ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج
لنڈی کوتل: خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے جمعرات اکیس نومبر کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف عوامی شکایت پر ایک قتل کا مقدمہ درج کرلیا، ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مریض کا آپریشن کیاجس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوگئی۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان آفریدی کی والدہ نصیبہ گل، جو باڑہ کے علاقے سیپاہ کی رہائشی ہیں، نے پانچ مہینے پہلے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس ایک شکایت درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ان کے بیٹے کی اس وقت سرجری کی تھی، جب وہ سندیافتہ نہیں تھے۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شکیل جو تاحال کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں پشاور جیل کے اندر قید ہیں، اس وقت سرجن نہیں تھے اور انہوں نے غیرقانونی طور پر سرجری کی، نتیجے میں ان کے بیٹا جانبر نہ ہوسکا۔
یہ سرجری باڑہ میں واقع ڈاکٹر شکیل کے پرائیویٹ کلینک میں 2007ء کے دوران کی گئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پیشہ ورانہ قابلیت کے بارے میں ایجنسی کے سرجن کی رائے لی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایجنسی کے سرجن نے انتظامیہ کو بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی عام جسمانی امراض کے ڈاکٹر تھے، اور اسپیشلسٹ سرجن نہیں تھے۔ انہیں کسی طرح کی سرجری کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سلمان آفریدی کے ایک بھائی نے یہ معاملہ اس وقت پریس میں اُٹھایا تھا جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف کیس درج کرنے کے لیے ان کی درخواست پر انتظامیہ نے توجہ نہیں دی تھی۔
سیاسی انتظامیہ نے یہ کیس پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302 اور 419 اور فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے سیکشن 11 کے تحت درج کیا ہے۔ اس کیس کا ایک وارنٹ پشاور جیل کے سپریٹنڈنٹ کو بھی ارسال کردیا گیا ہے۔
انتظامیہ نے طے کیا ہے کہ اس کیس کی سماعت جیل کے اندر بیس دسمبر کو ہوگی۔ پولیٹیکل ایجنت مطاہر زیب اس مقدمے کی سماعت کریں گے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی سی آئی اے کی مدد کے لیے ایبٹ آباد میں جعلی ویکسین مہم چلانے کے الزام میں مئی 2011ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کے بعد مئی 2012ء میں انہیں باڑہ میں ایک کالعدم تنظیم سے تعلقات پر ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے سزا سنائی تھی۔ انہیں 33 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ تاہم فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کمشنر نے ان کی سزا کو ایک جانب کرکےپولیٹیکل ایجنٹ کو اس کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا۔
اس سے پہلے جمعرات کو ہی خاصدار فورس کو باڑہ میں اکا خیل کے علاقے شین درند میں تین افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ تینوں مرنے والوں کی لاشوں کو مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا، اس لیے کہ کسی نے بھی ان سے تعلق کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔
اس کے علاوہ جمعرات کو اکاخیل میں دہشت گردوں نے ایک خاصہ دار کے گھر کو تباہ کردیا۔حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گھر کو تباہ کرنے سے پہلے گھر کا سارا سامان لے گئے۔