• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

'اسٹیبلشمنٹ، القاعدہ بینظیر کو مردہ دیکھنا چاہتے تھے'

شائع December 6, 2013
چلی کے سفیر اور ان دنوں اقوام متحدہ میں نائب سیکریٹری جنرل ہیرالڈو مونیز ۔
چلی کے سفیر اور ان دنوں اقوام متحدہ میں نائب سیکریٹری جنرل ہیرالڈو مونیز ۔

نیویارک: ایک نئی کتاب نے پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے سیکورٹی کی حیران کن ناکامی، ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی روایت اور معاملے کو چھپانے جیسے مفروضوں کو پھر زندہ کر دیا ہے۔

چلی کے سفیر اور ان دنوں اقوام متحدہ میں نائب سیکریٹری جنرل ہیرالڈو مونیز کی کتاب 'گیٹنگ آوے وتھ مرڈر' اگلے ہفتہ امریکا میں فروخت کے لیے پیش ہونے جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ مونیز کی سربراہی میں اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے اس ہائی پروفائل قتل پر 2010 میں ایک سخت رپورٹ مرتب کی تھی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ بینظیر بھٹو کو قتل سے بچایا جا سکتا تھا اور پاکستان جان بوجھ کر اس قتل کی مناسب تحقیقات میں ناکام رہا۔

دو مرتبہ حکمرانی کرنے والی بینظیر بھٹو الیکشن میں حصہ لینے پاکستان واپس لوٹی تھیں کہ انہیں ستائیس دسمبر، 2007 میں ایک انتخابی جلسے میں خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا۔

واقعہ کو گزرے چھ سال ہو چکے ہیں تاہم آج تک کسی ملزم کو سزا نہیں دی جا سکی۔

اُس وقت کی حکومت نے واقعہ کی ذمہ داری پاکستانی طالبان پر عائد کی تھی، جبکہ ایک عدالت نے رواں سال اگست میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر اس قتل کا الزام عائد کیا۔

مونیز نے اپنی کتاب میں بینیظر بھٹو کے قتل کا موازنہ سترہویں صدی میں قتل کے ایک اجتماعی منصوبے سے کیا۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح ایک سابق وزیر داخلہ انہیں سوالات کے سیدھے سیدھے جواب دینے سے بچتے رہے۔

نیو یارک میں کتاب کی تقریب رونمائی میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں تحقیقات کے دوران کبھی اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہوا تو مونیز کا کہنا تھا کہ نہیں۔

تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ جنوری 2010میں ایک موقع پر وہ اپنی سیکورٹی بڑھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔

انہوں نے تقریب میں موجود حاضرین کو بتایا: مجھے ایک انتہائی بااعتماد ذریعہ نے خبردار کیا تھا کہ 'یہ لوگ' کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں دنیا کی پروا نہیں ہوتی۔

'مجھے کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ 'وہ لوگ' کون تھے، لیکن شاید ہم نے 'ان لوگوں' کے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ دیا تھا'۔

مونیز کے مطابق، بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث لوگوں کی مثال سترہویں صدی کے ایک ہسپانوی ڈرامے جیسی ہے جس میں پورا گاؤں مل کر ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کی سازش کرتا ہے۔

'القاعدہ انہیں مارنا چاہتی تھی، پاکستانی طالبان نے ممکنہ طور پر کچھ بدمعاش انٹیلیجنس ایجنٹوں کی مدد سے حملہ کیا جبکہ مقامی پولیس نے واقعہ کو چپھایا۔

مونیز کے مطابق بینظیر بھٹو کی ذاتی سیکورٹی نے بھی انہیں مایوس کیا اور سابق وزیر اعظم کو پاکستان آنے کی حوصلہ افزائی کرنے والے انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہے۔

ایک مرحلے پر امریکا نے بینظیر بھٹو کو ماضی میں بلیک واٹر کے نام سے کام کرنے والے نجی سیکورٹی ادارے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا، تاہم مشرف نے غیر ملکی ایجنٹوں کے پاکستان آنے کے امکان کو مسترد کر دیا۔

مونیز کے مطابق، سیاسی اداکار، جن میں بینظیر کے انتہائی قریبی بھی شامل ہیں، واقعہ میں ملوث قوتوں کی تحقیقات کرنے کے بجائے آگے بڑھ چکے ہیں۔

'وہ واضح طور پر پاکستانی طالبان اور القاعدہ کا ہدف تھیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں مردہ یا سیاسی میدان سے باہر دیکھنے کی خواہش مند تھی'۔

مونیز کا خیال ہے کہ پولیس اس واقعہ کے محرکات پر پردہ پوشی کی بڑی ذمہ دار تھی اور انہیں یقین ہے کہ پولیس نے ایسا 'بڑوں' کے کہنے پر کیا۔

تحقیقات کرنے والے وفاقی افسران کو بھی جائے وقوعہ کی جانچ میں جلدی نہیں تھی۔

'کام سے پہلے ان کی چائے سے تواضع کی گئی جس کی وجہ سے اندھیرا ہو گیا اور بعد میں انہیں کھانا بھی فراہم کیا گیا'۔

اس دوران جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا اور آخر میں تفتیشی ٹیم محض تئیس شواہد ہی اکھٹے کر پائی۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق، جائے وقوعہ سے ہزاروں معمولی شواہد اکھٹے کیے جا سکتے تھے۔

مونیز کے مطابق، ایسا سوچنا ہی مضحکہ خیز ہو گا کہ بینیظر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری اس قتل میں کسی طرح ملوث تھے۔

'وہ بہت مددگار تھے تاہم میں ان کی حکومت کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمیں اپنی تحقیقات میں ہر طرح کی رکاوٹوں کا سامنا رہا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ : سابق وزیر داخلہ اور بینظیر کے سیکورٹی چیف رحمان ملک واقعہ کے وقت ایک بیک اپ بلٹ پروف مرسیڈیز میں تھے، تاہم حملے کے بعد وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔

'صاف کہوں تو شاید وہ اپنی جان بچانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور ہمیں کبھی بھی ان سے سیدھے جوابات نہیں ملے'۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرموں کا تعین عدالتوں کا کام ہے لیکن مشرف خطرات میں گھری سابق وزیر اعظم کو مناسب سیکورٹی فراہم نہ کرنے کے 'سیاسی طور پر ذمہ دار' ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024