• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

پاکستان کا پہلا کیوب سیٹ سیٹیلائٹ روس سے لانچ کردیا گیا

شائع November 22, 2013
پاکستان کا پہلا کیوب سیٹ سیٹیلائٹ آئی کیوب ون۔ —. فوٹو بشکریہ آئی ایس ٹی
پاکستان کا پہلا کیوب سیٹ سیٹیلائٹ آئی کیوب ون۔ —. فوٹو بشکریہ آئی ایس ٹی

اسلام آباد: پاکستان کا پہلا کیوب سیٹ سیٹیلائٹ آئی کیوب-1، ڈنیپر نامی راکٹ کے ذریعے روس کے لانچ بیس یاسنے سے جمعرات کو لانچ کردیا گیا۔

آئی کیوب-1 جسے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے تیار کیا، اس کے ڈیزائن اور تیاری پر تقریباً پینتس لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔

انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے ترجمان رضا بٹ نے ڈان سے بات کرتے ہوئےکہا کہ یہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”اس وقت دنیا میں اختصار کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ کیوب سیٹ سیٹیلائٹ کو لانچ کرنے کے اخراجات بڑے سیٹیلائٹ کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔ یہ کم لاگت ریسرچرز کے لیے بہت ہی زیادہ پُرکشش ہے، جو اس طرح کے کیوب سیٹ کا تجربہ اپنی استطاعت کے مطابق کرسکتے ہیں اور یہی ٹیکنالوجی بعد میں بڑے سیٹیلائٹ میں شامل کی جاسکتی ہے۔“

عام قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے بیان کردیا جائے کہ ایک کیوب سیٹ انتہائی مختصر سائز کا ایک سیٹیلائٹ ہوتا ہے، جسے خلائی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر اس کا حجم ایک لیٹر (دس مربع سینٹی میٹر) اور اس کا وزن ایک کلو تینتس گرام سے زیادہ نہیں ہوتا۔

اس کیوب سیٹ سیٹیلائٹ سے مستقبل کے تجربات کے لیے ایک وسیع سلسلے کا آغاز ہوسکے گا، یہ کیوب سیٹ کی کارگردگی کا دائرہ امیجنگ، مائیکرو گریویٹی، بایولوجی، نینو ٹیکنالوجی، اسپیس ڈائنامکس، کمیسٹری، اسپیس فزکس اور دیگر مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ کیوب سیٹ بہت سے سیٹیلائٹ کی تیاری میں کام آنے والے مخصوص پروگراموں کے لیے ایک بنیاد بھی فراہم کرے گا۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ ”اس کے علاوہ اس کیوب سیٹ کو اس کے معیار کی جانچ کے طریقہ کار کو پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو تمام دوسرے سیٹیلائٹ کے لیے یکساں ہے، اس سے سیٹیلائٹ تیار کرنے والے کو اس سے بڑے سیٹیلائٹ کی تیاری اور لانچنگ کے لیے اعتماد ملتا ہے۔“

بیس فیکلٹی ممبرز اور پندرہ طالبعلموں پر مشتمل ایک ٹیم نے اس پروجیکٹ پر 2009ء میں کام کا آغاز کیا تھا۔

آئی کیوب-1 کے بارے میں توقع ہے کہ یہ دو سال کے عرصے تک کام کرتا رہے گا۔ یہ زمین کے نچلے قطبی مدار کے ساتھ چھ سو کلومیٹر کی بلندی پر موجود ہے۔

اس پروجیکٹ کی تیاری کے دوران ہوئے دلچسپ مشاہدات بیان کرتے ہوئے رضا بٹ نے کہا ”لانچ کی تکمیل کے دوران یہ بات بہت دلچسپ تھی کہ ہماری ٹیم کو دیگر ملکوں مثلاً اٹلی، اسپین، امریکا اور پیرو کے ڈیویلپرز کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔ وہ بہت پُرجوش تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے مستقبل میں کیوب سیٹ پروجیکٹ کے لیے کھلے دل سے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی۔“

انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے دس سال کے مختصر ترین عرصے میں یہ حیران کن کامیابی حاصل کی ہے، اور اس کی قیادت، طالبعلموں اور اساتذہ کی کوششوں سے اس شعبے میں نمایاں مقام دیا ہے اور یہ اسپیس ٹیکنالوجی میں ملک کا ایک امتیازی مرکز بن گیا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر انجینئر عمران رحمان نے سیٹیلائٹ تیار کرنے والی ٹیم کو اس کی عظیم کامیابی پر مبارکباد دی۔

انہوں نے اس سنگِ میل پار کرنے کے سلسلے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ، ترقی اور اصلاحات پروفیسر احسن اقبال، چیئرمین ایچ ای سی اور چیئرمین نیشنل اسپیس ایجنسی کا ان کی مسلسل حوصلہ افزائی اور مدد پر شکریہ ادا کیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024