• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

انوکھے طریقے

شائع November 30, 2013

وفاقی حکومت نے بدھ کو اعلیٰ سطح پر فوجی قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ، کم از کم ایسی تین مزید تقرریاں بھی کی ہیں جو جو ازخود مختلف اشارے دے رہی ہیں لیکن نئے فوجی سربراہ کی تقرری کی خبر میں وہ دھندلا کر رہ گئیں۔

سپریم کورٹ کے لیے نئے چیف جسٹس کی تقرری اگرچہ ایک آئینی ذمہ داری تھی لیکن اس سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مدتِ ملازمت میں گیارہ دسمبر کے بعد، توسیع کی نہ ختم ہونے والی قیاس آرائیوں کا خاتمہ بھی ہوگیا۔

نئی پارلیمنٹ، نئے صدر، نئے آرمی چیف اور اب بارہ دسمبر کو نئے چیف جسٹس۔۔۔ جناب جسٹس جیلانی کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، اداروں کے اندر صرف ایک سال کے دوران، آئین اور قانون کے تقاضوں کے عین مطابق اعلیٰ ترین سطح پر اختیارات کی منتقلی کا منفرد عمل مکمل ہوجائے گا۔

جمہوری نظام اور اس کے استحکام کے لیے منظم اندازمیں اقتدار اور اختیارات کی منتقلی عین ضروری عمل تھا لیکن مختلف حوالوں سے اصل کام تو اب شروع ہوتا ہے: ایسی شخصیات جن کے کندھوں پر آئین کی رو سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہوں، ان کا فرض ہے کہ اجتماعی طور پر ملک کو بہتر مستقبل کی طرف لے کر بڑھیں؟

وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو دو وزارتی ذمہ داریاں بھی سونپی ہیں، جو اس سلسلے میں ایک ناخوشگوار جواب فراہم کرسکتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے دوران ملک دفاع، خارجہ اور قانون کے وفاقی وزرا کے بغیر کام کرتا رہا ہے جبکہ ان وزارتوں پر تقرریوں میں ناکامی کی بھی اب تک کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے۔

بہرحال، اگر وزیرِ اعظم کی خواہش ہو تو وہ فوج، قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات کے درمیان ربط قائم رکھنے کی خاطر، دفاع اور امورِ خارجہ کی وزارتیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن یہ وزارتیں اپنے پاس رکھنے کے باوجود، گذشتہ چند ماہ کے دوران وزیرِ اعظم نے اس محاذ پر کیا کوششیں کی ہیں؟

اور اب جبکہ سپریم کورٹ میں لاپتا افراد کی مسلسل جاری کہانی میں، وزیرِ دفاع کو انگاروں پر گھیسٹے کی باری آئی تو وزیرِ اعظم نے اپنے اور عدالت کے درمیان، خواجہ آصف کی شکل میں بفر زون دیکھا اور وزارتِ دفاع بھی انہیں سونپ دی، وہ اس کے ساتھ ساتھ بدستور وزیرِ بجلی و آب پاشی بھی رہیں گے۔

خواجہ آصف اس وقت ایسی وزارت کے انچارج ہیں جس کا کام ملک میں توانائی بحران کا حل تلاش کرنا ہے جو اب تک غیر واضح ہے، لہٰذا ایسے میں وزارتِ دفاع بھی انہیں سونپ دینا بالکل سمجھ نہیں آتا۔ اب تک یہی بات سمجھ آئی ہے کہ انہیں اسی لیے وزارتِ دفاع سونپی گئی تاکہ وزیرِ اعظم کو یہ وزارت رکھنے کے باعث عدالت میں طلبی سے بچایا جاسکے۔

اسی طرح وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو اضافی طور پر وزارتِ قانون کا اضافی قلمدان سونپ دینا بھی سمجھ سے باہر ہے۔ وزیرِ اطلاعات کے بائیو ڈیٹا میں ایسی اہلیت کا کوئی اظہار نہیں، جس سے سمجھ آتا ہو کہ وہ بطور وزیرِ قانون، پیچیدگیوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یا پھر جناب رشید ایک چہرہ ہوں گے اور پردے کے پیچھے سے بدستور سابق وفاقی وزیرِ قانون جناب زاہد حامد کا اثر و رسوخ معاملات کا احاطہ کرتا رہے گا؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کو ایوان میں واضح اکثریت حاصل ہے لیکن کیا اتنی بڑی اکثریت میں کوئی دو چار ایسے نہیں جو ان اہم وزارتوں کے فرائض سرانجام دینے کے اہل ہوں؟

اس اداریہ کو انگریزی میں پڑھیں.

سپریم کورٹ آف پاکستان، فائل فوٹو۔۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان، فائل فوٹو۔۔۔۔