں کو مایوس کر دیا ہے-
مجھے نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ سمجھنے کی اتنی بصیرت اور عقل و فہم ہے کہ اگر کراچی کو تھوڑا امن و استحکام مل جائے تو اس میں شنگھائی کے معیار تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے- اور اگر وہ یہ سب جانتے ہیں تو وہ دانستہ اس بات پر خاموش ہیں- میں نے شہر کو امن کے چند جھوٹے لمحات میں آگے بڑھتے ہوۓ دیکھا ہے-
آج میں نے پہلی بار کار چھننے کی واردات ہوتے دیکھی، میرا دل جیسے ٹوٹ کر رہ گیا- چدن دنوں بعد یہ ایک یاد بن کر رہ جاۓ گی، اور میں اپنے شہر کے ساتھ اپنا یہ چھوٹا سا تنازعہ بھول جاؤں گی-
کراچی کے سی این جی سٹیشنوں پر لگی لمبی قطاروں سے مجھے الجھن ہوتی ہے خصوصاً جب میں ان قطاروں میں ٹیکسیاں اور رکشے دیکھتی ہوں- میرے خیال سے یہ دیکھ کر توانائی کے بحران اور اس کے مضمرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- ایک بار ہم سی این جی کی قطار کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ ڈرائیور نے ایک پراڈو کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ جب یہ لوگ پراڈو خرید سکتے ہیں تو پھر پیٹرول کیوں افورڈ نہیں ہو سکتے-
گزشتہ دن میری والدہ پالک کی قیمت سن کر حیران رہ گئیں- اس پر ان کے باورچی نے جواب دیا 'بیگم صاحبہ یہاں صرف موت سستی ہے'- شاید یہ زندگی کی بے ثباتی ہی ہے جس کی وجہ سے کراچی والے بھرپور زندگیاں گزارتے ہیں- ورنہ جہاں میں رہتی ہوں وہاں تو بس گزارا ہو رہا ہے-
میری تلخ و شیریں ملاقات جلد اپنے اختتام کو پہنچ جاۓ گی- کسی عاشق کی طرح مجھے بھی امید ہے کہ میں ایک دن اپنے شہر کے ساتھ خوش خرم گزار پاؤں گی-
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (2) بند ہیں