Get the latest news and updates from DawnNews
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اسرائیل کو غزہ پٹی میں آبی تنصیبات اور شہریوں کو پانی کی فراہمی منقطع کرنے پر نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر مخصوص پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق تنظیم نے ایک تازہ رپورٹ میں اسرائیلی حکام کی طرف سے جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کو پینے کے پانی سے محروم رکھنے کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اقدامات ہزاروں اموات کا سبب ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا خطرہ جاری رہے گا۔
دوسری جانب اسرائیل نے ہیومن رائٹس واچ کی غزہ میں نسل کشی اور شہریوں کے لیے پانی کی رسائی کو محدود کرنے کی رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا۔
تنظیم کی رپورٹ میں اسرائیل کے پانی اور نکاسی آب کے نظام کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کے حوالے سے تفصیل فراہم کی گئی ہے، اس کے علاوہ ٹریٹمنٹ پلانٹس کو بجلی فراہم کرنے والے سولر پینلز کو نقصان پہنچانے اور جنریٹرز کے لیے ایندھن کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی معلومات بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل نے بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ مرمت کرنے والے ورکرز پر حملے بھی کیے۔
رپورٹ کے مطابق ’اسرائیلی حکام نے غزہ میں فلسطینی شہریوں کے لیے جان بوجھ کر ایسے حالات مسلط کیے جو ’ان کی زندگی کے لیے ناقابل برداشت ہوں۔‘
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ’قتل عام‘ اور ’نسل کشی‘ کے یہ اقدامات جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔’
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے سینئر کاؤنسل ایشیا ڈویژن، سروپ اعجاز نے کہا، ’یہ قتل عام، انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کا عمل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے صرف غزہ کے فلسطینیوں کے لیے پانی بند نہیں کیا بلکہ پانی کے نظام کو تباہ کیا، پانی فراہم کرنے والے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔
سروپ اعجاز کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی منظم طرز عمل ’جسمانی تباہی کی منصوبہ بندی‘ کا حصہ ہے، اور یہی اسے نسل کشی کا عمل بناتا ہے۔‘
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے کم از کم 45 ہزار 97 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے جہاں تازہ ترین حملوں میں مزید 30 سے زائد فلسطینی شہید جب کہ 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق محصور اور بمباری کے شکار علاقے کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 38 افراد شہید اور 203 زخمی ہو چکے ہیں۔
شمالی غزہ میں واقع کمال عدوان ہسپتال ایک بار پھر حملے کی زد میں آ گیا جب کہ وسطی اور جنوبی غزہ میں جن خیموں کو سیف زون سمجھا جاتا تھا،وہ آگ کی زد میں آ گئے جس سے متعدد افراد شہید ہوئے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نئی شرائط رکھنا بند کردے تو جنگ بندی کا معاہدہ ممکن ہے، جب کہ اسرائیلی وزیر دفاع نے اصرار کیا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد ان کا ملک غزہ میں سیکیورٹی کو مکمل آزادی کے ساتھ کنٹرول کرے گا۔
غزہ کی وزرات صحت کے مطابق گزشتہ برس سے جاری غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں شہادتوں کی تعداد 45 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یوکرین جنگ، نیوجرسی میں پرواز کرنے والی پراسرار ڈرونز، ٹک ٹاک کے مستقبل اور اس میڈیا کے خلاف مقدمات کا تذکرہ کیا جس سے وہ اکثر نفرت کرنا پسند کرتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹر‘ کی رپورٹ کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنے مار لاگو ریزورٹ کے ایک کمرے میں معاشی اعلان کیا اور ایک گھنٹے سے زائد وقت تک سوالات کے جوابات دیے۔
وہ اخباری نمائندوں سے مذاق کرتے رہے جو انتخابی مہم کے دوران اکثر دیکھے جانے والے سخت بیانات اور غصے سے ہٹ کر تھا، انہوں نے یوکرین اور اسرائیل کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے لیکن یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات کی ہے یا وہ ایران پر فوجی حملوں کی حمایت کریں گے۔
وہ واشنگٹن کے طریقوں کے بارے میں زیادہ دانشمند اور خوش نظر آئے اور اس میں اپنی نئی جگہ کے بارے میں تھوڑا سا حیران تھے، مبارکباد دینے کے خواہشمند عالمی رہنماؤں اور ملاقات کے خواہشمند کاروباری سربراہان کا تانتا بندھنے پر وہ حیرت زدہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلی مدت میں، ہر کوئی مجھ سے لڑ رہا تھا، اس مدت میں ہر کوئی میرا دوست بننا چاہتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میری شخصیت میں کوئی تبدیلی آئی ہے‘۔
5 نومبر کی کامیابی کے بعد سے ٹرمپ نے اپنی پہچان سمجھی جانے والی ریلیوں میں سے ایک بھی منعقد نہیں کی ہے اور نہ ہی صحافیوں سے طویل بات چیت کی ہے، اس کے بجائے سوشل میڈیا پوسٹس اور کبھی کبھار تقریر کے ذریعے بات چیت کی ہے۔
تاہم پیر کو ان کے پاس اعلان کرنے کے لیے اچھی معاشی خبر تھی۔ سافٹ بینک گروپ کے سی ای او ماسایوشی سن کی موجودگی میں ٹرمپ نے کہا کہ جاپانی ٹیکنالوجی کمپنی اگلے چار سالوں میں امریکا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، لیکن یہ مرکزی تقریب کے لیے صرف وارم اپ عمل تھا۔
ٹرمپ کوٹ آف آرمز کے سامنے کھڑے ہو کر نومنتخب صدر نے اپنی دوسری مدت کے لیے اپنی ترجیحات کا خاکہ پیش کیا، صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی کابینہ کی کچھ متنازع نامزدگیوں کا دفاع کیا، یہ طویل نشست بائیڈن کے برعکس تھی، جو شاذ و نادر ہی نیوز کانفرنسز کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے پیش گوئی کی کہ وزیر صحت کے لیے ان کا انتخاب رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر ’توقعات سے کہیں کم بنیاد پرست‘ ہوگا لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آیا ویکسین اور آٹزم کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں جبکہ انہوں نے کہا کہ وہ پولیو ویکسین کی حمایت کرتے ہیں۔ مطالعات میں ویکسین اور آٹزم کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وزیر دفاع کے عہدے کے لیے ان کے منتخب کردہ فاکس نیوز کے سابق میزبان پیٹر برین ہیگستھ کو پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں بدسلوکی کے الزامات کے باعث سینیٹ میں منتخب نہ کیا جانا المیہ ہوگا۔
انہوں نے نیویارک شہر کے میئر ایرک ایڈمز کو معاف کرنے کے امکان کے بارے میں بات کی اور کہا کہ ان کے خیال میں ایلون مسک کی زیر قیادت حکومتی کارکردگی کا منصوبہ سرکاری اخراجات میں 2 کھرب ڈالر کی کمی کا باعث بنے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس بات پر غور کرے گی کہ آیا چین کی ملکیتی سوشل میڈیا ایپ ’ٹک ٹاک‘ پر امریکا میں پابندی عائد کی جانی چاہیے یا نہیں، انہوں نے امریکی فوج کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ امریکی عوام کو ان ڈرونز کے بارے میں مزید بتائے جو گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرقی ساحل پر پرواز کرتے دیکھے گئے ہیں۔
ٹرمپ نے ذاتی شکایات کا بھی اظہار کیا اور متعدد میڈیا کمپنیوں کے خلاف مقدمات دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جو ان کے خیال میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی مرتکب ہوئی ہیں۔
ٹرمپ نے شکایات سے متعلق اپنے پسندیدہ موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اب آپ کو منصفانہ انتخابات کی ضرورت ہے، آپ کو سرحدوں کی ضرورت ہے اور آپ کو منصفانہ پریس کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا بہت بدعنوان ہے، یہ تقریباً اتنا ہی بدعنوان ہے جتنا ہمارے انتخابات۔ ٹرمپ نے اپنا زیادہ تر وقت خارجہ پالیسی اور معیشت کے بارے میں بات کرتے ہوئے گزارا۔
دنیا کے دو سب سے زیادہ سلگتے ہوئے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’حماس کو غزہ میں قید باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا یا نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
نومنتخب امریکی صدر نے کہا کہ اگر ان کے عہدہ سنبھالنے تک جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو ’یہ خوشگوار نہیں ہوگا‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ تقریباً 3 سال سے جاری یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’ایک معاہدہ کرنا ہوگا‘۔
بھارت میں کانگریس کی نو منتخب رکن اسمبلی پریانکا گاندھی فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اپنے پہلے اجلاس میں فلسطین لکھا بیگ لے کر پہنچ گئیں۔
بھارتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق پریانکا گاندھی ریاست کیرالہ سے حالیہ انتخابی کامیابی کے بعد اپنے پہلے پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچی تھیں اور انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں مظالم کے خلاف آواز بلند کر رکھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس سے قبل انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر بھی تنقید کی تھی اور غزہ میں اسرائیلی حکومت کے مظالم کو ’نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔
ان کے بیگ پر ایک تربوز بھی نمایاں تھا، جسے فلسطینیوں کی یکجہتی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا تھا۔
تاہم، آج انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں وہی پہنوں گی، جو میں پہنا چاہتی ہوں۔
بیگ اٹھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں متعدد بار بتا چکی ہوں کہ اس بارے میں میرے خیالات کیا ہیں، اگر آپ میرے ٹوئٹر ہینڈل کو دیکھیں تو میرے تمام بیانات وہاں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پریانکا گاندھی نے نئی دہلی میں فلسطینی سفارت خانے کے ناظم الامور ’چارج ڈی افیئر‘ عابد الرازگ ابو جزر سے بھی ملاقات کی تھی۔
26 جولائی 2024 کو انہوں نے کہا تھا کہ ہر کسی بشمول نفرت اور تشدد پر یقین نہ رکھنے والے اسرائیلی شہری اور دنیا بھر میں ہر حکومت کی کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ اسرائیلی حکومت کی مذمت کریں۔
غزہ میں اپنی شہید نواسی کو ’روح کی روح‘ کہنے کے انداز سے مشہور ہونے والے فلسطینی خالد نبحان بھی اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے خالد نبحان اپنی شہید نواسی کی آنکھوں کو چومنے اور اسے محبت بھرے الفاظ کہنے کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ خالد نبحان آج علی الصبح وسطی غزہ میں واقع پناہ گزین کے نصیرات کیمپ میں ہونے والی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشہ سال نومبر میں اسرائیلی فضائی حملوں میں ان کی نواسی ریم شہید ہوئی تھی۔
خالد نبحان کی وہ ویڈیو جس میں وہ اپنی شہید نواسی ریم کو گود میں لیے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا تھا، ویڈیو کو بین الاقوامی میڈیا نے بھی کوریج دی تھی۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق آج ہونے والے اسرائیلی حملے میں ایک بچے سمیت کم از کم 4 افراد شہید ہوئے۔
خالد نبحان کو اپنی نواسی کی شہادت کے بعد اکثر زخمی خاندانوں کی مدد کرتے اور ان کے لیے امداد فراہم کرتے دیکھا گیا۔
اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں نواسی کی شہادت کے بعد انہوں نے ایک سال ضرورت مندوں کی مدد کرنے، بھوکے بچوں اور بلی کے بچوں کو کھانا فراہم کرنے، اور اپنی والدہ کے ساتھ گزارے گئے ہر لمحے کو یادگار بنانے میں صرف کیا۔’
غزہ کی وزرات صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں شہادتوں کی تعداد 45 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسرائیل نے آئرلینڈ کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے خلاف پالیسیاں بنانے پر آئرلینڈ میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی پورٹس کے مطابق اسرائیل کی وزارت خارجہ نے آئرلینڈ کی حکومت کی انتہائی اسرائیل مخالف پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یورپی ملک میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا جب کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا ڈبلن میں اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرنے کا فیصلہ آئرش حکومت کی انتہائی اسرائیل مخالف پالیسیوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان آئرلینڈ کی طرف سے کیے گئے ان متعدد اقدامات کے بعد سامنے آیا ہے جن میں ایک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا اور عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل پر عائد کردہ غزہ میں نسل کشی کے الزامات کی حمایت کرنا شامل ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے صہیونی ریاست کے اقدام پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مخالف پالیسیوں کو جواز بنا کر اسرائیل کا آئرلینڈ میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں کہاکہ میں اس دعوے کو یکسر مسترد کرتا ہوں کہ آئرلینڈ اسرائیل مخالف ہے، آئرلینڈ امن و امان، انسانی حقوق اور عالمی قانون کا حامی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ اور الحاق شدہ گولان کی پہاڑیوں پر آباد شہریوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق اس منصوبے کی منظوری کے حوالے سے وزیراعظم کے دفتر نے بتایا۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ حکومت نے جنگ، شام میں نئے محاذ کھلنے اور آبادی کو دوگنا کرنے کی خواہش کی روشنی میں گولان کی آبادیاتی میں اضافے کے لیے 40 ملین شیکل (ایک کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالرز) کے منصوبے کی متفقہ طور پر منظوری دی۔
اسرائیل نے 1967 سے گولان کی پہاڑیوں بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، جو کہ ایک اسٹریٹجک پوزیشن ہے اور اس نے 1981 میں اس علاقے کو ضم کر لیا تھا جب کہ اس اقدام کی حمایت اور منظوری صرف امریکا کی جانب سے دی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ گولان کی مضبوطی اسرائیلی ریاست کی مضبوطی ہے اور یہ اس وقت خاص طور پر اہم ہے، ہم اسے بتاتے رہیں گے، اسے ترقی دیں گے اور وہاں آباد ہوں گے۔’
مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 23 ہزار دروز عرب آباد ہیں جو وہاں اسرائیل کے قبضے سے پہلے آباد ہیں، ان میں سے زیادہ تر شامی شہریت رکھتے ہیں، ان کے علاوہ تقریباً 30 ہزار اسرائیلی بھی ہیں۔
2روز قبل اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے گشت والے ’بفر زون‘ میں موسم سرما گزارنے کے لیے تیار رہے۔
گزشتہ اتوار کو اسرائیلی فوج نے شام کے صدر بشار الاسد کا اقتدار ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد اسٹریٹجک اہمیت کے غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
اسرائیل کے اس اقدام کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی، تاہم اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکا نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ اسرائیل کے دفاع کے حق کے ’عین مطابق‘ ہے۔
عالمی امن فوج (یو این ڈی او ایف) نے جمعہ کے روز ایک بیان میں اسرائیل کو مطلع کیا تھا کہ وہ 1974 کے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس میں شام اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے دوران بفر زون تشکیل دیا گیا تھا۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شامی فوجی تنصیبات پر سیکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں سے لے کر فضائی دفاع تک ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ انہیں باغیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جا سکے۔
اسرائیل کی جانب سے بفر زون میں فوج کی یہ تعیناتی ایسے وقت میں کی گئی تھی جب کہ اسرائیلی افواج، جنوبی لبنان سے انخلا کر رہی ہیں اور غزہ پر حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ہرمون پہاڑ کی چوٹی پر اپنی موجودگی برقرار رکھنا انتہائی اہم اور سکیورٹی اہمیت کا حامل ہے، مشکل موسمی حالات کے باوجود اپنے جنگجوؤں (اسرائیلی فوجیوں) کو وہاں رہنے کے قابل بنانے کی غرض سے تیاری یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے اپنے دفاع کے لیے بفر زون پر قبضہ کیا، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے اسرائیل کی سرحد پر ایک ’خلا‘ پیدا ہو گیا ہے، یہ تعیناتی اس وقت تک عارضی ہے جب تک کہ 1974 کے معاہدے پر کاربند ایک فورس قائم نہیں کی جاتی اور ہماری سرحد پر سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے کہا ہے کہ اسرائیلی افواج نے جنوبی لبنان کے ایک قصبے سے پہلا انخلا کرلیا، جنگ بندی معاہدے کے تحت ان کی جگہ لبنانی فوج نے لے لی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سینٹ کام نے ایک بیان میں کہا کہ کمانڈ کے سربراہ جنرل ایرک کریلا جنگ بندی معاہدے کے تحت لبنان کے علاقے الخیام میں اسرائیلی دفاعی افواج کے پہلے انخلا اور لبنانی مسلح افواج کی تبدیلی کے دوران عمل درآمد اور نگرانی کے ہیڈ کوارٹرز میں موجود تھے۔
اس حوالے سے جاری بیان کے مطابق ایرک کریلا نے کہا کہ یہ جنگ کے دیرپا خاتمے کے نفاذ میں اہم اور پہلا قدم ہے، جو مسلسل پیش رفت کی بنیاد کا حامل ہے۔
لبنان کے وزیر اعظم نجیب میکاتی نے کہا کہ الخیام اور مرجعون کے علاقوں میں لبنانی فوج کی تعیناتی جنگ بندی کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے جنوبی لبنان میں فوج کو مضبوط بنانے کی جانب بنیادی قدم ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہم ملک کے جنوبی حصے میں استحکام کے قیام کے لیے فوج کی کوششوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان کے قصبے الخیام سے انخلا کی تصدیق کی ہے، تاہم اسرائیلی فوج جنوبی لبنان کے دیگر علاقوں میں بدستور موجود ہے، تاکہ کسی بھی طرح کی دھمکیوں یا خطرہ محسوس ہونے پر جواب دیا جاسکے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لبنان کے شہری فی الحال الخیام قصبے سے دور رہیں، کیوں کہ وہاں دھماکا خیز مواد موجود ہے، جس کی اسکیننگ کی جارہی ہے، ایسا نہ ہو کوئی شہری قصبے میں جائے اور دھماکے سے جانی نقصان ہوجائے۔
آئی ڈی ایف نے کہا کہ 27 نومبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت جنوری کے آخر تک جنوبی لبنان سے اپنے تمام فوجی واپس بلالیں گے۔
واضح رہے کہ غزہ پر گزشتہ سال سے بمباری کرنے والے اسرائیل کی مسلح افواج نے حالیہ مہینوں میں اچانک لبنان کے جنوبی علاقوں کو اپنے حملوں کا ہدف بنانا شروع کیا تھا، اس دوران بیروت میں بھی کئی مقامات پر حملے کیے گئے۔
اسرائیل کا موقف تھا کہ وہ غزہ سے بھاگ کر لبنان آنے والے حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہا ہے، تاہم ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ لبنانی شہری بھی جاں بحق ہو رہے تھے۔
انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی شخصیات، ڈراموں، فلموں، سوالات اور جملوں کی فہرست جاری کردی۔
گوگل کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ہندو آبادی کے سب سے بڑے اور اسرائیل کے حامی ملک بھارت میں حیران کن طور پر ’سب کی نظریں رفح پر‘ جملے کو تلاش کیا گیا اور اس کی معنی جاننے کی کوشش کی گئی۔
حیران کن طور پر مذکورہ جملے کو پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور مصر سمیت دیگر مسلمان ممالک میں سرچ نہیں کیا گیا۔
علاوہ ازیں گوگل کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق پاکستان میں فلسطین سے متعلق کوئی بھی چیز تلاش نہیں کی گئی۔
گوگل نے پاکستان میں سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی شخصیات، ڈراموں، سوالات، گانوں اور کھیلوں کی فہرست جاری کی ہے، اس بار گوگل نے پاکستان میں سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی خبروں کی فہرست جاری نہیں کی۔
گوگل کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق بھارت میں سب سے زیادہ ’سب کی نظریں رفح پر‘ کے جملے کی معنی تلاش کی گئی۔
بھارت میں سب سے زیادہ تلاش کیے گیے جملوں کی فہرست درج ذیل ہے۔
1- سب کی نظریں رفح پر
2 - اکائے
3 - سروائیکل کینسر
4 - طوائف
5 - ڈیمور
6 - پوکی
7- بھگدڑ (Stampede)
8 - موئے موئے
9 - تقدیس (Consecration)
10 - جمعہ مبارک
یہاں یہ بات یاد رہے کہ فلسطین پر اسرائیلی حملے کے بعد فلسطینی افراد نے ’سب کی نظریں رفح پر‘ کے عنوان سے آرٹیفیشل انٹلی جنس (اے آئی) کی مدد سے ایک تصویر بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جو کہ خوب وائرل ہوئی تھی۔
(آل آئیز آن رفح) کے عنوان سے بنائی گئی تصور میں اسرائیلی بمباری سے بے گھر ہونے والے افراد کو کیمپوں میں دکھایا گیا تھا۔
مذکورہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی تھی مئی 2024 کے اختتام تک اسے صرف انسٹاگرام پر 5 کروڑ سے زائد بار شیئر کیا گیا تھا اور اسے شیئر کرنے والی شخصیات میں معروف ہولی وڈ شخصیات بھی شامل تھیں۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حملوں میں کم از کم 34 فلسطینی شہید ہو گئے، اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں گھس کر حملہ کیا۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون میں اسرائیل کی فضائی فورسز کی جانب سے ایک بلند عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 25 افراد شہید اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
فلسطینی سول ایمرجنسی کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، آن لائن پوسٹ کی جانے والی تصاویر (جن کی رائٹرز فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا) میں لاشوں کو شہر کی ایک اجتماعی قبر میں قطار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
وسطی غزہ میں نصرات پناہ گزین کیمپ میں ایک گھر پر ایک اور فضائی حملے میں کم از کم 7 افراد شہید ہوئے، طبی عملے اور فلسطینی سول ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ ایک اور شخص نے انکلیو کے جنوب میں رفح میں 2 افراد کو ہلاک کر دیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق ساحل کے قریب دیر البلاح میں اسرائیلی بحری افواج نے 6 فلسطینی ماہی گیروں کو حراست میں لے لیا، جو بحیرہ روم میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر 14 ماہ سے جاری اسرائیلی فوج کی مہم میں اب تک 44 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
امریکا کے حمایت یافتہ عرب ثالثوں مصر اور قطر کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں ناکام رہی ہیں، لیکن اسرائیلی اور فلسطینی حکام میں امید کے حالیہ اشارے بتاتے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے لیے جلد کسی معاہدے پر پہنچا جاسکتا ہے۔
پیر کی شب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد حماس کی بڑھتی ہوئی تنہائی، قیدیوں کی واپسی کے معاہدے کے دروازے کھول سکتی ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ کوششیں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں جھڑپوں کے دوران اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ پٹی میں 3 فوجی مارے گئے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ یہ تینوں فوجی شمالی غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران مارے گئے۔
ادھر مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فضائی حملے میں مزید 2فلسطینی شہید ہو گئے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا 26 سال اور 32 سال کی عمر کے دو افراد شمالی مغربی کنارے میں اسرائیلی گولہ باری سے مارے گئے۔
قبل ازیں اے ایف پی نے رپورٹ کاہ یمن کے حوثیوں نے اسرائیل پر ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جب کہ حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
حوثی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ڈرون یونٹ نے یاؤنے میں اسرائیلی دشمن کے ایک حساس ہدف کو نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً 44 ہزار 580 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ سے زائد افرد زخمی ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے شام میں محصور پاکستانیوں کے انخلا کے لیے لبنان کے وزیر اعظم سے رابطہ کیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے پی ٹی وی نیوز کے مطابق وزیر اعظم نے آج لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے لبنان کے خلاف اسرائیل کی فوجی جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کا اعادہ کرتے ہوئے لبنان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کے عزم کا اظہار کیا۔
انہوں نے لبنان کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا اور فلسطینی عوام کے لیے بھی اسی طرح کے جنگ بندی کے معاہدے پر زور دیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے ہم منصب سے بات چیت میں وزیر اعظم نے شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور شام میں محصور پاکستانیوں کے انخلا کےلیے مدد کی درخواست کی۔
رپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق سیکڑوں پاکستانی اس وقت شام میں محصور ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم نے شام میں موجود پاکستانیوں کے انخلا کو ترجیح قرار دیتے ہوئے حکام اس حوالے سے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت شام کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستانیوں کے انخلا کے حوالے سے اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وزیر اعظم نے شام میں مقیم پاکستانیوں کے محفوظ انخلا کے لیے اقدامات کرنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے تک دفتر خارجہ کا کرائسس مینجمنٹ یونٹ فعال رکھا جائے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ہدایت دی کہ شام اور اس کے ہمسایہ ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں معلوماتی ڈیسک 24 گھنٹے فعال رہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ شام سے پاکستانیوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
وزیراعظم نے اس سلسلے میں حکام کو تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ شام میں پاکستانیوں کی جان و مال کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز شامی صدر شارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں 300 کے قریب پاکستانی زائرین پھنس گئے تھے جب کہ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ دمشق ایئرپورٹ کھلتے ہی پاکستانیوں کی واپسی کا آپریشن شروع کردیا جائے گا۔
شام میں موجود پاکستانی زائر سید الیاس نقوی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز سے ہوٹل تک محدود ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا ختم ہوگئی ہیں، پاکستانی سفارتخانہ مکمل تعاون کر رہا ہے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ نے شام میں موجود پاکستانی شہریوں سے احتیاط کی اپیل کی اور کہا کہ دمشق ایئرپورٹ کھلتے ہی پاکستانیوں کی واپسی کا آپریشن شروع کردیا جائے گا۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ شام میں موجود تمام پاکستانی شہری محفوظ ہیں، سفارت خانہ شہریوں کی مدد کے لیے کھلا ہے اور عملہ پاکستانی شہریوں اور زائرین کے ساتھ رابطے میں ہے۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد 24 سالہ اقتدار کے خاتمے پر ملک سے فرار ہونے کے بعد اہلخانہ سمیت روس پہنچ گئے تھے۔
روسی خبر رساں ایجنسیوں نے کریملن کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ شام کے صدر بشار الاسد اور ان کا خاندان روس پہنچ گئے ہیں اور روسی حکام نے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دے دی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا تھا کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی۔
باغیوں کا کہنا تھا کہ ’ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور ان کی زنجیریں ٹوٹنے کی خبر پر جشن مناتے ہیں اور سدنیا جیل میں ناانصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں‘۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت، آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے ان کی منصفانہ جدوجہد کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس میں شہباز شریف سے پاکستان میں فلسطین کے سفیر ڈاکٹر ظہیر محمد حمد اللہ زید نے ملاقات کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام عالم کی جانب سے اسرائیل کا سخت احتساب نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے فلسطینی سفیر کو یقین دلایا کہ پوری پاکستانی قوم فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی ہر ممکن حمایت جاری رکھے گی۔
رپورٹ کے مطابق سفیر ڈاکٹر ظہیر محمد حمد اللہ زید نے فلسطینی عوام کی موجودہ مشکلات میں پاکستان کی ثابت قدم حمایت کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے اصولی موقف کو سراہا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے فلسطینی سفیر کی پاکستان میں تعیناتی کے حوالے سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور انہیں ہر وقت اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً 44 ہزار 580 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ سے زائد افرد زخمی ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گزشتہ سال غزہ میں بمباری کے آغاز سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ کو عالمی برادری کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ نتیجہ اسرائیلی حکومت اور فوجی حکام کے غیر انسانی اور نسل کشی پر مبنی بیانات، تباہی کی سیٹلائٹ تصاویر، فیلڈ ورک اور غزہ کے باشندوں کی زمینی رپورٹس کی بنیاد پر اخذ کیے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنس کیلامارڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل نے ماہ بہ ماہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ایک غیر انسانی گروہ کے طور پر برتاؤ کیا ہے جو انسانی حقوق اور وقار کے منافی ہے اور انہیں عملی طور پر تباہ کرنے کے اس کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے افسوسناک نتائج بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کیے جانے چاہئیں، یہ نسل کشی ہے، جو اب بند ہونی چاہیے‘۔
کالامارڈ نے دی ہیگ میں ایک پریس کانفرنس میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے فوجی مقاصد ہیں لیکن فوجی مقاصد کی موجودگی نسل کشی کے ارادے کے امکان کی نفی نہیں کرتی‘۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم کی جانب سے اخذ کردہ نتائج نسل کشی کی روک تھام سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن میں طے کردہ معیار پر مبنی ہیں۔
دریں اثنا غزہ کے شہری دفاع کے ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کے جنوب میں خان یونس کے قریب پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 5 بچوں سمیت 20 فلسطینی شہید ہوگئے۔
ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’خان یونس کے قریب المواسی کے علاقے میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے بے گھر افراد کے خیموں پر بمباری کے نتیجے میں 5 بچوں سمیت 20 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے‘۔
اسرائیلی فوج نے حملے سے متعلق سوال پر دعویٰ کیا ہے کہ ’خان یونس کے انسانی ہمدردی کے شعبے میں حماس کے سینئر دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے کے بعد ’ثانوی دھماکے‘ ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں ہتھیار رکھے گئے تھے۔
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے عہدہ سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم میں تبدیل کر دیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ اگر یرغمالیوں کو 20 جنوری 2025 سے قبل رہا نہیں کیا گیا (جس تاریخ کو فخر کے ساتھ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالوں گا) تو مشرق وسطیٰ میں اور انسانیت کے خلاف ان مظالم کا ارتکاب کرنے والوں کو ’جہنم کی قیمت‘ چکانی پڑے گی۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسلسل بمباری، ڈرون حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچے شہید ہوچکے ہیں، جب کہ غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، اس سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا انہیں اقتدار ملا تو وہ غزہ میں جاری جنگ رکوادیں گے۔
امریکی نو منتخب صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ پر لکھا کہ ’ہر کوئی یرغمالیوں کے بارے میں بات کر رہا ہےجنہیں مشرق وسطیٰ میں اتنی پرتشدد، غیر انسانی اور پوری دنیا کی مرضی کے خلاف رکھا گیا ہے، لیکن یہ سب باتیں ہیں اور کوئی کارروائی نہیں!‘
انہوں نے لکھا کہ ’برائے مہربانی سچائی کو اس بات کی نمائندگی کرنے دیں کہ اگر یرغمالیوں کو 20 جنوری 2025 سے پہلے رہا نہیں کیا گیا، جس تاریخ کو میں فخر کے ساتھ امریکا کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھاؤں گا، تو مشرق وسطیٰ میں اور انسانیت کے خلاف ان مظالم کا ارتکاب کرنے والوں کو تمام سزائیں بھگتنا ہوں گی، ذمہ داروں کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کی طویل ترین تاریخ میں کسی سے بھی زیادہ سخت نشانہ بنایا جائے گا۔ یرغمالیوں کو اب رہا کرو!‘
لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نابیح بیری نے کہا ہے کہ بیروت میں 27 نومبر سے لے کر اب تک اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی کم از کم 54 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
نابیح بیری نے جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی پر زور دیا کہ وہ ’فوری طور پر‘ اس بات کو یقینی بنائے کہ اسرائیل اپنی خلاف ورزیوں کو روک دے۔
لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’این این اے‘ کے مطابق اسرائیلی افواج نے جنوبی لبنان کے شہر بیت لیف کی جانب توپ خانے کے دو گولے داغے جبکہ بھاری مشین گن سے یارون کو نشانہ بنایا گیا، تاہم اس گولا باری میں کسی شہری کے زخمی ہونے کی رپورٹ نہیں ملی۔
اپنے بھائی ہانی کے ساتھ مل کر ’غزہ سوپ کچن‘ قائم کرنے والے المدہون نے غزہ کی پٹی کے شمال میں اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک سے نمٹنے کی کوشش میں کھانا پکایا اور بے شمار افراد میں تقسیم کیا۔
واضح رہے کہ یکم دسمبر کو شمالی غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری اور ڈرون حملے میں غزہ سوپ کچن کے شریک بانی المدہون سمیت 45 افراد شہید ہوئے تھے۔
مرنے سے چھ ماہ قبل ’اے جے پلس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں المدہون نے بتایا تھا کہ کس طرح بھوک کی وجہ سے کچھ لوگ کمزوری اور لاغرپن کا شکار بن رہے ہیں۔
المدہون کا کہنا تھا کہ ’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ پورے شمالی علاقے (غزہ کی پٹی) کوکھانا کھلایا جائے‘۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کے وزیر برائے تذویراتی امور رون ڈرمر سے ملاقات کی اور تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ انٹونی بلنکن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کو غزہ بھر میں انسانی امداد کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے اور لبنان میں حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی پر عمل درآمد پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انسانی حقوق گروپ ’بیت سلیم‘ نے رواں سال مئی اور اگست کے درمیان مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں ایک نئی رپورٹ شائع کی ہے۔
25 فلسطینیوں کی شہادتوں پر مبنی اس رپورٹ میں فوجیوں کی جانب سے مردوں، عورتوں، کم عمر افراد اور بچوں کے خلاف تشدد، ذلت اور بدسلوکی کے واقعات کی وضاحت کی گئی ہے۔
بیت سلیم نے کہا کہ 25 افراد میں سے کسی پر بھی کسی جرم کا شبہ نہیں تھا اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا اور حملے کے فوری بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’متاثرین نے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے دردناک واقعات بیان کیے، جن میں مار پیٹ، کوڑے مارنا، جسم کو سگریٹ سے داغنا، ان کے جنسی اعضا پر وار کرنا، نامعلوم مادے کا انجکشن لگانا، طویل عرصے تک باندھنا اور آنکھوں پر پٹی باندھنا، دھمکیاں دینا، توہین کرنا وغیرہ شامل ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد کا یہ پیمانہ ظلم، بے دخلی اور بے دخلی کی ایک منظم، دیرینہ پالیسی کا خاص طور پر سفاکانہ اظہار ہے جو اسرائیلی نسل پرست حکومت کی جڑ ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے عوام گزشتہ 7 دہائیوں سے آزاد مملکت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور انہوں نے بہادری سے ان متعدد اسرائیلی قتل وغارت گری کے ادوار کا مقابلہ کیا ہے جو مسئلہ فلسطین سے دستبرداری پر مجبور کرنے کے لیے کی گئیں۔
اس وقت غزہ میں جاری نسل کشی، صہیونیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے جذبے کو پسپا کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود فلسطینیوں کی ثابت قدمی کی وجہ سے دنیا بھر میں فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کے حامیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
1977ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29 نومبر کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اسی تاریخ کو 1947ء میں جنرل اسمبلی نے فلسطینی زمین کی تقسیم کا منصوبہ 181 (II) منظور کی تھی۔ اگرچہ یہ قرارداد نکبہ کا باعث بنی لیکن یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کثیرالجہتی ادارے نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ تاریخ مختص کی۔
فلسطین کو ملنی والی عالمی حمایت کے پیچھے بہت سے عوامل شامل ہیں۔ سب سے پہلے تو اسرائیل کے خلاف عربوں کی مزاحمت میں وہ لوگ اپنی جھلک دیکھتے ہیں جنہوں نے غاصب یا نوآبادیاتی قوتوں کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ کمزور لیکن غالب عوام کو اپنی زمین اور وقار کی بحالی کے لیے لڑتے دیکھتے ہیں جو طاقتور اور بےرحم دشمن سے نبردآزما ہیں۔ وہ ایک آخری نوآبادیاتی قوت کی کارروائیاں دیکھتے ہیں جو مقامی آبادی کو ان کی آبائی سرزمین سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
وہ ان لوگوں میں ایسے عوام کی جھلک دیکھتے ہیں جو کم وسائل کے ساتھ ایسی قوت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں جسے کرہ ارض کی سب سے طاقتور ملٹری اور سب سے طاقتور معیشت کی حمایت حاصل ہے۔ انہیں عوامل کی بنا پر دنیا بھر کے ایسے عوام کہ جن کی فلسطینیوں سے کوئی مذہبی، ثقافتی یا جغرافیائی وابستگی نہیں، مگر وہ بھی مقبوضہ غزہ اور مغربی کنارے میں محصور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
درحقیقت وہ تمام لوگ جو انصاف پر یقین رکھتے ہیں، ان کے نزدیک فلسطینیوں کی جدوجہد حق بہ جانب ہے۔ نیلسن منڈیلا کے بقول، ’ہماری آزادی فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘۔
پاکستان سمیت مسلم ممالک عقیدے کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگرچہ کچھ مسلم حکومتیں فلسطینیوں کی جدوجہد کی کھلے عام حمایت کرنے سے ہچکچاتی ہیں لیکن ان مسلم ممالک کے باسی فلسطین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی سنگین خدشات پائے جاتے ہیں کہ اسرائیلی انتہاپسند (جو اسرائیلی حکومت میں بھی شامل ہیں) اسلام کی مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت ایک مذہبی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے۔
دنیا بھر کے عوام کو شعور ہے کہ ’اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے‘ کو کسی صورت بھی فلسطینیوں کی قتل و غارت گری کے لیے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اسی تناظر میں بہت سے لوگ اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے رہے ہیں۔
تاہم غزہ کے عوام کو یوں ناقابلِ بیان حد تک شدید اسرائیلی مظالم کا سامنا کرتے دیکھنا دل دہلا دیتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ایک دن تمام عقائد یا مذاہب کو ماننے والے فلسطینی اپنے آباؤاجداد کی سرزمین پر لوٹ آئیں گے اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے پاکستانی عوام اور حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
صدرآصف علی زرداری نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کی نسل کشی روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کی حمایت کے لیے پرعزم ہے، عالمی برادری فلسطینی عوام کی نسل کشی روکنےکے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے، پاکستان تمام جارحانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ اسرائیل تاریخ کے گھناؤنے ترین مظالم ڈھاتے ہوئے اب تک ہزاروں معصوم فلسطینی مردوں، خواتین اور بچوں کا قتل عام کر چکا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شہریوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور انفرااسٹرکچر پر حملوں کو روکا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آزادی اور حق خودارادیت کے لیے فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد کی پُرعزم طریقے سے حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کا منصفانہ اور دیرپا حل چاہتا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی عوام کوپاکستانی قوم کی مکمل سفارتی اورسیاسی حمایت حاصل ہے، مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل کے لیے اپنے بھائیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے تحت ہر سال 29 نومبر کو فلسطینیوں سے یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد فلسطینی عوام کی حق خودارادیت کے لیے جاری جدوجہد کی حمایت کرنا ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے اپنے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے ٹھیک 2 ماہ بعد عوامی سطح پر نماز جنازہ کی ادائیگی کا اعلان کر دیا جب کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے۔
سعودی نشریاتی ادارے العربیہ کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب رہنما محمود قومی نے کیا۔
رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کی جانب سے یہ اعلان سابق سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے ٹھیک 2 ماہ بعد کیا گیا ہے۔
حسن نصراللہ کو اسرائیلی فوج نے بمباری کر کے 27 ستمبر کو ان کے ہیڈکواٹر میں شہید کر دیا تھا، ان کی عوامی سطح پر نماز جنازہ مسلسل اسرائیلی بمباری کی وجہ سے التوا میں چلی آرہی تھی.
تاہم اب حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے شہید سربراہ حسن نصراللہ کے عوامی سطح پر جنازے کی ادائیگی کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔
یہ اعلان حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب رہنما محمود قومی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید حسن نصراللہ کی نماز جنازہ حزب اللہ کی طرف سے پورے احترام اور اہتمام کے ساتھ آفیشلی پڑھی جائے گی جس میں لبنانی عوام شرکت کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں اپنے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کی 28 ستمبر کو تصدیق کی تھی جب کہ اس سے ایک روز قبل یعنی 27 ستمبر کو اسرائیل نے بیروت حملوں میں ان کے علاوہ دیگر سینئر رہنماؤں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس وقت کی غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس حملے میں حسن نصراللہ کی بیٹی زینت نصراللہ نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا جب کہ اسرائیلی فوج کے مطابق حزب اللہ کے دو اہم کمانڈر بھی اس حملے میں دم توڑ گئے تھے۔
رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بیروت پر اسرائیلی فوج نے 5،5 ہزار پاؤنڈ کے بم برسائے، ایف 35 لڑاکا طیاروں نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا، 7 گھنٹے تک وقفے وقفے سے ہونے والی بمباری کے نتیجے میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں۔
واضح رہے کہ آج ہی لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی پر عمل درآمد کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے بعد لبنان کے دارالحکومت بیروت میں لوگ اپنے گھروں کی جانب واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔
لبنان کے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی صبح 4 بجے سے جنگ بندی نافذ کی گئی تاہم اسی دوران یہ خدشات موجود ہیں کہ جنگ بندی کا یہ وقفہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان مستقل جنگ بندی کی جانب بڑھے گا یا نہیں؟
اس جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ’تباہ کن تنازع کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کی تجاویز پر اتفاق ہوچکا ہے‘، یہ معاہدہ لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ کے درمیان جنگ مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 14 ماہ کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان خونریز جنگ کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے، غزہ پر حملوں کے بعد پناہ کی تلاش میں لبنان جانے والوں کا پیچھا کرتے ہوئے اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا، اس دوران کئی لبنانی باشندے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
صدر جوبائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں جانب کے عام شہری جلد ہی اپنے لوگوں میں بحفاظت واپس آجائیں گے اور اپنے گھروں، اسکولوں، کھیتوں اور کاروباری جگہوں کی از سر نو تعمیر کا آغاز کریں گے تاکہ معمول کی زندگی شروع کرسکیں۔
واضح رہے کہ حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت میں براہ راست حصہ نہیں لیا گیا، تاہم ان کی جانب سے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نابیح بیری نے مذاکرات کیے لیکن اب تک اس حوالے سے انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میکاتی نے کہا کہ انہوں نے جو بائیڈن سے بات چیت میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ’ڈیل‘ کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی امریکی صدر کو آگاہ کیا کہ وہ جنگ بندی وقفے کی منظوری دے چکے ہیں اور امریکا کی جانب سے اسرائیل کے دفاع کے حق کو سمجھنے کو سراہتے ہیں۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ پٹی پر تازہ حملوں میں 48 گھنٹوں کے دوران مزید 120 فلسطینی شہید ہوگئے۔
فلسطین کے محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ ’ صہیونی فوج نے سفاکانہ کارروائی میں شمالی حصے میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں طبی عملے کے متعدد ارکان زخمی ہوئے، حملے میں طبی آلات کو بھی نقصان پہنچا ’۔
محکمہ صحت کے مطابق غزہ کے مضافاتی علاقے زیتون میں رات گئے اسرائیلی فورسز نے ایک گھر کو نشانہ بنایا، اس حملے میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر افراد وسطی اور جنوبی غزہ پر کیے گئے حملوں میں شہید ہوئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد سے ہی غزہ کے شمالی علاقے اسرائیلی دراندازی اور بمباری سے شید متاثر ہیں، اس علاقے میں فلسطینی محصورین کی بڑی تعداد آباد ہے۔
حماس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ شمالی غزہ میں اسرائیلی فورسز کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل کی ایک خاتون قیدی بھی ہلاک ہوگئی ہے۔
ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی وجہ سے ہلاک ہونے والی اسرائیلی خاتون کے ساتھ موجود دیگر خواتین قیدیوں کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کی جانب سے جاری اس بیان کی تفتیش کی جارہی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل کے مسلسل حملوں کا مقصد علاقے کو لوگوں سے خالی کراکر اسے ’بفر زون ’ بنانا ہے تاہم اسرائیل اس بات سے انکار کرتا آیا ہے۔
غزہ کی شمالی پٹی میں واقع 3 ہسپتالوں میں سے ایک کمال ادوان ہسپتال بمشکل اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر حسین ابو صفیہ نے حالیہ صہیونی بمباری کے تناظر میں کہا کہ اسرائیلی فورسز کے حملے کے بعد طبی عملے کو ہسپتال کی عمارت سے نکل کر بھاگنا پڑا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ پر 13 ماہ سے جاری حملوں کے نتیجے میں اب تک 44 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی کو کم از کم ایک بار اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ لبنان کی جانب سے اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے والے ڈرونز کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹس کے مطابق عالمی وقت کے مطابق 04:30 بجے تک ڈرونز کی اسرائیلی حدود عبور کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ لبنان سے آنے والے ڈرونز کے اسرائیلی حدود میں داخل ہونے کے بعد مغربی اور بالائی گیلیلی خطے میں سائرن بج اٹھے۔
اسرائیلی فورسز کی لبنان کے دارالحکومت بیروت کی ایک عمارت پر تازہ حملے میں 11 شہید ہوگئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں نے 8 منزلہ عمارت پر 4 میزائل داغے، جس کا ہدف زیر زمین بنکر بھی تھے۔
اسرائیل، حزب اللہ کے سینئر رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے بنکر تباہ کرنے والے ہتھیاروں کو پہلے بھی استعمال کرچکا ہے۔
لبنان کے دارالحکومت میں ہفتے کو علی الصبح 4 بجے اسرائیلی حملے کے نتیجے میں پورا شہر لرز اٹھا اور بارود کی بو شہر بھر میں کئی گھنٹے تک پھیلی رہی۔
(https://www.dawnnews.tv/news/1246757/)[. ]!
بیروت کے جس علاقے میں اسرائیل نے عمارت پر حملہ کیا، یہ علاقہ قدیمی دکانوں کی وجہ سے مشہور ہے، حملے کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے تباہ شدہ عمارت کے ملبے کی تلاشی لی۔
رواں ہفتے وسطی بیروت میں اسرائیل کی جانب سے یہ چوتھا فضائی حملہ تھا، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں دارالحکومت بیروت کے جنوب میں حزب اللہ کے زیر اثر علاقوں کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے بیروت کے جنوب میں حزب اللہ کے مضبوط سمجھے جانے والے مضافاتی علاقوں میں بھی اہداف پر حملے کیے گئے، تاہم اس میں وسطی بیروت پر کیے گئے حملے کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
وسطی بیروت میں اسرائیل کے حملے میں نشانہ بننے والے خاندان کے ایک مرد ہسپتال کے باہر ایک خوفزدہ خاتون کو تسلی دیتے نظر آئے، اس حملے میں ان کی بیٹی بھی زخمی ہوئی ہے۔
اپنی بچی کی تصویر ہاتھ میں تھامے ہسپتال کے باہر موجود نیمر زکریا نامی لبنانی شہری نے بتایا کہ ’حملے کے بعد ہر طرف دھول ہی دھول تھی، متعدد گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں، لوگ خوفزدہ ہوکر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے‘۔
انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ، میری بیٹی اور ایک رشتے دار خاتون (آنٹی) بھی اس حملے میں زخمی ہوئی ہیں جو ہسپتال میں زیر علاج ہیں، میرے بیٹے کو بھی زخم آئے ہیں۔
لبنان کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل نے جنوبی لبنان کے گاؤں رووم پر بھی حملہ کیا جس میں کم از کم 5 افراد شہید اور 2 زخمی ہوگئے۔
لبنان کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے حملوں میں 3 ہزا ر645 افراد شہید جبکہ 15 ہزار 355 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
ادھر، غزہ کی وزارت صحت نے آج جاری ایک بیان میں بتایا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 44 ہزار 176فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ 44 ہزار 473 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں عالمی فوجداری عدالت ( آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
آئرلینڈ نے جرائم کی عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کی گرفتاری کا اعلان کردیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق آئرلینڈ کے وزیراعظم سمون ہیرس نے کہا ہے کہ بینجمن نتن یاہو آئرلینڈ آئے تو جرائم کی عالمی عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کے تناظر میں ان کی گرفتاری کو ترجیح دی جائے گی۔
قومی نشریاتی ادارے آر ٹی ای سے گفتگو کے دوران آئرش وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ اگر نیتن یاہو کسی بھی وجہ سے آئرلینڈ آئے تو کیا انہیں گرفتار کیا جائے گا؟ جس پر سمون ہیرس نے جواب دیا کہ ’جی ہاں بالکل، ہم عالمی عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے وارنٹ پر عمل درآمد کرتے ہیں‘۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کینیڈا عالمی عدالتوں کی جانب سے جاری کیے گئے تمام فیصلوں کی تعمیل کرے گا، جس میں آئی سی سی کی جانب سے سینئر اسرائیلی حکام کے خلاف وارنٹ گرفتاری بھی شامل ہیں۔
جسٹن ٹروڈو نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پیغام میں کہاکہ’یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر کوئی بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بین الاقوامی قانون کے لیے کھڑے ہیں اور ہم بین الاقوامی عدالتوں کے تمام قواعد و ضوابط اور فیصلوں کی پاسداری کریں گے‘۔
دریں اثنا اقوام متحدہ نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کے بعد رکن ممالک سے عالمی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ عالمی فوجداری عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے، انہوں نے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ عالمی قوانین کے حوالے سے اپنی ذمےداریاں پوری کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عملی طور پر اس فیصلے کا فلسطینی عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے میں اقوام متحدہ کے کردار پر بہت کم اثر پڑے گا۔
ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے حکام کو اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے مذکورہ اسرائیلی حکام کے ساتھ رابطے جاری رکھنے کی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت اس رابطے کی اجازت ہے۔
آسٹریلیا نے محتاط انداز میں عالمی فوجداری عدالت کے کردار کی حمایت کی ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کا براہ راست حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وانگ نے کہا کہ آسٹریلیا آئی سی سی کی آزادی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری میں اس کے اہم کردار کا احترام کرتا ہے۔
چین نے عالمی فوجداری عدالت سے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ موقف کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بعد عالمی فوجداری عدالت پر زور دیا ہے کہ وہ غیر جانبدار اور منصفانہ رہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لِن جیان نے عالمی عدالت کی جانب سے نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کیے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چین کو امید ہے کہ آئی سی سی ایک حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف کو برقرار رکھے گا اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کرے گا۔
فیصلے پر امریکی مخالفت سے متعلق ایک سوال پر ترجمان نے امریکا پر ’دوہرا معیار‘ اپنانے کا بھی الزام عائد کیا، انہوں نے کہا کہ ’بعض ممالک دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں اور صرف اس وقت عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں جب وہ ان کے لیے موزوں ہوں، چین مسلسل اس بات کی مخالفت کرتا ہے‘۔
ادھر ایران کی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کو اسرائیل کا اختتام اور سیاسی موت قرار دے دیا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک خطاب میں جنرل حسین سلامی نے کہاکہ ’یہ صہیونی ریاست کی سیاسی موت اور اس کا اختتام ہے، ایک ریاست جو مکمل عالمی سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور دیگر ممالک میں سفر کے قابل نہیں رہی ہے‘۔
عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کے بعد پہلے ایرانی ردعمل میں جنرل حسین سلامی نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ ’ یہ فلسطینی اور لبنانی مزاحمت تحریک کی بڑی فتح ہے’۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کے اعلیٰ سفارت کار نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کو ’بہت اہم قدم‘ قرار دیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فدان نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا ہےکہ یہ فیصلہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کرنے والے اسرائیلی حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی سمت میں ایک انتہائی اہم قدم ہے۔
دریں اثنا برطانیہ نے بھی کہا ہے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کا احترام کرتا ہے، خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جو عالمی تشویش کے حامل انتہائی سنگین جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا بنیادی عالمی ادارہ ہے‘۔
تاہم برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری اسرائیل اور دہشت گرد تنظیموں حماس اور حزب اللہ کے درمیان کوئی اخلاقی مماثلت نہیں ہے، انہوں نے کہا ہم غزہ میں تباہ کن تشدد کے خاتمے کے لیے فوری جنگ بندی پر زور دینے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تاہم امریکی صدر جو بائیڈن نے عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی حکام کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔
عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا کہ آئی سی سی کا مطلب جو بھی ہو، اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کی سلامتی کو درپیش خطرات کے خلاف ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
دریں اثنا امریکا نے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کو مستردکردیا ہے ، قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نےکہا کہ’ امریکا بنیادی طور پر سینئر اسرائیلی حکام کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا کےے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتا ہے’۔
انہوں نے کہاکہ ’پراسیکیوٹرز کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کے حصول میں عجلت اور اس فیصلے کی وجہ بننے والی پریشان کن عمل کی غلطیوں پر گہری تشویش ہے‘۔
تاہم امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب اور سینیٹر برنی سینڈرز نے عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
راشدہ طلیب نے کہا کہ ’امریکا نے نسل کشی کے آغاز سے اسرائیلی حکومت کو 18 ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار فراہم کیے ہیں، بائیڈن انتظامیہ اب اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ یہی امریکی ہتھیار بے شمار جنگی جرائم میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بھی شامل ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ’ہماری حکومت کو فوری طور پر انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی ان خلاف ورزیوں سے الگ ہوجانا چاہیے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع گیلنٹ کو گرفتار کرکے آئی سی سی کے سامنے لایا جانا چاہیے‘۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع اور حماس کے رہنما کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہاکہ ’اگر دنیا نے بین الاقوامی قانون کی پاسداری نہیں کی تو ہم مزید بربریت کی طرف جائیں گے، میں آئی سی سی کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں‘۔
ادھر ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اربان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم کو دورہ ہنگری کی دعوت دیں گے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق انہوں نے کہاکہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ نیتن ہاہو کی گرفتاری سے متعلق عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثنا ارجنٹائن کے صدر نے کہا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت کا فیصلہ اسرائیل کے حق دفاع کو نظر انداز کرتا ہے۔
ارجنٹائن کے صدر جیویئر ملی نے ایکس سوشل میڈیا نیٹ ورک پر ایک بیان میں کہا کہ ارجنٹائن اس فیصلے پر اپنے گہرے اختلاف کا اعلان کرتا ہےجو حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کے مسلسل حملوں کے خلاف اسرائیل کے اپنے دفاع کے جائز حق کو نظر انداز کرتا ہے۔
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے سربراہ ابراہیم ال مصری کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے ضمن میں وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتار جاری کیے۔
ہیگ میں قائم آئی سی سی عدالت کے جاری کردہ بیان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری 8 اکتوبر 2023 سے 20 مئی 2024 تک نہتے شہریوں پر حملوں، بھوک اور غذائی کمی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے کیے گئے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق عالمی فوجداری عدالت کے ججوں نے نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے علاوہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ ابراہیم ال مصری کے بھی مبینہ جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی وجہ سے وارنٹ جاری کیے۔
یہ فیصلہ 20 مئی کو آسی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملوں اور صیہونی فورسز کے غزہ میں جوابی ردعمل سے منسلک مبینہ جرائم کے لیے گرفتاری کے وارنٹ طلب کررہے ہیں۔
رائٹر کے مطابق عدالت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ نیتن یاہو اور یووو گیلنٹ نے مشترکہ طور پر ان جرائم جس میں جنگ اور قتل، بھوک اور غذائی کمی کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال، ظلم اور دیگر غیر انسانی سلوک شامل ہیں۔
رائٹرز کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ ’دونوں شخصیات کے وارنٹس مقتولین اور ان کے اہلخانہ کے بہترین مفاد میں جاری کیے ہیں۔‘
آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا عدالتی دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے کی ضرورت درکار نہیں ہے۔
ادھر اسرائیل نے ہیگ میں قائم عالمی عدالت کے فیصلےکو مسترد کردیا ہے اور غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ابراہیم ال مصری المعروف محمد دیاب کو ایک فضائی حملے میں شہید کردیا ہے لیکن حماس نے ان کی ہلاکت کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد کو ویٹو کردیا تھا۔
15 رکنی کونسل کے اجلاس میں 10 غیر مستقل ممبران کی جانب سے فوری، غیر مشروط، مستقل جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔
امریکا نے کونسل کے مستقل رکن ہونے کی وجہ سے قرارداد کو ویٹو کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دیا۔
امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد کو ویٹو کردیا جس کے بعد ایک بار پھر بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع روکنے کے بین الاقوامی اقدام کی راہ میں رکاوٹ بننے پر تنقید کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’ کے مطابق 15 رکنی کونسل کے اجلاس میں 10 غیر مستقل ممبران کی جانب سے فوری، غیر مشروط، مستقل جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔
امریکا نے کونسل کے مستقل رکن ہونے کی وجہ سے قرارداد کو ویٹو کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دیا۔
اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ واشنگٹن نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں قرارداد کی حمایت کرے گا جب یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ شامل ہوگا۔
امریکی سفیر نے کہا کہ ’ہم غیر مشروط جنگ بندی کی حمایت نہیں کر سکتے، جس میں یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ نہ کیا جائے، اس لیے ہم نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔‘
رابرٹ ووڈ نے کہا کہ امریکا سمجھوتا کرنے کو تیار تھا لیکن مجوزہ قرارداد کے متن سے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو ایک ’خطرناک پیغام‘ چلا جاتا کہ مذاکرات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔’
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً 44 ہزار کے قریب فلسطینی شہید جبکہ زیادہ تر اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق آنے والے قراردادوں کو امریکا کی جانب سے پہلے بھی رد کیا جاچکا ہے، اس سے قبل مارچ میں واشنگٹن کی جانب سے فوری جنگ بندی کی قرارداد کی مخالفت کی گئی تھی۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے ووٹنگ سے قبل صحافیوں کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بریفنگ میں بتایا کہ برطانیہ نے نیا مسودہ پیش کیا تھا جسے امریکا بطور مصالحت قبول کرنے کے لیے تیار تھا لیکن منتخب اراکین نے اسے مسترد کر دیا۔
عہدیدار نے امریکی مخالفین روس اور چین کی جانب سے ان ممبران کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ارکان قرارداد پر سمجھوتے سے زیادہ اسے امریکا کی جانب سے ویٹو کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے قبل بھی غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قراردادوں کو متعدد بار ویٹو کرچکا ہے۔
تاہم رواں سال جون میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی تجاویز کی حمایت میں قرارداد منظور کی تھی لیکن اس کے بعد بھی جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے کہا ہے کہ لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کے آغاز کے بعد سے تقریباً 2 ماہ کے اندر 200 سے زائد بچے شہید ہو گئے۔
العربیہ اردو کی رپورٹ کے مطابق یونیسیف کا کہنا تھا کہ لبنان میں روزانہ 3 سے زیادہ بچے شہید ہو رہے ہیں۔
ترجمان جیمز ایلڈر نے جنیوا سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ لبنان میں 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں 200 سے زائد بچوں کی شہادت کے باوجود ایک پریشان کن رجحان ابھر رہا ہے۔
مزید کہنا تھا کہ یہ رجحان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان شہادتوں کے ساتھ ان افراد کی طرف سے لاتعلقی کا برتاؤ جاری ہے، جو ایسے تشدد روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں لبنان کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا گیا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے آغاز سے لبنان میں اب تک کم از کم 3 ہزار 516 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
ادھر، غزہ میں وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں کم از کم 43 ہزار 922 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کی قیادت نے دوحہ چھوڑدیا، قطر کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ حماس کے مذاکرات کا اب دوحہ میں نہیں ہیں تاہم قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے حماس کے دفتر کی مستقل بندش کی اطلاعات کو مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ امریکا نے قطر سے حماس قیادت کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قطر کا کہنا ہے کہ حماس کے مذاکرات کار دوحہ میں موجود نہیں ہیں تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم کا دفتر مستقل طور پر بند نہیں ہوا۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان مجید الانصاری نے کہا کہ حماس کی مذاکراتی ٹیم میں شامل رہنما اب دوحہ میں نہیں ہیں، تاہم انہوں نے کہاکہ ’حماس کے دفتر کی مستقل بندش، ایسا فیصلہ ہوگا جو آپ براہ راست ہم سے سنیں گے‘۔
انہوں نے کہاکہ ’ ثالثی کا عمل ابھی تعطل کا شکار ہے، جب تک کہ ہم فریقین کے موقف کی بنیاد پر اسے واپس لینے کا فیصلہ نہیں کرتے’، ان کا کہنا تھا کہ ’ دوحہ میں حماس کا دفتر ثالثی کے عمل کی وجہ سے قائم کیا گیا تھا، ظاہر ہے جب ثالثی کا عمل معطل ہے تو دفتر میں کام بھی معطل ہے’۔
تاہم قطر نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ آیا اس نے حماس کے عہدیداروں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب میڈیا پر یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ حماس کے کئی رہنما دوحہ سے ترکیہ منتقل ہوگئے ہیں۔
تاہم خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حماس اور ترکیہ کے سفارتی ذرائع نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق ترکیہ کے ایک سفارتی ذریعہ نے پیر کو ان خبروں کو مسترد کر دیا تھا کہ حماس نے اپنا سیاسی دفتر قطر سے ترکیہ منتقل کر دیا ہے۔
سفارتی ذریعے نے کہا تھا کہ’ حماس کے سیاسی بیورو کے ارکان وقتاً فوقتاً ترکیہ کا دورہ کرتے ہیں, حماس کے سیاسی بیورو کے ترکیہ منتقلi کے دعوے سچائی کی عکاسی نہیں کرتے’۔
دریں اثنا وائس آف امریکا کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو حماس کی قیادت کے دوحہ سے ترکیہ منتقل ہونے کی اطلاعات سے متعلق سوال پر ترکیہ کی حکومت پر واضح کیا تھا کہ حماس کے ساتھ مزید اس طرح معاملات نہیں چل سکتے، جیسے چل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن ترکیہ کی حکومت پر واضح کر دے گا کہ حماس کے ساتھ مزید معمول کے مطابق کوئی معاملات نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہاکہ ’میں نے کسی حد تک وہ رپورٹیں دیکھی ہیں کہ حماس کی دوحہ میں موجود قیادت اب ترکیہ منتقل ہو گئی ہے، میں ان خبروں کی نفی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، میں امریکا کی طرف سے جو بات کر سکتا ہوں وہ یہ کہ ہم اس پر یقین نہیں رکھتے کہ ایک دہشتگرد تنظیم کے رہنما کہیں بھی آرام سے رہ رہے ہوں‘۔
واضح رہے کہ قطر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے حماس اور اسرائیل کو بتادیا ہے کہ جب تک کہ دونوں فریق آمادگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے، وہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے میں ثالثی کی کوششوں کو معطل کررہا ہے۔
تاہم دوحہ نے واضح طور پر ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ قطر نے حماس کو خلیجی عرب ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔
بعد ازاں پیر کو حماس نے ان رپورٹس کو ایسی افواہوں سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھاجنہیں اس کے بقول ’اسرائیل وقتاً فوقتاً شائع کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے‘۔