Get the latest news and updates from DawnNews
غزہ میں فلسطینی شہریوں کی پناہ گاہوں پر اسرائیل کے رات بھر حملوں میں کم از کم 45 فلسطینی اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ بدھ سے جمعرات کی صبح تک صہیونی فوج نے مظلوم فلسطینی عوام کی پناہ گاہوں پر حملے جاری رکھے، بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 45 افراد شہید ہوئے، شہدا میں ایک صحافی بھی شامل ہے۔
آج جمعرات کی صبح سے اب تک کے حملوں میں 13 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ کے مرکزی خیمے کی پناہ گاہ پر اسرائیلی حملے میں 3 بچے بھی شہید ہوئے، اس سے پہلے وسطی غزہ میں نصیرات کے مغرب میں خیمہ پناہ گاہ پر مہلک اسرائیلی حملے کی اطلاع ملی تھی۔
اب مقامی فلسطینی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فضائی حملے میں 3 بچے شہید ہوئے جس کے نتیجے میں فراز اللہ خاندان کے خیمے کی پناہ گاہ میں آگ لگ گئی۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بچے آگ میں جل کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
غزہ میں طبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ’الجزیرہ عربی‘ نے اطلاع دی کہ شہید ہونے والوں میں الاقصیٰ ریڈیو کے صحافی سعید ابو حسنین بھی شامل ہیں۔
18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی جنگ مسلط کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 51 ہزار 305 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 17 ہزار 96 زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر عمار بن گویر نے کہا ہے کہ امریکی ریپبلکن پارٹی کے قانون ساز غزہ میں ’خوراک اور امداد کے ڈپو‘ پر بمباری کی ضرورت کے بارے میں ان کے ’بہت واضح مؤقف‘ کی حمایت کرتے ہیں۔
اسرائیلی انسانی حقوق کے گروپ ’یش دین‘ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں راملہ کے شمال مشرق میں واقع سنجیل گاؤں میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں اور زرعی اراضی پر حملے اور انہیں جلانے کی تصاویر اور ویڈیو کلپ شیئر کی ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کام کرنے والی تنظیم ’یش دین‘ کا کہنا ہے کہ آباد کاروں نے رواں ہفتے اب تک دو بار اس گاؤں پر حملہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے آباد کاروں کی جانب سے شروع کی گئی آگ بجھانے کی کوشش کرنے والے مقامی افراد پر آنسو گیس کے گولے داغ کر اس سے قبل ہونے والے حملے میں بھی مدد کی تھی۔
یش دین نے کہا کہ افوج یہودی حملہ آوروں کو قابل بناتی ہیں اور ہنگامی خدمات کو علاقے تک رسائی سے روکتی ہیں، تشدد فلسطینی گاؤں کے قریب ایک نئی آباد کار فارم چوکی کے قیام سے مطابقت رکھتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے صدر محمود عباس نے حماس سے جنگ کے خاتمے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا۔
صدر محمود عباس نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے اور غزہ کا انتظام ان کی پی اے انتظامیہ کے حوالے کرے۔
محمود عباس نے بدھ کے روز ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جہاں مغربی اور عرب طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن کوششوں کی قیادت کرنے کی پی اے کی اہلیت کے بارے میں فکرمند مغربی اور عرب طاقتوں کے دباؤ کے درمیان طویل عرصے سے برسراقتدار رہنما کی جانب سے اپنے جانشین کے نام کا اعلان کیے جانے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل کو غزہ کی آبادی کو ’انسانی بقا کی ضروریات‘ سے محروم کرنے کا انتباہ دے دیا۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (او سی ایچ اے) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ تک امدادی سامان کی ترسیل روکنے سے علاقے کی آبادی ’انسانی بقا کی ضروریات‘ سے محروم ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جبری طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے خیموں پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہادتیں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
تازہ ترین حالات کے جائزے میں او سی ایچ اے نے یہ واضح پیغام دیا کہ غزہ کی پٹی کو اکتوبر 2023 میں کشیدگی میں اضافے کے بعد سے 18 ماہ میں بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
او سی ایچ اے کے مطابق اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں، 50 روز سے زائد عرصے سے انسانی امداد اور تجارتی سامان کے داخلے پر پابندی، اسرائیل کی جانب سے امدادی کارکنوں کے قتل اور ان کے احاطے پر حملوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے میں نقل و حرکت پر سخت پابندیوں کی وجہ سے علاقے میں امدادی کارروائیاں رک گئی ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہماری شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کیوں کرتی ہے اور وہ نتائج کیوں تبدیل کرتی ہے، حالانکہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ریاست کے تحفظ کے لیے ہے اور ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری ہے لیکن اسے پسند وناپسند کا اختیار نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اصول تو یہی ہے کہ الیکشن آزاد اور شفاف اور الیکشن کمیشن کے انتظام کے تحت ہونے چاہیے لیکن شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں مداخلت کرتی ہے، وہ کیوں نتائج تبدیل کرتی ہے، وہ انتخابی عملے کی تبدیلیاں اپنی مرضی سے کیوں کرتی ہے، الیکشن کمیشن کو کیوں لسٹ مہیا کرتی ہے کہ فلاں کو فلاں جگہ پر رکھو، یہ اعتراضات اصولی طور پر ہمارے ہیں جسے ہم نے اجاگر کیا ہے کیوں کہ
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ریاست کے تحفظ کے لیے ہے، وہ ریاست کے مفادات کے لیے ہے ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری لیکن اسے پسند ناپسند کا اختیار نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 32 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق غزہ شہر میں ایک اسکول سے پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد آگ بھڑک اٹھی، اس واقعے میں 10 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جو جل کر کوئلہ بن گیا۔
اسرائیلی بمباری سے غزہ شہر میں الدورا پیڈیاٹرک ہسپتال کو نقصان پہنچا اور پٹی میں امدادی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے بلڈوزر تباہ ہوگئے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے کہا ہے کہ دوحہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اب بھی ثالثوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے بعد سے اب تک کم از کم 51 ہزار 266 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 17 ہزار زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حملوں کے دوران کم از کم 1139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے خبر دی ہے کہ حماس کا ایک وفد قیدیوں کی رہائی اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے نئے دور کے لیے قاہرہ جا رہا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ثالثی کی کوششوں سے واقف 2 ذرائع نے بتایا کہ وفد ایک نئی پیشکش پر تبادلہ خیال کرے گا، جس میں تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد 5 سے 7 سال تک جنگ بندی اور لڑائی کا خاتمہ شامل ہوگا۔
ذرائع نے ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل نے طویل مدتی جنگ بندی کی تجویز پر اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔
دریں اثنا ’اے ایف پی‘ نے حماس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ چیف مذاکرات کار خلیل الحیا کی سربراہی میں وفد مصری حکام سے ملاقات کرے گا، جس کا مقصد جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے نئے خیالات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
گروپ نے اب تک ان رپورٹس پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں نے شمالی اسرائیل کی جانب بیلسٹک میزائل داغا، تاہم صہیونی فوج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میزائل کو بغیر کسی نقصان کے گرا دیا گیا ہے۔
بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بجے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ یمنی حوثیوں نے بحیرہ گلیل کے مغرب میں حیفا، کریوت اور دیگر علاقوں میں فضائی حملے کیے۔
یہ علاقہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے لیے نایاب ہدف ہے، جو اب بھی امریکا کی شدید فضائی حملوں کی مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل پر بار بار میزائل اور ڈرون داغے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔
باغی گروپ کا یمن کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول ہے اور اسرائیل، یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے اندر حوثیوں کے ٹھکانوں کو متعدد بار نشانہ بنا چکا ہے۔
حوثیوں نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
یمن پر امریکی فضائی حملے، جو 15 مارچ سے شروع ہونے والی تقریباً روزانہ کی مہم کا حصہ ہیں، اس دوران بدھ کی صبح حوثیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
حوثی باغیوں نے الحدیدہ، مارب اور صعدہ گورنریز پر امریکی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
مارب میں حوثیوں نے ٹیلی کمیونیکیشن آلات کو نشانہ بنانے کے بارے میں بتایا، جو پہلے امریکا کا ہدف تھا۔
اس کے جواب میں حوثی باغیوں نے ملک کے اوپر سے اڑنے والے امریکی ڈرونز کو نشانہ بنانا تیز کر دیا، حوثی ملیشیا کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سری نے بتایا کہ باغیوں نے یمن کے شمال مغربی صوبہ حجہ میں ایم کیو-9 ریپر ڈرون مار گرایا ہے۔
ایم کیو 9 ریپر ڈرونز، جن کی قیمت تقریباً 3 کروڑ ڈالر ہے، 40 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں اور 30 گھنٹے سے زیادہ ہوا میں رہ سکتے ہیں۔
امریکی فوج اور سی آئی اے نے کئی سال تک انہیں افغانستان، عراق اور اب یمن پر اڑایا ہے۔
حوثی باغیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یمن جنگ کے گزشتہ ایک عشرے کے دوران 26 ایم کیو نائن طیارے مار گرائے ہیں۔
امریکی فوج نے ڈرون مار گرائے جانے کی خبر کو تسلیم کیا، لیکن کہا ہے کہ وہ اس پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتی۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہازوں اور اسرائیل پر حملوں کو روکنے کے لیے حوثی ’دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنا رہی ہے۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل قانونی طور پر غزہ میں امداد کی اجازت دینے کا پابند ہے۔
الجزیرہ کے مطابق جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کی اجازت دے کر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی امداد کو کبھی بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، اور فلسطینی علاقے میں امداد کو کم نہیں کیا جانا چاہیے۔
اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے اور غزہ کی پٹی میں خوراک، ادویات، ایندھن اور تجارتی سامان سمیت کسی بھی سامان کی آمد و رفت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیل نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ غزہ میں باقی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو قبول کرنے کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے جان بچانے والی اشیا کو روکنے کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان خلیل دیکران نے کہا ہے کہ اسرائیل تقریباً 2 ماہ سے خوراک اور طبی سامان کے داخلے کو روک رہا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں میں غذائی قلت کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
2 مارچ سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ حماس پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ باقی تمام قیدیوں کو رہا کرے، اس نے 18 مارچ کو غزہ پر اپنی جارحیت بھی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
ناکہ بندی شروع ہونے کے بعد سے، روٹی بنانے والی اقوام متحدہ کی فراہم کردہ تمام 25 بیکریوں کو بند کر دیا گیا ہے، امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ آبادی بھوک اور بڑے پیمانے پر بیماری کے دہانے پر ہے۔
پاکستان اور ترکیہ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی حمایت کا اعادہ کیا ہے جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کے سرکاری دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
اردوان نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے پختہ موقف کی تعریف کی۔
رپورٹ میں ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے غزہ میں نسل کشی پر سخت ردعمل دیا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے غزہ میں فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی پر بھی زور دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ترک صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر منگل کو ترکیہ پہنچے تھے۔
ڈان نیوز کے مطابق انقرہ ایئرپورٹ پر ترک وزیر دفاع نے شہبازشریف کا استقبال کیا تھا، جبکہ اس موقع پر ڈپٹی گورنر، پاک ترک کلچرل ایسوسی ایشن اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات سے واقف ایک سینئر فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ قطری اور مصری ثالثوں نے غزہ میں 5 سے 7 سال تک جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا فارمولا تجویز کر دیا۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 5 سے 7 سال تک جاری رہنے والی جنگ بندی، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کا باضابطہ خاتمہ اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی تجویز دی گئی ہے۔
حماس کا ایک سینئر وفد مشاورت کے لیے قاہرہ پہنچنے والا ہے۔
آخری جنگ بندی ایک ماہ قبل اس وقت ختم ہوئی تھی جب اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کر دی تھی، اور دونوں فریق اسے جاری رکھنے میں ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے ثالثوں کے منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دریں اثنا حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے ایک طبی اہلکار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ پیر کی شام سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 22 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ فلسطینی شہری خان یونس، جبالیہ، بیت لاہیا اور غزہ سٹی میں شہید ہوئے اور 45 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین نے فضائی حملوں کو ’انتہائی شدید‘ قرار دیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق ان حملوں میں درجنوں بلڈوزر اور بھاری مشینری تباہ ہو گئی، جو حماس کے زیر انتظام میونسپلٹیز کی جانب سے سڑکوں کو دوبارہ کھولنے، ملبے کو صاف کرنے اور ملبے تلے دبے متاثرین کو بچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
غزہ کے جنوب میں واقع رفح شہر کے جنوبی حصے میں بھی ٹینکوں کو حرکت کرتے دیکھا گیا ہے، اسرائیل اپنے جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔
قاہرہ میں حماس کی سیاسی کونسل کے سربراہ محمد درویش اور اہم مذاکرات کار خلیل الحیا اعلیٰ سطح پر حماس کی نمائندگی کریں گے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چند روز قبل حماس نے اسرائیل کی تازہ ترین تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس میں حماس سے 6 ہفتوں کی جنگ بندی کے بدلے میں غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ہفتے کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔
حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی سے قبل جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا جائے۔
بات چیت سے واقف فلسطینی عہدیدار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ حماس نے غزہ کا نظم و نسق کسی بھی فلسطینی ادارے کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس پر ’قومی اور علاقائی سطح پر‘ اتفاق کیا گیا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ یہ مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی (پی اے) یا نو تشکیل شدہ انتظامی ادارہ ہوسکتا ہے۔
نیتن یاہو نے غزہ کی مستقبل کی حکمرانی میں پی اے کے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا ہے، جہاں 2007 سے حماس کی حکومت ہے۔
اگرچہ کامیابی کے امکانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے، ذرائع نے ثالثی کی موجودہ کوشش کو سنجیدہ قرار دیا اور کہا کہ حماس نے ’غیر معمولی لچک‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں تقریباً ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، اور 200 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے جایا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل نے اس کے جواب میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس میں 51 ہزار 240 فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب قاہرہ میں فلسطینی سفارت خانے نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے مصر کے ہسپتالوں میں طبی انخلا اور انسانی امداد کے داخلے میں سہولت فراہم کریں، اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ غزہ کی سرحد کے قریب واقع مصری شہر اریش منتقل ہو جائیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ روکے جانے پر ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا، تاریخی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے پر کیمپس میں یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے اور دیگر خدشات کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کرنے سے انکار کردیا تھا۔
نیو یارک پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر 69 سالہ ایلن گاربر نے صدر ٹرمپ کی ٹیم پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وفاقی فنڈز کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے کیمپس کے معاملات پر ’بے مثال اور نامناسب کنٹرول‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ایلن گاربر نے ایک بیان میں متنبہ کیا کہ ان اقدامات کے مریضوں، طلبہ، فیکلٹی، عملے، محققین اور دنیا میں امریکی اعلیٰ تعلیم کی ساکھ پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
حکومت کی حد سے تجاوز کے نتائج سنگین اور دیرپا ہوں گے۔
اس ماہ کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ کی وائٹ ہاؤس کی ٹاسک فورس برائے یہود دشمنی نے 11 اپریل کو ہارورڈ یونیورسٹی کو ایک ای میل بھیجی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ معروف جامعہ یہود دشمنی پر پابندی لگائے اور میرٹ کے حق میں کچھ تنوع اور صنفی پروگراموں کو ختم کرے۔
ان مطالبات میں میرٹ کی بنیاد پر مزید بھرتیاں کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔
مطالبہ کیا گیا تھا کہ تنوع، مساوات اور شمولیت کے پروگراموں کو ختم، یہود دشمنی اور دیگر تعصب کے بدترین ریکارڈ والے پروگراموں میں اصلاحات لائی جائیں۔
بین الاقوامی درخواست دہندگان کے داخلوں کی جانچ پڑتال کو تیز کیا جائے تاکہ امریکی اقدار کے مخالف طلبہ کو داخلہ دینے سے روکا جا سکے، ان اقدامات میں دہشت گردی یا یہود مخالف اقدامات کو روکنا بھی شامل تھا۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام ( ف ) مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے، سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کے ہمراہ لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے، فلسطینیوں کے لیے ملک بھر میں ہم بیداری کی مہم چلائیں گے، تاکہ ہماری قوم، امت مسلمہ اور اس کے حکمران یکسو ہوکر مظلوم فلسطینیوں کے مداوے کے لیے کچھ کردار ادا کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے 27 اپریل کو مینارپاکستان پر بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا، جس میں مذہبی جماعتیں شرکت کریں گی۔
سربراہ جے یو آئی ( ف ) نے کہا کہ ’ مجلس اتحاد امت ’ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، لاہور میں اجتماع بھی اسی پلیٹ فارم کے تحت ہوگا، جس میں تمام مذہبی پارٹیاں اور تنظیمیں شریک ہوں گی اور مینار پاکستان جلسے میں فلسطینیوں سےاظہاریکجہتی کریں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کا بڑا واضح موقف ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے اور یہ امت مسلمہ کی کمزوریاں ہیں، امت مسلمہ کو اپنے حکمرانوں کے رویے سے شکایت ہے کہ وہ اپنا حقیقی فرض کیوں ادا نہیں کررہے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کے حوالے سے جے یو آئی کا منشور بڑا واضح ہے، ہر صوبے کے وسائل اس صوبے کے عوام کی ملکیت ہیں، ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگ اگر اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا، بہتر ہوتا کہ ہم مرکز میں تمام صوبوں کو بٹھاتے اور متفقہ لائحہ عمل طے کرتے، یہ حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ ہر مسئلے کو متنازع بنادیتے ہیں۔
26 ویں ترمیم کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے مولانا نے کہا اس ترمیم پر ہمارا اختلاف تھا اسی لیے 56 شقوں میں سے حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کرایا گیا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین اور غزہ ہے، اسرائیل امریکا کی سرپرستی میں ظلم کررہا ہے، اس پر ہمارا اتفاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کریں، اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوں اور ظالموں کی مذمت کریں، چاہے وہ امریکا ہو یا اسرائیل ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سب کو آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہونی چاہیے اور سب کو قبول کرنی چاہیے، اور تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی کا اپنا ایک نظام ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جماعت اسلامی کا اپنا ایک موقف ہے اور ہم نے اس ترمیم کو کلیتاً مسترد کیا تھا، اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہم جدوجہد کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا الیکشن کے حوالے سے موقف تھوڑا سا مختلف ہے، ہم الیکشن میں دھاندلی کے موقف پر جے یو آئی سے اتفاق کرتے ہیں مگر ہم فوری طور پر نئے الیکشن کا مطالبہ نہیں کررہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اس پر ہمارا موقف ہے کہ چونکہ فارم 45 اکثر لوگوں کے پاس موجود ہے اور انتخاب کو ابھی ایک سال ہوا ہے، تو ہمارا موقف یہ ہے کہ اتفاق رائے سے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کرے۔
اسرائیلی فوج نے تازہ فضائی حملوں میں 24 گھنٹوں کے دوران مزید 39 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 39 فلسطینی شہید ہوئے، جس کے بعد 18 ماہ سے جاری جنگ میں شہادتوں کی تعداد بڑھ کر 51 ہزار 240 ہوگئی ہے۔
وزارت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 62 دیگر افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا، جس کے بعد زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار 931 ہوگئی ہے۔
غزہ سول ڈیفنس اور فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے 14 فلسطینی ایمرجنسی ورکرز اور اقوام متحدہ کے ملازم کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے گزشتہ ماہ ہونے والے وحشیانہ قتل کی اسرائیلی تحقیقات کو مسترد کردیا ہے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی واپسی جنگ کا سب سے اہم مقصد نہیں ہے۔
دائیں بازو کے گیلی اسرائیل ریڈیو اسٹیشن کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں غزہ کے مسئلے کو مستقل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کی جانب سے شائع ہونے والے تازہ ترین سروے کے مطابق تقریباً 56 فیصد اسرائیلی عوام غزہ میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے حماس کے زیر حراست تمام قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔
سروے کے مطابق 22 فیصد اسرائیلی عوام اس طرح کے معاہدے کے مخالف ہیں۔
کنٹر انسٹیٹیوٹ کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کو پارلیمان میں نشستیں مل رہی ہیں، جب کہ یائر لاپیڈ کی حزب اختلاف یش عتید کی حمایت کمزور ہوئی ہے۔
حوثیوں سے وابستہ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا کے ایک مشہور بازار پر ہونے والے تازہ ترین امریکی حملے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق انصار اللہ کے نام سے مشہور حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں عمارتوں اور نجی تجارتی دکانوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
ایمبولینس اور ریسکیو ٹیمیں متاثرین کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب بھی تازہ ترین حملے کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
امریکا نے مارچ میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا، اور اس کے بعد سے اب تک متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا میں امریکی حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس کے بعد اطلاعات مل رہی ہیں کہ ملک پر مزید امریکی حملے ہو رہے ہیں۔
حوثیوں کے ذرائع ابلاغ المسیرہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ امریکی افواج نے شمال مغربی صوبہ امران میں 3 اور شمالی صوبہ مارب کے ضلع الجوبہ پر مزید 2 حملے کیے ہیں۔
المسیرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارب کے ضلع سرواہ پر 4 دیگر حملے بھی ہوئے ہیں۔
امریکا نے 16 مارچ کو یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی حملے شروع کیے تھے، جس میں کم از کم 53 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، یہ حملے اس وقت کیے گئے تھے، جب حوثیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں پر دوبارہ حملے شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض حوثیوں نے نومبر 2023 سے اب تک ملک کے ساحل کے قریب بحری جہازوں پر 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
امریکی فرم پروجیکٹ 44 کے مطابق ان حملوں کی وجہ سے 2024 میں نہر سوئز سے گزرنے والے ٹریفک میں 75 فیصد کمی واقع ہوئی، اور ٹرانزٹ کے اوقات میں اوسطاً 7 سے 14 دن کا اضافہ ہوا ہے، کیونکہ شپنگ کمپنیاں طویل متبادل راستے اختیار کر رہی ہیں۔
جنوری میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کے بعد حوثی باغیوں نے حملے روک دیے تھے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کے خلاف اس کی مہم کا مقصد دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا اور بین الاقوامی تجارت کا تحفظ کرنا ہے۔
یمن میں امریکی حملوں میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 80 ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو راس عیسیٰ آئل فیلڈ پر حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
پوپ فرانسس نے ایسٹر سنڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے، جب پوپ (جو اب بھی نمونیا سے صحت یاب ہو رہے ہیں) سینٹ پیٹرز بیسلیکا کی مرکزی بالکونی میں مختصر حاضری کے دوران نظر آئے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 88 سالہ پوپ نے ڈاکٹروں کے حکم پر اپنے کام کے بوجھ کو محدود کرتے ہوئے ایسٹر کے موقع پر ویٹی کن کی دعائیہ تقریب کی صدارت نہیں کی، بلکہ تقریب کے اختتام پر سال میں 2 مرتبہ ہونے والی ’اربی ایٹ اوربی‘ (شہر اور دنیا کے لیے) کے نام سے ایک دعائیہ تقریب میں شریک ہوئے۔
نمونیا کے باعث 5 ہفتوں تک ہسپتال میں رہنے سے قبل پوپ فرانسس غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم پر تنقید کرتے رہے ہیں اور فلسطینی علاقے میں انسانی صورتحال کو ’انتہائی سنگین اور شرمناک‘ قرار دیا۔
ایسٹر کے پیغام میں پوپ نے کہا کہ غزہ کی صورتحال ڈرامائی اور افسوسناک ہے۔
انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ باقی قیدیوں کو رہا کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں تمام اسرائیلی عوام اور فلسطینی عوام کے مصائب کے ساتھ اپنی قربت کا اظہار کرتا ہوں، میں متحارب فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ جنگ بندی کا اعلان کریں، یرغمالیوں کو رہا کریں اور بھوکے لوگوں کی مدد کے لیے آئیں، جو امن کے مستقبل کے خواہاں ہیں۔‘
مقامی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک 51 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ان میں سے صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران 1600 افراد شہید ہوئے ہیں۔
امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس، جو ہفتے کے آخر میں اٹلی کا دورہ کر رہے ہیں، نے ایسٹر کی آمد سے قبل ویٹی کن میں پوپ فرانسس سے ملاقات کی تھی۔
ویٹی کن کا کہنا ہے کہ وینس کے ساتھ ملاقات مختصر اور چند منٹ تک جاری رہی تاکہ ایسٹر کی مبارک باد کا تبادلہ کیا جا سکے۔
محاصرے اور تنازعات سے دوچار غزہ کے کچھ خاندانوں نے پروٹین کے نایاب ذریعہ کے طور پر سمندری کچھوے کھانا شروع کردیے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایک بار خول ہٹانے کے بعد گوشت کو کاٹ کر ابال لیا جاتا ہے اور اسے پیاز، کالی مرچ ، ٹماٹر اور مصالحوں کے مرکب میں پکایا جاتا ہے۔
ماجدہ قنان نے لکڑی کی آگ کے اوپر ایک برتن میں ابلتے ہوئے سرخ گوشت کے ٹکڑوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا کہ’بچے کچھوے سے ڈرتے تھے، لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ اس کا ذائقہ ویل کی طرح لذیذ ہوتا ہے، ان میں سے کچھ نے اسے کھایا، لیکن دیگر نے انکار کر دیا’۔
بہتر متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تیسرا موقع ہے جب 61 سالہ قنان نے اپنے خاندان کے لیے کچھوے کے گوشت پر مبنی کھانا تیار کیا ہے جو بے گھر ہو گئے تھے اور اب جنوبی غزہ کے سب سے بڑے شہر خان یونس میں ایک خیمے میں رہتے ہیں۔
18 ماہ کے تباہ کن تنازع اور 2 مارچ سے امداد پر اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے کے 24 لاکھ باشندوں کے لیے سنگین انسانی صورتحال کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
12 بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہوں نے خبردار کیا ہے کہ قحط صرف ایک خطرہ نہیں ہے، بلکہ ممکنہ طور پر غزہ کے تقریباً تمام حصوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ماجدہ قنان نے کہا کہ کوئی کھلی راہداری نہیں ہے اور مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے جب میں 80 شیکل (22 ڈالر) میں سبزیوں کے 2 چھوٹے تھیلے خریدتی ہوں، تو اس میں کوئی گوشت نہیں ہوتا۔
سمندری کچھوؤں کو بین الاقوامی سطح پر خطرے سے دوچار نسل کے طور پر قابل تحفظ قرار دیا جاتا ہے، لیکن غزہ کے ماہی گیروں کے جال میں پھنسنے والے کچھوؤں کو خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ماجدہ قنان کچھوے کے گوشت کو ایک پرانے دھات کے برتن میں ابالنے سے قبل آٹے اور سرکہ کے ساتھ دھوتی ہیں۔
ماہی گیر عبدالحلیم قنان کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی کچھوے کھانے کا نہیں سوچا تھا، جب جنگ شروع ہوئی تو خوراک کی قلت تھی، کھانا نہیں ہے لہٰذا (کچھوے کا گوشت) پروٹین کے دیگر ذرائع کے لیے ایک متبادل ہے کیونکہ گوشت، مرغی یا سبزیاں نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور نے متنبہ کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد سے غزہ کو اپنے سب سے شدید انسانی بحران کا سامنا ہے، 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ میں لڑائی جاری ہے، جو صرف دو بار رکی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علاقائی سربراہ حنان بلخی نے جون میں کہا تھا کہ غزہ کے کچھ باشندے اتنے مایوس ہیں کہ وہ جانوروں کی خوراک اور گھاس کھا اور سیوریج کا پانی پی رہے ہیں۔
حماس نے جمعرات کو اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، ماہی گیر عبدالحلیم قنان نے کہا کہ کچھوؤں کو اسلامی رسومات کے مطابق ’حلال‘ طریقہ کار کے تحت مارا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر قحط نہیں ہوتا، تو ہم اسے نہیں کھاتے اور اسے چھوڑ دیتے، لیکن ہم پروٹین کی کمی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 54 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ حماس نے ایک اور عارضی جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے قیدیوں کے بدلے تنازع کے خاتمے کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی نژاد امریکی قیدی ایڈن الیگزینڈر کی قسمت کا پتہ نہیں چل سکا، کیوں کہ اسے پکڑنے والے محافظ کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 51 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 16 ہزار 505 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
الجزیرہ کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں اس لمحے کو دکھایا گیا ہے، جب اسرائیلی فضائی حملے نے غزہ شہر کے جنوب میں زیتون کے پڑوس میں ایک گھر کو نشانہ بنایا تھا۔
موقع پر موجود الجزیرہ کے صحافیوں کے مطابق، ہفتے کی شام کو ہونے والی بمباری میں نصر خاندان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے، جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
زخمیوں کو علاج کے لی ے الشفا ہسپتال لے جایا گیا۔
ہند رجب فاؤنڈیشن (ایچ آر ایف) نے امریکی محکمہ انصاف اور ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشن ز پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں ’جنگی جرائم‘ کے ارتکاب پر اسرائیلی فوجی یوول شٹل کو گرفتار کریں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔
ایچ آر ایف کا کہنا ہے کہ یہ فوجی آخری بار جنوبی ریاست ٹیکساس میں دیکھا گیا تھا، اور وہ اسرائیلی فوج کی جیوتی بریگیڈ میں سارجنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں تعیناتی کے دوران اس اہلکار نے مبینہ طور پر شہریوں کے گھروں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو جان بوجھ کر تباہ کرنے میں حصہ لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شٹل کے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے عوامی طور پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں انہیں خان یونس میں ایک اپارٹمنٹ بلاک کو توڑتے ہوئے اور اس کی تباہی کا جشن مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے، دیگر فوٹیج میں انہیں تیبریاس پرائمری اسکول اور حسن البنا مسجد کے انہدام میں ملوث دکھایا گیا ہے۔
یہ این جی او بیلجیئم میں گزشتہ سال قائم کی گئی تھی، اور اس نے دنیا بھر سے وکلا اور کارکنوں کو اکٹھا کیا ہے، تاکہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے خود شیئر کیے جانے والے سوشل میڈیا مواد کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جاسکیں۔
غزہ پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 70 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ جمعے کی صبح سے اب تک اسرائیلی فورسز نے متعدد گھروں، خیمہ بستیوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے فوری انتباہ جاری کیا ہے کہ غزہ کو اب خوراک کی ضرورت ہے، کیونکہ لاکھوں افراد کو بھوک کا خطرہ ہے۔
غزہ میں ’الجزیرہ‘ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے لوگ ’نفسیاتی طور پر ٹوٹ چکے‘ ہیں، اور امدادی سامان کی فراہمی پر اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے قاصر ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 ماہ قبل غزہ پر مسلط کردہ اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں کم از کم 51 ہزار 65 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 16 ہزار 505 زخمی ہوئے ہیں۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
تازہ ترین ڈرون حملہ وسطی غزہ میں بریج پناہ گزین کیمپ پر کیا گیا۔
فلسطین انفارمیشن سینٹر کے مطابق ایک نوجوان جس کی شناخت اکرم الحواجری کے نام سے ہوئی ہے، بریج کیمپ کے داخلی راستے کے شمال میں واقع الفزب مارکیٹ کے قریب ڈرون حملے میں شہید ہوا۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی توپ خانے نے وسطی غزہ میں بریج کیمپ کے جنوب میں واقع قریب واقع مغازی پناہ گزین کیمپ پر گولہ باری کی ہے۔
الخلیل کے جنوب میں فووار پناہ گزین کیمپ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوج کی بمباری میں تقریباً 30 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
مقامی فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے فوجی آپریشن کے دوران 60 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے، اور ان کی حراست کے مقام پر فوج کی جانب سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
آن لائن شیئر کی جانے والے ویڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی مردوں کو بندوق کی نوک پر بھاگنے پر بھی مجبور کیا۔
انسانی حقوق کے گروپ ’الحق‘ نے عالمی ثقافتی ورثے کے دن کے موقع پر کہا کہ اسرائیل نے فلسطینی ثقافت اور ورثے کو دبانے کی جاری کوشش میں متعدد فلسطینی مقامات کو نشانہ بنایا ، جن میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل مقامات بھی شامل ہیں۔
الحق نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی بیت لحم گورنری میں واقع المخرور کا علاقہ 2014 میں اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جسے اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے زمین پر قبضے کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی طویل عرصے سے المخرور اور بطیر کے علاقے کی تاریخی قدیم سیڑھیوں والی ڈھلوانوں پر سبزیوں، پھلوں کے درختوں، زیتون اور بیلوں کے ساتھ کھیتی کرتے رہے ہیں، یہ علاقہ اپنے منفرد ثقافتی اور زرعی منظر نامے، آبپاشی کے نظام اور آثار قدیمہ کی باقیات کے لیے نمایاں ہے۔
المخرور میں غیر قانونی بستیوں اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور توسیع کے ساتھ، اسرائیل کا آبادکاری کا کاروبار علاقے کی حیاتیاتی تنوع اور ناقابل یقین صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔
الجزیرہ عربی کے ساتھیوں نے مقامی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے مشرق میں شمالی وادی اردن کے خربت الدیر میں فلسطینی آبادیوں میں پانی کے پمپ چوری کرلیے، اور فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
مسیحی فلسطینیوں کے لیے ایسٹر خاص معنی رکھتا ہے۔
گڈ فرائیڈے کے موقع پر ’الجزیرہ‘ نے بیت اللحم میں پرورش پانے والے ایک فلسطینی پادری سے بات کی، جس نے اپنے لوگوں پر اسرائیلی جبر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے عقیدے کے مرکز میں مصلوب کیے جانے کے درمیان مماثلت پر روشنی ڈالی۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم ’حماس‘ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیل کی عبوری جنگ بندی کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس، غزہ میں تنازع کے خاتمے اور اسرائیل میں قید فلسطینیوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں گروپ کے غزہ کے سربراہ خلیل الحیا، جو اس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ گروپ اب عبوری معاہدوں پر راضی نہیں ہوگا۔
خلیل الحیا نے کہا کہ حماس غزہ تنازع کے خاتمے، اسرائیل کی جانب سے جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی اور غزہ کی تعمیر نو کے بدلے اپنی تحویل میں موجود باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری طور پر ’جامع پیکیج مذاکرات‘ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔
خلیل الحیا نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’نیتن یاہو اور ان کی حکومت جزوی معاہدوں کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی آڑ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس کی بنیاد تباہی اور بھوک کی جنگ کو جاری رکھنے پر ہے، بھلے ہی اس کی قیمت ان کے تمام قیدیوں (یرغمالیوں) کی قربانی کیوں نہ ہو، ہم اس پالیسی کو پاس کرنے کا حصہ نہیں بنیں گے‘۔
دوسری جانب غزہ کے شہری دفاع کے ادارے نے کہا ہے کہ جنوبی شہر خان یونس کے قریب رات بھر اسرائیلی حملے میں 10 افراد شہید ہوگئے۔
ترجمان محمود باسل نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ ’ہمارے عملے نے خان یونس کے مشرق میں بنی سہیلہ کے علاقے میں اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے نشانہ بنائے گئے برکا خاندان کی رہائشگاہ اور قریبی گھروں سے 10 شہیدوں کی لاشیں اور بڑی تعداد میں زخمیوں کو برآمد کیا ہے‘۔
دریں اثنا، ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی حملوں میں 40 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔
یمن میں بندرگاہ پر امریکی حملوں میں کم ازکم 74 افراد شہید ہوگئے، امریکا نے خبردار کیا ہے کہ حوثیوں نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے بند نہ کیے تو وہ حوثیوں کے خلاف حملے جاری رکھے گا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق حوثیوں کے زیر انتظام ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو یمن میں آئل پورٹ پر امریکی حملوں میں کم از کم 38 افراد شہید ہو گئے، جو امریکا کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں پر اب تک کے مہلک ترین حملوں میں سے ایک ہیں۔
دریں اثنا، حوثی وزارت صحت کے ترجمان انیس الاسباہی نے بتایا کہ امدادی کارکن اب بھی بحیرہ احمر کے ایندھن کے ٹرمینل پر متاثرین کی تلاش کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شہدا کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر حتمی تعداد کے مطابق شہادتوں کی تعداد بڑھ کر 74 ہوگئی جبکہ 171 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
امریکا نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حوثیوں نے بحیرہ احمر کے جہازوں پر حملے بند نہیں کیے تو وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے بڑے فوجی آپریشن میں بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کو نہیں روکے گا۔
’المسیرہ ٹی وی‘ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو ایندھن کی مغربی بندرگاہ راس عیسیٰ پر ہونے والے حملوں میں 102 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جس کے بارے میں امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد حوثی عسکریت پسند گروپ کے لیے ایندھن کا ایک ذریعہ ختم کرنا ہے۔
رائٹرز کی جانب سے حوثیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اور ان کے اپنے تخمینے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ ان کے پاس حملوں کے ابتدائی اعلان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اس نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ’ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی طاقت کے معاشی منبع کو کم کرنا تھا، جو اپنے ہم وطنوں کا استحصال کر رہے ہیں اور انہیں شدید تکلیف پہنچا رہے ہیں‘۔
نومبر 2023 سے اب تک حوثی باغیوں نے آبی گزرگاہ سے گزرنے والے بحری جہازوں پر درجنوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران جہاز رانی کے راستوں پر حملے روک دیے تھے، اگرچہ انہوں نے گزشتہ ماہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کی تجدید کے بعد دوبارہ حملے شروع کرنے کا عہد کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے انہوں نے کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حوثی حکام کا کہنا ہے کہ مارچ میں دو روز تک جاری رہنے والے امریکی حملوں میں 50 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران دونوں بازو کھو دینے والے 9 سالہ فلسطینی لڑکے کی دلخراش تصویر نے 2025 کا ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر ایوارڈ جیت لیا۔
عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز کے لیے فوٹوگرافر سمر ابوالعوف کی کھینچی گئی یہ تصویر کم سن محمود عجور کی ہے، جسے گزشتہ سال ایک دھماکے میں ایک بازو کٹ جانے اور دوسرا مسخ ہو جانے کے بعد دوحہ منتقل کیا گیا تھا۔
سمر ابو العوف نے اس بارے میں کہا کہ محمود کی والدہ نے مجھے جو سب سے مشکل بات بتائی وہ یہ تھی کہ جب محمود کو پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے بازو کاٹ دیے گئے ہیں، تو اس نے سب سے پہلا جملہ جو اس سے کہا وہ یہ تھا کہ، ’میں آپ کو کیسے گلے لگا پاؤں گا؟‘
سمر ابو العوف کا تعلق بھی غزہ سے ہے اور انہیں خود دسمبر 2023 میں وہاں سے نکالا گیا تھا، اب وہ دوحہ میں مقیم شدید زخمی فلسطینیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں۔
ورلڈ پریس فوٹو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جومانہ الزین خوری نے کا کہنا تھا،’یہ ایک خاموش تصویر ہے جو بہت کچھ کہتی ہے، یہ ایک لڑکے کی کہانی بیان کرتی ہے، لیکن ایک وسیع جنگ کی بھی داستان سناتی ہے جس کے اثرات نسلوں تک باقی رہیں گے۔‘
جیوری نے تصویر کی ’ مضبوط ساخت اور روشنی کے بہترین استعمال ’ اور اس کے فکر انگیز موضوع، خاص طور پر محمود عجور کے مستقبل کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کی تعریف کی۔
جیوری نے بتایا کہ لڑکا اب اپنے پیروں سے فون پر گیمز کھیلنا، لکھنا اور دروازے کھولنا سیکھ رہا ہے۔
ورلڈ پریس فوٹو کے منتظمین نے ایک بیان میں کہا،’ محمود کا خواب سادہ ہے: وہ مصنوعی اعضاء لگوانا چاہتا ہے اور اپنی زندگی دوسرے بچوں کی طرح گزارنا چاہتا ہے۔’ جیوری نے دوسرے نمبر کے انعام کے لیے دو تصاویر کا بھی انتخاب کیا۔
پہلی تصویر، جس کا عنوان ’ایمازون میں خشک سالی‘ ہے، جسے پانوس پکچرز اور برتھا فاؤنڈیشن کے لیے مسوک نولٹے نے کھینچا ہے، ایمازون میں ایک خشک دریا کے کنارے پر ایک شخص کو دکھاتی ہے جو ایک ایسے گاؤں تک سامان لے جا رہا ہے جہاں کبھی کشتی کے ذریعے رسائی ممکن تھی۔
دوسری تصویر، ’نائٹ کراسنگ‘ ہے جسے گیٹی امیجز کے لیے جان مور نے کھینچا ہے، جس میں امریکا-میکسیکو سرحد عبور کرنے کے بعد سرد بارش کے دوران چینی مہاجرین کو آگ کے پاس اکٹھے ہوتے دکھایا گیا ہے۔
جیوری نے دنیا بھر کے 3778 فوٹو جرنلسٹوں کی 59320 تصاویر میں سے 42 انعام یافتہ تصاویر کا انتخاب کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے فوٹوگرافروں کو علاقائی انعام کے لیے چار بار منتخب کیا گیا، یہ تعداد کسی بھی دوسری تنظیم سے زیادہ ہے۔
نیروبی میں مقیم لوئس ٹاٹو نے افریقا کے خطے کے لیے اسٹوریز کے زمرے میں کینیا کی نوجوانوں کی بغاوت کی تصاویر کے انتخاب پر انعام حاصل کیا۔
جیروم برولیٹ نے ایشیا پیسیفک اور اوشیانا کے سنگلز کے زمرے میں سرفر گیبریل مدینہ کی بظاہر لہروں کے اوپر تیرتی ہوئی اپنی مشہور تصویر کے لیے انعام جیتا۔
کلیرنس سیفروئے نے شمالی اور وسطی امریکا کی اسٹوریز کے زمرے میں ہیٹی میں گینگ کے بحران کی اپنی کوریج پر انعام پایا۔
آخر میں، اینسلمو کنہا نے جنوبی امریکا کے سنگلز کے زمرے میں برازیل کے سالگادو فیلو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پھنسے ہوئے بوئنگ 727-200 کی اپنی تصویر پر انعام حاصل کیا۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں میں مزید 27 فلسطینی شہید ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ آج صبح سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 21 افراد غزہ شہر میں شہید ہوئے ہیں۔
وفا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج نے اسرائیلی آباد کاروں کی قدیم ذخائر تک رسائی کو محفوظ بنانے کے لیے الخلیل کے جنوب میں واقع قصبے یطا پر دھاوا بول دیا ہے۔
ایک میڈیا کارکن کے حوالے سے وفا نیوز ایجنسی نے بتایا کہ اسرائیلی افواج نے آثار قدیمہ کے مقام کا محاصرہ کر لیا، اس کی طرف جانے والی سڑکیں بند کر دیں، اور درجنوں آباد کاروں کے مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے داخلے کو محفوظ بنانے کے لیے کئی گھروں کی چھتوں پر اسنائپرز تعینات کر دیے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے شرو ع ہونے والی لڑائی میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے گزشتہ ماہ 18 مارچ کو فلسطینی علاقے میں اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے غزہ کے 30 فیصد حصے کو ’سیکیورٹی‘ بفر زون میں تبدیل کردیا ہے اور تقریباً ایک ہزار 200 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کی پٹی کے تقریباً 30 فیصد علاقے کو اب آپریشنل سیکیورٹی پیرامیٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، اسرائیلی فضائی حملوں نے عسکریت پسندوں کے تقریباً ایک ہزار 200 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور 18 مارچ سے اب تک 100 سے زیادہ افراد کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے کسی بھی تصفیے کے بعد بھی اسرائیلی فوجی اپنے بنائے گئے بفر زون میں رہیں گے۔
گزشتہ ماہ فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اسرائیلی افواج نے غزہ کی گہرائی تک پھیلے ہوئے ایک وسیع سیکورٹی زون کی تشکیل کی ہے، اور 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو جنوب اور ساحلی علاقوں میں چھوٹے علاقوں میں دھکیل دیا ہے۔
اسرائیل کاٹز نے فوجی کمانڈروں کے ساتھ اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ماضی کے برعکس، آئی ڈی ایف ان علاقوں کو خالی نہیں کر رہا، جنہیں صاف کرکے قبضے میں لیا گیا ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز غزہ میں کسی بھی عارضی یا مستقل صورتحال میں دشمن اور برادریوں کے درمیان بفر کے طور پر سیکورٹی زون میں رہیں گی، جیسا کہ لبنان اور شام میں ہے۔
گزشتہ ماہ کے دوران اپنی کارروائیوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا کہ اب اس کا فلسطین کے 30 فیصد حصے پر کنٹرول ہے۔
صرف جنوبی غزہ میں ہی اسرائیلی افواج نے سرحدی شہر رفح پر قبضہ کر لیا، اور غزہ کے مشرقی کنارے سے بحیرہ روم تک رفح اور خان یونس شہر کے درمیان واقع نام نہاد ’موراگ کوریڈور‘ کی طرف دھکیل دیا ہے۔
اسرائیل نے پہلے ہی وسطی نیٹرازیم کے علاقے میں وسیع راہداری قائم کر رکھی ہے اور سرحد کے ارد گرد سیکڑوں میٹر اندرون ملک بفر زون بڑھا دیا ہے، جس میں شمال میں غزہ شہر کے مشرق میں شجاعیہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔
طبی ادارے ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ غزہ فلسطینیوں اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے ایک ’اجتماعی قبر‘ بن چکا ہے, جب کہ طبی عملے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے انکلیو کے شمال میں کم از کم 13 افراد کو شہید کر دیا، اور جنوب میں رفح میں گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
فلسطینی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک فضائی حملے میں 10 افراد شہید ہوئے، جن میں معروف مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونا بھی شامل ہیں، جن کے کام نے جنگ کے دوران غزہ شہر میں اپنی برادری کو درپیش جدوجہد کو ریکارڈ کیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ شمال میں ایک اور گھر پر حملے میں 3 افراد شہید ہوئے۔
دریں اثنا، اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی آمد کو روکتا رہے گا۔
اسرائیل نے پہلے ہی 2 مارچ کو غزہ میں امداد کے داخلے کو روک دیا تھا، جس سے جنگ زدہ علاقے میں شدید انسانی بحران میں اضافہ ہوا تھا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ اسرائیل 24 لاکھ افراد کے محصور علاقے میں امداد کو داخل ہونے سے روکنا جاری رکھے گا۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے ’کان‘ نے نامعلوم دفاعی اداروں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ غزہ کے پاس صرف ایک ماہ کے لیے خوراک کا ذخیرہ باقی بچا ہے۔
اسرائیلی اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر اس بارے میں بات چیت جاری ہے کہ حماس تک پہنچے بغیر انسانی امداد کیسے پہنچائی جائے۔
کان کے مطابق ایک تجویز جس کا مبینہ طور پر جائزہ لیا جا رہا ہے، وہ بین الاقوامی تنظیموں کے انتظام اور اسرائیلی فوج کے حفاظتی حصار کے اندر قائم کردہ ’اسٹیشنری امدادی مراکز‘ ہیں۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا ہے کہ غزہ کے شہریوں کی مشکلات کا خاتمہ ہونا چاہیے اور صرف غزہ میں جنگ بندی ہی باقی اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی شہری آبادی کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے محصور فلسطینی علاقے میں ’تمام انسانی امداد کے راستے کھولنے‘ کا بھی مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ کا انسانی بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، اور کئی ہفتوں سے کوئی امداد اس علاقے میں داخل نہیں ہوئی ہے۔
فلسطینی تنظیم ’حماس‘ نے پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں قید باقی ماندہ قیدیوں میں سے نصف کو رہا کرنے کی صورت میں 45 دن کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے جنگجوؤں کو غیر مسلح کر دیا جائے۔
ایمانوئل میکرون نے کہا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ ’تمام یرغمالیوں کی رہائی‘ اور ’حماس کا خاتمہ‘ اب بھی فرانس کی اولین ترجیح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، انسانی امداد اور بالآخر سیاسی دو ریاستی حل کے امکانات کو دوبارہ کھولنے کی امید کرتے ہیں۔
فرانسیسی صدرن ے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو اس وقت ناراض کیا تھا جب انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پیرس، جون میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ غیر ملکی ریاستوں کی جانب سے اس طرح کے اقدامات قبل از وقت ہیں۔
تاہم ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے نہ صرف دیگر ممالک بلکہ ان ممالک کو بھی اس کی ترغیب ملے گی جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔
نیتن یاہو نے میکرون سے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام دہشت گردی کے لیے ’بہت بڑا انعام‘ ہوگا۔
نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اور اسرائیلی وزیر اعظم نے فرانسیسی صدر سے فلسطینی ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کے لیے بہت بڑا انعام ہوگا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے فرانسیسی صدر کو بتایا کہ اسرائیلی شہروں سے چند منٹ کے فاصلے پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست ایرانی دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گی، اور اسرائیلی عوام کی بڑی اکثریت اس کی سختی سے مخالفت کرتی ہے، یہ ان کی مستقل اور دیرینہ پالیسی رہی ہے۔
اس فون کال سے ایک روز قبل ایمانوئل میکرون نے رملہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بتایا تھا کہ اگر غزہ میں اصلاحات کی جائیں تو وہ جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے پی اے کے منصوبے کی حمایت کریں گے۔
ایکس پر ایک پوسٹ کے مطابق ایمانوئل میکرون نے محمود عباس سے ایک فون کال میں کہا تھا کہ اگلے دن کے لیے ایک فریم ورک طے کرنا ضروری ہے، حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کا ساتھ دینا، قابل اعتماد حکمرانی کی وضاحت کرنا اور فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کرنا۔
فرانسیسی صدر نے لکھا کہ اس سے دو ریاستی سیاسی حل کی طرف پیش رفت کی اجازت ملنی چاہیے، جس کا مقصد جون میں امن کانفرنس کو دیکھنا ہے جو سب کے لیے امن اور سلامتی ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے منگل کے روز غزہ کا منفرد دورہ کیا، جب فوج فلسطینی علاقے کے خلاف اپنی فضائی اور زمینی کارروائیاں بڑھا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کی شمالی پٹی کا دورہ کیا۔
فوج نے 18 مارچ کو غزہ پر اپنی کارروائی دوبارہ شروع کی جس سے حماس کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہوگئی تھی، جنگ بندی نے لڑائی کو بڑی حد تک روک دیا تھا۔
اس کے بعد سے اسرائیلی افواج نے علاقے کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور لاکھوں افراد ان علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، جہاں فوج نے اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
نیتن یاہو سمیت سینئر اسرائیلی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ صرف فوجی دباؤ حماس کو غزہ میں قید بقیہ قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور کرے گا۔
امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے ورمونٹ میں امریکی شہریت کے حصول کے لیے انٹرویو دینے کے لیے آنے والے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی طالب علم کو حراست میں لے لیا۔
ترک خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق محسن کے مہداوی کو ورمونٹ کے شہر کولچیسٹر میں یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) کے دفتر سے حراست میں لیا گیا۔
محسن کے مہداوی فلسطینی طلبہ کے ایک گروپ کے شریک بانی ہیں، اس گروپ کی تشکیل میں فلسطینی طالب علم محمود خلیل کا بھی اہم کردار تھا۔
وکیل لونا دروبی نے حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ محسن مہداوی اس امید میں امریکا آئے تھے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں بات کرنے کے لیے آزاد ہوں گے، اور صرف اس طرح کی تقریر کے لیے انہیں سزا دی جائے گی۔
ان کے وکلا نے ہیبیاس کارپس پٹیشن دائر کی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ امریکی حکومت ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے انہیں نشانہ بنا کر ان کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہیں سرد جنگ کے دور کے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے تحت ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جو تارکین وطن کو امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ تصور کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے فلسطینی کارکن محمود خلیل سمیت دیگر حالیہ مقدمات میں اس کا استعمال کیا ہے۔
محسن مہداوی نے اپنے اہل خانہ کی موت اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کے گھروں کی تباہی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بدری ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے گی، انٹرسیپٹ نے مہداوی کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ ایک طرح کی سزائے موت ہے‘۔
یہودی اور فلسطینی طلبہ کے درمیان پرامن مکالمے کی وکالت کرنے والے مہداوی نے 2024 میں اپنی سرگرمی میں کمی کی تھی۔
اس کے باوجود، وہ اسرائیل نواز گروہوں جیسے کینری مشن اور بیتر کی طرف سے سخت جانچ پڑتال کا نشانہ بن گئے، جنہوں نے ان پر اور دیگر پر سام دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے عوامی دستاویزات مرتب کی ہیں۔
ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز نے مہداوی کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت مناسب کارروائی کی جانی چاہیے اور محسن مہداوی کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے انہیں حراست میں لیا ہے، انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے یا ان کے ساتھ کیا ہوگا، یہ غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔
وہ اب کولمبیا یونیورسٹی کے نویں طالب علم ہیں، جنہیں فلسطینی یکجہتی کی تحریکوں میں شامل بین الاقوامی طلبہ کو ہٹانے کی ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر ملک بدری کا سامنا ہے۔
یہ کوشش ایسے وقت میں کی گئی ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعدد انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں، جن کا مقصد امریکا کے خلاف ’معاندانہ رویہ‘ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنا ہے، جن میں یہود دشمنی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔
اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حق میں کیمپس میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے والے غیر ملکی طالب علموں کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
ایک امریکی امیگریشن جج نے جمعے کے روز فیصلہ سنایا تھا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی حامی کارکن اور قانونی طور پر مستقل رہائشی محمود خلیل، جنہیں آئی سی ای حکام نے 8 مارچ کو نیویارک شہر میں ان کے کیمپس ہاؤسنگ سے گرفتار کیا تھا، کو خارجہ پالیسی کے خدشات پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین نے فلسطینیوں کے لیے ایک ارب 60 کروڑ یورو (ایک ارب 80 کروڑ ڈالر) مالیت کے نئے 3 سالہ مالی امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی’ کے مطابق یہ تازہ امداد کا اعلان فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے درمیان لکسمبرگ میں ہونے والی ملاقات سے قبل کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کلاس نے کہا کہ ہم فلسطینی عوام کی حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں، 2027 تک ایک ارب 60 کروڑ یورو کی مالی امداد سے مغربی کنارے اور غزہ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
یورپی یونین، فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو مضبوط بنانے پر غور کر رہی ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کی پی اے کی صلاحیت کو تقویت ملے گی اور حالات کی اجازت ملنے کے بعد اسے غزہ پر حکومت کرنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔
برسلز، جو فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑا بین الاقوامی عطیہ کنندہ ہے، نے کہا ہے کہ اس پیکیج میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے 62 کروڑ یورو کی گرانٹ شامل ہوگی۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز مالیاتی استحکام، جمہوری حکمرانی، نجی شعبے کی ترقی اور عوامی بنیادی ڈھانچے اور خدمات سے متعلق اصلاحات سے منسلک ہوں گے۔
بقیہ رقم غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں معاشی بحالی میں مدد دینے کے منصوبوں کے لیے 57 کروڑ 60 لاکھ یورو کی گرانٹ پر مشتمل ہوگی۔
مزید 40 کروڑ یورو کے قرضے بلاک کے قرض دینے والے بازو، یورپی انویسٹمنٹ بینک سے آئیں گے۔
یورپی یونین کا نیا پیکیج 2021 سے 2024 تک ایک ارب 36 کروڑ یورو کے پچھلے 3 سالہ سپورٹ پلان کی پیروی کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار پر تاریخی ہارورڈ یونیورسٹی کی 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ روک دی۔
ڈان نیوز کے مطابق امریکی صدارتی محل کی جانب سے ہارورڈ یونیورسٹی کو خط بھیجا گیا ہے جس میں یہود مخالف اقدامات کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں تعلیمی پروگراموں کے آڈٹ کا مطالبہ بھی شامل ہے، جو انتظامیہ کے خیال میں یہود مخالف رویوں کو فروغ دے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے ہارورڈ یونیورسٹی کو طلبہ کے داخلے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
خط میں بتایا گیا کہ بیرونِ ملک سے آئے طلبہ کی خلاف ورزیوں کو وفاقی حکام کو رپورٹ کیا جائے تاکہ یہود مخالف سرگرمیوں کو روکا جاسکے۔
تاہم یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات مسترد کردیے جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے یونیورسٹی کی فنڈنگ روک دی۔
امریکا میں 20 جنوری 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حلف کے بعد سے بڑے پیمانے پر ایسے اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں یہود مخالف افراد کو ویزوں کے اجرا کو روکنے، غیر ملکی طلبہ سمیت ملازمین کے لیے پابندیاں سخت کرنے، امریکی شہریوں کے علاوہ ہر طرح کے غیر ملکیوں کو امریکا میں موجودگی کے لیے قانونی دستاویزات ہر وقت پاس رکھنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غیرمسلح ہونے کی شرط پر غزہ میں جنگ بندی کی مصر کی تجویز مسترد کردی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے مصر کی تجویز رد کردی ہے جس میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کے غیرمسلح ہونے کی شرط عائد کی گئی تھی۔
الجزیرہ عربی کو ایک نامعلوم سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حماس کو مصر کی طرف سے ایک نئی جنگ بندی کی تجویز موصول ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکتا جب تک کہ حماس غیرمسلح نہ ہو جائے۔
حماس کے سینئر عہدیدار نے مزید کہا کہ مصر کی تجویز میں غزہ میں خوراک اور پناہ کے لیے سامان کی ترسیل کے بدلے 45 دن کی جنگ بندی شامل ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ ہمارا مذاکراتی وفد اس بات پر حیران تھا کہ مصر کی طرف سے پیش کردہ تجویز میں مزاحمت کاروں کے غیر مسلح ہونے کے بارے میں ایک واضح متن شامل تھا، انہوں نے کہا کہ مصر نے ہمیں مطلع کیا کہ مزاحمت کاروں کے غیر مسلح ہونے پر مذاکرات کیے بغیر جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
عہدیدار کے مطابق حماس اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ کسی بھی معاہدے کا محور غزہ سے اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ اور فلسطینی علاقے سے اس کا انخلا ہونا چاہیے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ حماس کے ہتھیار بحث کا موضوع نہیں ہیں، اسرائیل نے بارہا اصرار کیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کیے اور اسے شکست دیے بغیر جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔
راولپنڈی پولیس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین کے آؤٹ لٹ پر حملے میں ملوث شرپسندوں کی کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کے ذریعے شناخت کرلی گئی ہے۔
بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین کینٹکی فرائیڈ چکن (کے ایف سی) کی صدر کے علاقے میں واقع آؤٹ لٹ پر اتوار کی شب مسلح افراد نے ہلہ بول دیا تھا، یہ واقعہ ملک بھر میں کے ایف سی کے آؤٹ لٹس پر ہونے والے حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں کے سلسلے کا ایک اور واقعہ تھا۔
اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے ایف سی صدر برانچ کے منیجر نے کینٹ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 148 (مہلک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر فساد کرنا)، 149 (غیر قانونی اجتماع کا ہر رکن مشترکہ مقصد کے حصول میں کیے گئے جرم کا مجرم ہوگا) اور 506(ii) (مجرمانہ دھمکی، اگر دھمکی موت یا سخت چوٹ پہنچانے کی ہو وغیرہ) کے تحت درج کرائی ہے۔
مدعی نے بتایا کہ وہ اتوار کی رات ساڑھے آٹھ بجے برانچ میں بطور منیجر کام کر رہا تھا جب اس نے شور سنا اور دفتر سے باہر نکلنے پر 10، 12 افراد کو لاٹھیوں اور سریوں سے مسلح دیکھا، جو ریستوران میں موجود دیگر گاہکوں اور خاندانوں کو گالیاں دے رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔
ایف آئی آر میں درج ہے کہ ’ جب ہم نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تو انہوں نے ہمیں گالیاں دیں اور ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے، میں ان کے خلاف درخواست دائر کر رہا ہوں جس کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔’
راولپنڈی پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ افراد کی شناخت کر لی گئی ہے اور انہیں جلد گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بیان میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی فوڈ چینز کی برانچوں پر پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
بیان میں خبردار کیا گیا کہ ’ قانون شکنی، فساد اور شہریوں کے ساتھ بدتمیزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، پیغام واضح ہے کہ جو لوگ قانون کی خلاف ورزی کریں گے اور فساد برپا کریں گے ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
پولیس ترجمان انسپکٹر ملک سجاد الحسن نے ڈان نیوز کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے ان کا ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے، پاکستان نے ہمیشہ مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے آواز اٹھائی ہے اور پاکستان اور اس کے عوام آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین پر جنگ مسلط کرکے جدید تاریخ میں ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اب تک بچوں اور خواتین سمیت 65 ہزار فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں، اور 15 ہزار کے قریب وہ لوگ ہیں جن کی بدترین اسرائیلی بمباری کی وجہ سے باقیات تک نہیں ملیں۔
وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے، اور بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کو بلاتخصیص نشانہ بنایا جارہا ہے، اس ظلم و ستم میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، جس میں بے گناہ مسلمان شہید ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل امدادی سرگرمیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بن گیا ہے اور اسرائیلی حملوں سے اسپتال، ایمبولینسیں، امدادی اداروں کے رضاکار ، پناہ گاہیں تک محفوظ نہیں، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف اور فلسطین میں ظلم و ستم پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان روزاول سے مسئلہ فلسطین پر اپنا ایک نقطہ نظر رکھتی ہے، اور ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں آج بھی جہاں جہاں لوگ اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی آواز آپ ڈائیلاگ سے تو روک سکتے ہیں، لیکن بارود سے ان کی آواز کو نہیں دبایا جاسکتا چاہے وہ فلسطین ہو یا کشمیر ہو۔
انہوں نے کہا کہ ان خطوں کے عوام کے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تقدیر کا فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا ہے، نہ صرف اس جنگ کے دوران بلکہ اس سے قبل بھی، اور ماضی قریب میں بھی وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس مسئلے پر دو ٹوک خیالات کا اظہار کیا اور اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام کی بھرپور مذمت کی ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت پاکستان اور عوام سمجھتے ہیں کہ اس ظلم کو فی الفور رکنا چاہیے اور فلسطین کے مظلوم عوام کو نہ صرف اس مشکل گھڑی میں اقوام عالم کی بھرپور مدد کی ضروررت ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے بھی سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہے تاکہ ظلم کی یہ داستان دوبارہ نہ دہرائی جاسکے۔
قبل ازیں وفاقی وزیرقانون نے وقفہ سوالات معطل کرکے فلسطین کے مسئلے پر بحث کی تحریک پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔
وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر ہم سب متحد ہیں، اس معاملے پر ہمیں سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان حالات میں پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے عملی اقدامات یقینی بنانا ہوں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ کی منفرد حیثیت ہے، پاکستان کا پاسپورٹ دنیا میں واحد پاسپورٹ ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ دنیا بھر میں کارآمد ہے لیکن اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں، ہمیں اپنے سبز پاسپورٹ پر فخر ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم اسرائیل کو نہ مانتے ہیں اور نہ تسلیم کرتے ہیں، دفتر خارجہ نے نسل کشی کے حوالے سے پاکستان کا پالیسی بیان بھی دیا، پاکستان نے ہر عالمی فورم پر غزہ، فلسطین میں اسرائیل کے مظالم پر آواز بلند کی، پاکستان کا موقف ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور تمام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1967ء سے قبل کی سرحدوں پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہمارا مطالبہ ہے، پاکستان نے فلسطین کے میڈیکل کے طلبا کو پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مدد فراہم کی، پاکستان نے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ، 200 فلسطینی طلباء پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن اور جماعت اسلامی نے کئی سو ٹن امدادی سامان فلسطین بھجوایا، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، فلسطین میں امدادی سامان بھجوانے میں این ڈی ایم اے نے بھی کردار ادا کیا، اردن، مصر میں پاکستانی سفیروں نے امدادی سامان فلسطین پہنچانے کیلئے ذرائع پیدا کیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ہزاروں ٹن امدادی سامان فلسطینی بہن بھائیوں تک پہنچایا، اورفلسطین میں امدادی سامان کی تقسیم کو یقینی بنایا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جنوبی افریقا کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا کیس عالمی عدالت میں لے جانے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وفاقی وزیر قانونو انصاف اعظم نذیر تارڑ نے قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، قرارداد پر حکومت اور حزب اختلاف کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے دستخط موجود تھے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان فلسطین میں مجرمانہ اسرائیلی جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے،18 مارچ سے دوبارہ شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں مزید 1600 سے زائد مزید فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ مکمل طور پر اظہار یکجہتی اور عالمی برادری کی جانب سے اسرائیلی جارحیت روکنے میں ناکامی پر اظہار تشویش کرتا ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایوان غزہ سے اسرائیلی مقبوضہ فورسز کی فی الفور واپسی اور عالمی برادری سے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔