Get the latest news and updates from DawnNews
پاکستان کو مبینہ طور پر میزائل کی حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں بھارت نے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ملازم کو حراست میں لے لیا۔
حساس ادارے کے ملازم پر الزام ہے کہ اس نے جوہری صلاحیت کے حامل براہ موس کروز میزائل کی معلومات پاکستان کو فراہم کیں اور انہیں حراست میں لے کر اس حوالے سے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی جریدے کا کلبھوشن یادیو کے حاضر نیوی افسر ہونے کا اعتراف
ہندوستانی میڈیا کے مطابق ملزم کے قبضے سے کچھ مشکوک مواد بھی برآمد ہوا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شبے کو تقویت ملتی ہے۔
مذکورہ شخص کی شناخت نشانت اگروال کے نام سے ہوئی ہے جسے اترپردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ اور ملٹری انٹیلی جنس نے مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے گرفتار کیا جبکہ اس سلسلے میں پولیس نے بھی ان کی معاونت کی۔
نشانت ناگپور کے قریب براہ موس پروڈکشن سینٹر میں گزشتہ چار سال سے ملازمت کر رہے ہیں اور بھارتی تحقیقاتی اداروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے براہ موس میزائل کے حوالے سے خفیہ معلومات اور تکنیکی ڈیٹا پاکستان کو فراہم کیا۔
آخری اطلاعات تک پولیس نے اس کام میں ان کی معاونت کرنے والوں کی گرفتار کے لیے چھاپے مارنے شروع کردیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کیلئے جاسوسی: بھارت نے اپنی ہی سفارتکار کو مجرم قرار دے دیا
براہ موس میڈیم رینج کا سپر سونک کروز میزائل ہے جسے زمین، جہاز، سب میرین یا بحری بیڑے سے داغا جا سکتا ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا تیز ترین کروز میزائل ہے جسے بھارت نے روس کے اشتراک سے تیار کیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت میں کسی اہم ادارے کے ملازم کو پاکستان کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہو۔
رواں سال بھارت کی مقامی عدالت نے سابق خاتون سفارتکار مادھوری گپتا کو اہم معلومات پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو فراہم کرنے کے الزام میں مجرم قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کیلئے 'جاسوسی' پر انڈین ائیرفورس کا افسر گرفتار
مادھوری پر الزام تھا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں بطور سفارتکار تعیناتی کے دوران وہ مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکار کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں اور انہیں ’اہم معلومات‘ فراہم کی تھیں۔
اس سے قبل رواں سال میں بھی پاکستان کو مبینہ طور پر خفیہ معلومات پہنچانے کے الزام میں بھارتی فضائیہ کے افسر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے نئے چیئرمین کے انتخاب کے لیے تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے اور چیئرمین کے انتخاب کے لیے الیکشن 4ستمبر کو ہو گا۔
بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کے بعد پی سی بی کے الیکشن کمشنر جسٹس(ر) افضل حیدر نے چیئرمین کے انتخاب کے لیے شیڈول کا اعلان کر دیا۔
نئے چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کے حوالے سے 4 ستمبر کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں چیئرمین کے الیکشن ہوں گے۔
اس سلسلے میں چار ستمبر کو خصوصی اجلاس طلب کر لیا گیا جہاں الیکشن کمشنر افضل حیدر، ڈپٹی الیکشن کمشنر احمد شہزاد فاروق رانا کے ہمراہ چیئرمین پی سی بی کے لیے الیکشن کا انعقاد کریں گے۔
4 ستمبر کو 11 سے ساڑھے 11 بجے تک کاغذات نامزدگی جمع کیے جائیں گے، جس کے بعد اعتراضات سنے جائیں گے اور اسکروٹنی مکمل کی جائے گی۔
دن ایک بجے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی جبکہ ڈیڑھ بجے چیئرمین پی سی بی کے لیے الیکشن ہو گا۔
پی سی بی بورڈ آف گورنرز میں وزیر اعظم اور پیٹرن ان چیف پی سی بی عمران خان کے نامزدہ کردہ اراکین احسان مانی اور اسد علی خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین (واپڈا)، ڈاکٹر نجیب صائم (ایچ بی ایل)، محمد ایاز بٹ (کے آر ایل)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیا (ایس ایس جی سی)، مراد اسماعیل (کوئٹہ ریجن)، شاہ ریز عبداللہ روکھڑی (لاہور ریجن)، کبیر احمد خان (فاٹا ریجن)، کیپٹن (ر) جہانزیب خان (سیکرٹری وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ) شامل ہیں۔
یاد رہے کہ سیکرٹری گورننگ بورڈ میں شامل ہونے کے باوجود ووٹ دینے کا استحقاق نہیں رکھتا۔
لندن : امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک وفد کے ہمراہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین سے ملاقات کی۔
ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق لندن کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان اور بیرون ملک مقیم صحافیوں، قلم کاروں اور اینکرز کے ایک وفد سے الطاف حسین نے ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ میں تفصیلی ملاقات کی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے مطابق ملاقات کرنے والوں میں امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی، ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمٰن، ریڈیو پاکستان کے سابق ایم ڈی اور ٹی وی اینکر مرتضیٰ سولنگی، نجی ٹی وی کے نمائندے خالد حمید فاروقی، کالم نگار محمد تقی، ٹیگ ٹی وی کے سی ای او طاہر اسلم گورا اور دیگر شامل تھے۔
پاکستان کے مجموعی حالات، جغرافیائی صورتحال اور ایم کیو ایم کے سیاسی مستقبل پر وفد کے سوالات کے الطاف حسین نے تفصیلی جوابات میں اپنامؤقف پیش کیا۔
الطاف حسین نے ملک میں 20 صوبوں کے قیام کی تجویز کو دہرایا، انہوں نے 21 دسمبر 1991 کو لندن سے وطن واپسی پر خود پر خود کش حملہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا، متحدہ قومی موومنٹ کے بانی نے کراچی میں آپریشن بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین سے پاکستان میں ان کی جماعت اعلان لاتعقلی کر چکی ہے جبکہ دوسری جانب اپریل 2008 سے نومبر 2011 تک امریکا میں پاکستان کے سفیر رہنے والے حسین حقانی کو بھی ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نکال چکی ہے۔
یاد رہے کہ 2012 میں سامنے آنے والے میموگیٹ اسکینڈل میں حسین حقانی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2011 میں ایک مراسلہ لکھ کر امریکی جنرل مائیک ملن کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے امریکا کو مزید تعاون کے ساتھ ساتھ جوہری پروگرام محدود کرنے کی پیشکش شامل تھی.
تاہم حسین حقانی اس الزام کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں, 12 جولائی 2012 کے بعد سے میموگیٹ اسکینڈل کے حوالے سے مقدمے کی سماعت بھی نہیں ہوئی۔
الطاف حسین سے ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اس وقت اعلان لاتعلقی کیا جب انہوں نے 21 اگست کو کراچی پریس کلب پر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کارکنوں سے خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے جبکہ اسی روز امریکا میں کارکنوں سے خطاب میں پاک فوج سے خود لڑنے کا بھی اعلان کیا، الطاف حسین کے ان اعلانات کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی، اور پارٹی کے معاملات پاکستان سے چلانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جماعت کو الطاف حسین سے الگ قرار دیا۔
الطاف حسین کے زیر سایہ ایم کیو ایم (لندن) کی جانب سے بھی پاکستان میں رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کا حصہ بننے والے پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف، اسحاق ایڈووکیٹ (ساتھی اسحاق) ، تحریک انصاف چھوڑ کر آنے والے امجد اللہ خان کے علاوہ کنور خالد یونس اور دیگر کو شامل کیا گیا، یہ رہنما جب کراچی میں اپنی دوسری پریس کانفرنس کرنے پریس کلب آئے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف سمیت کئی رہنماوں کو حراست میں لیا، جن کو بعد ازاں 30 روز کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔
اسلام آباد: ہندوستان نے باضابطہ طور پر پاکستان کو آگاہ کردیا ہے کہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی رواں ہفتے ہونے والے سارک اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ارون جیٹلی کی غیر موجودگی میں اقتصادی امور کے سیکریٹری شکتی کانتا داس جمعرات کو شروع ہونے والے 2 روزہ تقریب میں ہندوستانی وفد کی قیادت کریں گے۔
جمعہ 26 اگست کو ہونے والے سارک کے وزارئے خارجہ کے اجلاس سے قبل فنانس سیکرٹریز کا اجلاس منعقد ہوگا۔
ہندوستانی وزیر خزانہ کی علاقائی بلاک کے اس اجلاس میں شرکت کی توقع کی جا رہی تھی تاہم اب ہندوستانی حکومت کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔
موجودہ فیصلے سے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی کشیدہ صورتحال کے باعث پڑوسی ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی عکاسی ہو رہی ہے، خاص طور پر جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی عوام کے حقوق دبانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
نریندر مودی نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا جب ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 8 جولائی سے جاری احتجاجی مظاہروں پر کریک ڈاؤن سے 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ احتجاج کا یہ سلسلہ حزب المجاہدین کے 22 سالہ کمانڈر کمانڈر برہان وانی کے قتل کے بعد شروع ہوا تھا۔
ہندوستانی حکومت نے ارون جیٹلی کے پاکستان کے دورے کا یہ فیصلہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا اس ماہ کے شروع میں سارک کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں پیچیدہ شرکت کو مد نظر رکھ کر کیا کیا، واضح رہے کہ اس اجلاس کے دوران ہندوستانی وزیر ساخلہ راج ناتھ سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب چوہدری نثار علی خان کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلہ ہوا تھا۔
فنانس ڈویژن کی جانب سے دیئے گئے ایک بیان میں ہندوستان کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ارون جیٹلی کا استقبال کیا جائے گا، بیان کے مطابق پاکستان میزبان ملک ہے، جو اس اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام مہمانوں کے استقبال کا مناسب انتظام کرے گا۔
ہندوستان کا یہ فیصلہ اس اہم اجلاس کو کم اہمیت دیئے جانے کے مترادف ہے، جبکہ نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف کی گئی سخت تقریر کے بعد یہ اشارہ بھی ملتا کہ یا تو ہندوستان نومبر میں ہونے والے سارک کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا یا پھر ان کی جانب سے کم سطح کے نمائندے کو بھیجا جائے گا۔
اس کے علاوہ، بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ابو المال محیط بھی اس ایونٹ میں شرکت نہیں کریں گے، ابو المال محیط نے فروری میں بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے ایک بیان میں پاکستان کو دھوکے باز ریاست کہا تھا۔
بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ ایم اے مینن اس اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔
اس سے قبل بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال نے بھی سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
وزرائے خزانہ کے اجلاس میں خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے، سارک ڈیولپمنٹ فنڈ کے آپریشن اور انفرا سٹرکچر کی ترقی کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، اس دوران نیپال میں ہونے والے ساتویں وزراء خزانہ کے اجلاس کے دوران کئے گئے فیصلوں پر عمل کرنے پر جائزہ لیا جائے گا۔
یہ خبر 24 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
دبئی: پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں کپتان مصباح الحق کی شاندار سنچری کی بدولت میچ کے پہلے دن چار وکٹوں کے نقصان 282 رنز بنا کر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے.
پاکستان کے کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
دوسرے ٹیسٹ کے لیے پاکستان نے ٹیم میں ایک تبدیلی کرتے ہوئے راحت علی کی جگہ یاسر شاہ کو شامل کیا جو انجری کے سبب گزشتہ میچ نہیں کھیل پائے تھے۔
اوہنرز نے کپتان کا فیصلہ درست ثابت کرتے ہوئے ٹیم کو 51 رنز کا آغاز فراہم کیا، حفیظ آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی تھے جنھیں معین علی نے شکار کیا.
ابھی پاکستان اس نقصان سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ شعیب ملک دو رنز بنانے کے بعد بین اسٹوکس کی وکٹ بن گئے.
کھانے کے وقفے کے بعد پہلی ہی گیند پر شان مسعود جیمز اینڈرسن کی باہر جاتی ہوئی گیند کھیلنے کی کوشش میں وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے، انھوں نے 54 رنز بنائے.
اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی سب سے تجربہ کار جوڑی وکٹ پر اکٹھا ہوئی اور دونوں نے ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا.
دونوں نے چوتھی وکٹ کیلئے 93 رنز کی شراکت قائم کر کے پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا، یونس 56 رنز بنانے کے بعد مارک وُڈ کو وکٹ دے بیٹھے.
اس کے بعد اسد شفیق کپتان کا ساتھ نبھانے وکٹ پر پہنچے اور بتدریج ٹیم کا اسکور بڑھانا شروع کیا.
دونوں کھلاڑیوں نے عمدہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا خصوصآ مصباح کی بیٹنگ دیدنی تھی جنہوں نے دن کے آخری اوور میں معین علی کو دو بلند و بالا چھکے رسید کر کے اپنی سنچری مکمل کی.
جب پہلے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان نے چار وکٹ پر 282 رنز بنائے تھے، مصباح پانچ چھکوں اور آٹھ چوکوں کی مدد سے 102 اور اسد شفیق 46رنز پر بیٹنگ کر رہے ہیں.
دونوں کھلاڑی اب تک پانچویں وکٹ کیلئے 104 رنز کی شراکت قائم کر چکے ہیں.
انگلینڈ کی جانب سے بین اسٹوکس، معین علی، جیمز اینڈرسن اور مارک وڈ نے ایک ایک وکٹ حاصل کی.
واضح رہے کہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا ابوظہبی میں کھیلا گیا پہلا میچ ڈرامائی انداز میں ڈرا ہو گیا تھا۔
انگلینڈ کی ٹیم ہدف سے 25 رنز دور تھی کہ امپائرز نے کم روشنی کے سبب میچ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اس میچ کے ابتدائی چار دنوں میں صرف 18 وکٹیں گریں جبکہ آخری دن 15 وکٹیں گر گئیں جن میں سے 11 وکٹیں آخری سیشن میں گریں۔
نئی دہلی: ہندوستان نے پاکستان کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کو ایک بار پھر تجویز دی ہے کہ وہ کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں سے ملاقات نہ کریں۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کو یہ تجویز دی تھی کہ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ سرتاج عزیز حریت رہنماؤں سے ہندوستان میں ملاقات کریں۔
وکاس سوارپ کا مزید کہنا تھا کہ ایسی کوئی بھی ملاقات اوفا معاہدے کے تحت دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی مشترکہ کوششوں کو متاثر کرے گی۔
خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کے مابین رواں برس جولائی میں روس کے شہر اوفا میں ہونے والی ملاقات میں دہشتگردی سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے دونوں ممالک کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزروں کی ملاقات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات کا مجوزہ ایجنڈا پاکستان کو 18 اگست کو ہی ارسال کیا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ دو دن بعد 23 اگست کو دہلی میں پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سرتاج عزیز اور ہندوستان کے سیکیورٹی ایڈوائزر کے درمیان ملاقات طے ہے۔
دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبد الباسط نے 23 اگست کو ہی کشمیر کے حریت رہنماؤں کو ملاقات کے لیے مدعو کیا ہے۔
حریت رہنماؤں کو ملاقات سے روکنے کے لیے گزشتہ روز بعض حریت رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا جبکہ کئی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تاہم بعد ازاں آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے چیئرمین سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی کو ختم کر دیا گیا تھا۔
چند روز قبل ہندوستانی ریاست منی پور میں باغیوں کے حملے میں ہندوستانی فوج کے 20 جوان ہلاک ہوئے، اور 12 شدید زخمی۔ یہ خبر جب مقامی اور بین الاقوامی میڈیا پر نشر ہوئی تو اپنے ہم وطنوں نے تبصروں میں جی بھر کے خوشی کا اظہار کیا۔
سوائے کشمیر کی ریاست کے، ہندوستانی وفاق میں شامل تمام کی تمام ریاستیں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 259 کے تحت ہندوستانی وفاق کا جزوِ لاینفک ہیں، اور ہندوستانی فوج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کریں۔ ہندوستان کے شمال میں واقع ریاستیں باغی سرگرمیوں کا گڑھ ہیں، جہاں موجود مختلف تنظیمیں وفاق پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے مسلح طور پر سرگرم ہیں کہ وفاق ان کے علاقوں سے وسائل ہڑپ کرتے ہوئے مقامی باشندوں کا استحصال کر رہا ہے۔
کچھ اسی قسم کا الزام لگاتے ہوئے ہمارے وفاق میں موجود ایک اکائی کے چند عناصر بھی اسی طرح کی سرگرمیاں ہمارے ہاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے کی ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر رائج قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سالمیت کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائیں، اور جدید زمانے کے وطنی تصور پر مشتمل ریاست اپنی جغرافیائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا ہی کرتی ہے، چاہے وہ پاکستان ہو، ہندوستان ہو، سری لنکا ہو، چین ہو یا کوئی بھی اور۔
پڑھیے: 'ہندوستان، پاکستان میں مداخلت سے باز رہے'
اور ایسی صورت حال کے دوران اگر کوئی خارجی ریاست کسی ریاست کو درپیش بغاوت کے معاملے پر حقوقِ انسانی کا پرچار کرے تو متاثرہ ریاست اس کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر حقوقِ انسانی کی علمبردار ریاست کے سفیر کو اپنے دفتر خارجہ طلب کر لیا کرتی ہے، اور ایسی حرکات کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے وضاحت کی طلبگار ہو جایا کرتی ہے، جیسا کہ صدر السیسی کے زیرِ انتظام مصر نے سابق صدر مرسی کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی تشویش پر حکومت پاکستان کو کھری کھری سناتے ہوئے اپنے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے روک دیا ہے۔
اسی طرح کے معاملے کا سامنا پاکستانی دفتر خارجہ کو تب ہوا تھا جب بنگلہ دیشی عدالتوں کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
خیر! یہ ساری تمہید اس مقصد کے لیے تھی کہ راقم الحروف پاکستان کے دفتر خارجہ پر نکتہ چیں ہونا چاہ رہا ہے۔ نیز اپنے ہم وطنوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہے کہ "دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے, سجنا وی مر جانا" ہوتا ہے۔
دنیا جہان کے سپاہی عموماََ غریب غربا ہوا کرتے ہیں، جن کا کام دس جماعت پاس کرکے فوج میں بھرتی ہو کر اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہوتا ہے۔ فوج کا سپاہی عموماً روبوٹ کی طرح ہوتا ہے، جس کا کام صرف حکامِ بالا کے حکم پر 'یس سر' کہنا ہوتا ہے۔ گھات لگا کر کیے گئے باغیوں کے حملے کی صورت میں مرنے والے عموماً سپاہی ہوا کرتے ہیں، اور جنیوا کنونشن کے تحت تمام سپاہی قابلِ عزت ہیں۔
دشمنی رکھنا اور دشمنی سہنا باغیرت ہونے کی دلیل ہے، مگر مہذب اقوام ہمیشہ باضمیر دشمن ہوا کرتی ہیں۔ دشمنی اور کمینگی میں فرق بس کچے دھاگے جتنا ہی ہوا کرتا ہے؛ مہذب دشمن موجود ہو تو مثبت نمو کے امکانات روشن ہوا کرتے ہیں۔
پڑھیے: دوستی نا سہی، مگر دُشمنی بھی کیوں؟
ہم وطنوں کو بس یہ کہنا مقصود ہے کہ دشمنی کرتے ہوئے بھی ایک معیار قائم رکھیے، گھٹیا ہو تو دشمنی بھی شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔
دفتر خارجہ والوں کو یہ یاد دلانا چاہ رہا ہوں کہ صاحبان، دنیا ساری یہ جان رہی ہے کہ صدر پیوٹن کے زیرِ حکومت روس اب انگڑایئاں لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مان لیا کہ 9 مئی کو سانحہ نلتر نے آپ کو مصروف رکھا ہوا تھا، مگر یہ کیا کہ ماسکو میں گریٹ پیٹریاٹک وار کی وکٹری ڈے پریڈ ہو رہی ہو، بیس ممالک کے سربراہان وہاں شریک ہوں، برادرِ معظم شی چنگ پنگ بھی وہیں ہوں، اور ہمارا دفترِ خارجہ دو لفظ پیغامِ تہنیت نہ بھجوائے۔
بھول تو ہوئی، ماننا پڑے گا، اور دو ہی روز قبل پولینڈ میں مغربی بلاک نے بھی اسی نوعیت کی خوشی منائی تھی۔ اگر وہاں مبارک بھجوائی ہوتی، اور روس سے سرد مہری روا رکھی ہوتی، تو مان بھی لیتے کہ امریکہ سے یاری نبھائی ہے۔ بابا وہاں بھی تو ہونے والی تقریب کو گھاس نہ ڈالی ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان نے۔
ذرا سارک پر نظر ڈالیے، تو اس خطے میں سب سے پرانا حل طلب مسئلہ کشمیر کا ہے۔ ہندوستان میں مودی سرکار نے اول دن یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدے کے تحت تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا، وہاں یقیناً سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، تو ہم ہی کر لیتے ہیں۔
ہندوستانی میڈیا نے جب بلوچستان اور سندھ کے معاملے پر ہاؤ ہو کی تھی، کیا تب ہمارے دفتر خارجہ اور اقوامِ متحدہ میں موجود مستقل مندوب کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ہندوستان کو سخت سست کہا جائے کیونکہ یہ حرکت شملہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی تھی؟
پڑھیے: ہندوستان کا بیان پاکستان کے معاملات میں مداخلت
جب شملہ معاہدے کے تحت یہ بات درج ہے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ریاستوں کے درمیان حل طلب ہے، تو ہندوستانی وزیر خارجہ کے اس بیان پر کہ اقتصادی راہداری کے آزاد کشمیر سے گزرنے پر اعتراض ہے، ہمارے دفترِ خارجہ نے ہندوستانی سفیر کو طلب کر کے تحفظات کی فہرست کیوں نہیں تھمائی؟
ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری توانائی کے منصوبوں پر تحفظات، جو کہ جائز ہیں، جواباً ان کا اعادہ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا بگلہار ڈیم، کشن گنگا ڈیم، اور وولر بیراج پر ہمارے اعتراضات ختم ہو گئے ہیں؟
حد یہ ہے کہ وہاں کی وزیر خارجہ کہتی ہے کہ کرکٹ سیریز کا فیصلہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین، جو کہ ماشاء اللہ سابق سفارتکار ہیں، ممیاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابھی تک معاملہ زیر غور ہے۔
بھئی وہ نہیں کھیلتے نہ کھیلیں، لیکن جو کھیل وہ ہمارے ساتھ سفارتی سطح پر کھیل رہے ہیں، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جانیے: ہندوستان کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی برداشت نہیں
ہماری عدالتوں نے لکھوی صاحب کو بے قصور کہا، تو ہندوستان نے نہایت کامیاب سفارتکاری سے ان کے خلاف بنا ثبوت دیے انہیں ممبئی حملوں میں ملوث قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا اس قدر شدید ہے کہ امریکا نے اپنے خصوصی تبصرے میں اس فیصلے پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔
بھئی کیا ہمارا کام نہیں تھا کہ اگلے ہی روز عدالتی فیصلے کی ایک کاپی امریکا کو بھجواتے، یورپ کو بھجواتے، اور اپنے نیشنل ٹی وی پر پڑھ کر سنواتے کہ دوستو! عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، خواہشات پر نہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاک ہندوستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق مشترکہ تحقیقات کے لیے مکمل تعاون حکومتِ ہند کی ذمہ داری تھی کہ نہیں؟
سائیں جی! بغیر یہ دیکھے کہ دیشتگردی سے اس وقت سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہے، اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانی افواجِ پاکستان نے دی ہیں، وہ ہم پر دہشتگردی کی تہمت لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہشتگردی کا جواب دہشتگردی سے دیں گے, تو ہمارا فرض ہے کہ اُن تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ بھائی صاحب، پاکستان کی طرف بڑھنے سے پہلے اپنے ملک کے پرچم بنانے کی فیکٹریاں بڑھا دیجیے کیونکہ سپاہیوں کے کفن لپیٹنے کی ضرورتیں بڑھ سکتی ہیں۔
ہاں! یہ پیغام بھی ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہندوستانی فوجیوں کی باغیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر افسوس ہے، متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، اس اعادے کے ساتھ کہ ہم اس دکھ سے آشنا ہیں، کیونکہ ہم نے یہ غم بہت دیکھا ہے۔
جانیے: جنگ کے علاوہ 6 کام جو انڈیا اور پاکستان کر سکتے ہیں
پاک فوج کے سربراہ کا پیغام تو اب ہم سن بھی چکے ہیں کہ جنگ کے انداز اب بدل گئے ہیں، جنگ اب میدانِ حرب سے بڑھ کر سفارتکاری میں داخل ہو گئی ہے۔ پروایکٹیو سفارت کاری کے سبب ہی ملکی مفادات کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ تعلقات میں 'گاجر' ضرور کھلائیں، مگر چھڑی کو تھامے رکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔
خدا کرے کہ ترے دل میں، اتر جائے مری بات
کل ہندوستانی پولیس نے سرحد کے قریب سے ایک کبوتر پکڑا جس سے مبینہ طور پر وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے نام ایک انتباہی خط برآمد ہوا ہے۔ گذشتہ سال بھی ہندوستان نے ایک کبوتر کو گرفتار کیا تھا اور اس پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ فی الوقت ہم اس حوالے سے مزید اطلاعات کے منتظر ہیں، تب تک کے لیے ہندوستانی حکومت کی جانب سے گذشتہ سال کبوتر کے خلاف جاری کیے گئے ثبوت ملاحظہ کیجیے۔
گذشتہ ہفتے ہندوستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک کبوتر پکڑا ہے، جو حقیقت میں پاکستانی جاسوس ہے۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسی را نے دعویٰ کیا کہ کبوتر کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے خصوصی طور پر تربیت دی تھی، تاکہ وہ ہندوستان میں گھس کر جاسوسی کر سکے۔
اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے را نے کچھ تصاویر جاری کی ہیں، جو کہ را کے تربیت یافتہ طوطے نے لی تھیں۔ تصاویر میں پاکستانی جاسوس کبوتر کو ہندوستان میں جاسوسی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ را کے سربراہ راجر بِنی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی جاسوس کبوتر، جس کا خفیہ نام غٹرغوں خان ہے، کئی سالوں، یا شاید دہائیوں سے ہندوستان میں جاسوسی مشن پر تھا۔
ذیل میں وہ تصاویر ہیں جو را نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر جاری کی ہیں۔
میں ایک سال میں پانچ انٹرنیٹ کنکشن تبدیل کر چکی ہوں۔ براڈبینڈ، مائی فائی، کیبل نیٹ، فائبر آپٹک، ایوو شیوو، آپ جس سروس کا بھی نام لیں، وہ دوسرے سے بری ہی ہے۔ لگتا ہے کہ اب ایک اچھے انٹرنیٹ کنکشن کی امید چھوڑ ہی دینی چاہیے۔ انٹرنیٹ اتنا سست ہے کہ مجھے ڈائل اپ کے دن یاد آجاتے ہیں۔
مجھے اور مجھ جیسے پاکستان کے دیگر انٹرنیٹ صارفین کو انٹرنیٹ کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ان کی بناء پر پاکستان میں Internet.org کی لانچ پر پریشان ہونا بنتا ہے۔ internet.org بظاہر انٹرنیٹ کی مفت فراہمی یقینی بناتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس کی مدد سے ہر کوئی انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو کر دنیا بھر کی معلومات حاصل کر سکے گا۔ سننے میں اچھا ہے نہ؟ لیکن اتنا بھی اچھا نہیں۔
حقیقت میں internet.org آپ کو بہت ہی محدود، اور اشتہاروں سے بھری ہوئی ویب سائٹس تک رسائی دے گا، اور ان ویب سائٹس کا انتخاب فیس بک کرے گا۔ جو لوگ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتے، یہ ان کے لیے سہولت تو ہے، لیکن ایک ایسے باغ کی طرح ہے جس میں دیواریں ہوں۔ اس میں انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے، اور آپ کا ڈیٹا غیر محفوظ۔
`
Internet.org is now live in Pakistan for people on the Telenor Pakistan network!Before today, only ~15% of Pakistan's...
Posted by Mark Zuckerberg on Thursday, May 28, 2015
internet.org پر دستیاب ایپس آپ کو بہت کم ویب سائٹس تک رسائی دیں گی، اور وہ بھی SSL کے بغیر۔ SSL نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے پیغامات، تصاویر، اور دیگر تمام ڈیٹا بغیر لفافے کے پوسٹ کارڈ کی طرح رہ جائے گا، جسے ایڈورٹائزنگ کمپنیاں، فیس بک، حکومتیں، اور دیگر غیر متعلقہ لوگ آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی اور ہر طرح کی معلومات اس غیر محفوظ نیٹ ورک پر آسانی سے پڑھی جا سکتی ہیں۔
پڑھیے: انٹرنیٹ آخر کب سستا ہوگا؟
تصور کریں کہ آپ انٹرنیٹ پر اپنی پسندیدہ ٹی وی سیریز یا میوزک ویڈیو دیکھ رہے ہیں، اور جب بھی آپ اس پر کلک کرتے ہیں تو آپ کا انٹرنیٹ کنکشن کافی حد تک سست ہو جاتا ہے۔
آپ اسکائپ، گوگل ہینگ آؤٹ، یا جٹسی کھولتے ہیں، اور 'کال' پر کلک کرتے ہی انٹرنیٹ کی کوالٹی اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ آپ بمشکل ہی بات کر پاتے ہیں۔ پریشان کن ہے نہ؟
یہ وہ چیز ہے جس کی حوصلہ افزائی internet.org جیسے پلیٹ فارمز کر رہے ہیں، جس کے مطابق انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز آپ کے زیرِ استعمال ایپلی کیشنز کی بناء پر آپ کی رسائی محدود بنا سکتے ہیں۔ اور یہ ہونا شروع ہوچکا ہے۔ کچھ ٹیلی کام کمپنیاں اب اپنے صارفین سے واٹس ایپ کالنگ پر بھی چارج کرتی ہیں، اور یہ کچھ وقت کی بات ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیاں ان سروسز کے لیے بھی چارج کریں گی جو ویسے مفت ہیں۔
ہم میں سے کچھ لوگ انٹرنیٹ کئی سالوں سے استعمال کر رہے ہیں، کئی مختلف ویب سائٹس آزما چکے ہیں، اور کئی سوشل نیٹ ورکس استعمال کر کے چھوڑ چکے ہیں۔
مزید پڑھیے: سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟
لیکن اگلی ایک دہائی میں جو ایک ارب لوگ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کریں گے، بڑی کارپوریشنز اور حکومتیں ان کے لیے سب کچھ بدل دینا چاہتی ہیں۔ چاہے صارف افورڈ کر سکتا ہو یا نہیں، اسے کن چیزوں تک رسائی حاصل ہوگی، یہ فیصلہ کارپوریشنز اور حکومتیں ہی کریں گی۔
کارپوریشنز اور حکومتیں پہلے ہی پوشیدہ طور پر ہمارا ڈیٹا استعمال کر کے منافع کما رہی تھیں، یا مکمل طور پر کنٹرول چاہتی تھیں۔ اب ہم کس طرح کنیکٹ ہوتے ہیں یا رابطے کرتے ہیں، یہ فیصلہ بھی انہی کے ہاتھ میں ہوگا۔
دنیا خواب کے اندر خواب ہے۔ کون جانے خوابوں کا نگر حقیقت ہو یا حقیقت کا نگر خواب۔ خواجہ میر درد کا شعر ہے،
وائے ناکامی، وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔
شمال کی چاہ میں شمال کے نگر کا بار بار سفر کرنے والے مسافر کے پاس اس کا کل اثاثہ خواب ہی تو ہوتے ہیں جن کی تعبیر کا پیچھا کرتے وہ پھر سے ایک نئے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ تعبیر کی جستجو میں مزید خواب ہی آتے رہے، کسی خواب میں جنگل سے پیاسا نکل کر دریا کنارے پہنچ کر کھڑے رہنا، پھر بنا پانی پیے پتھروں سے بھرے میدان میں، جو وادی سالتورو کے راستے میں آتا ہے، پہنچ جانا۔
خواب در خواب سفر ہوتا رہا، آنکھ کھلی تو دنیا نے فنکاری کا طوق گلے میں ڈال دیا۔ یہ طوق اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ ایک طرف اس کو اٹھائے رکھنے میں اور دوسری طرف اپنی خامیاں چھپانے میں انسان ساری توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سیکھتے سیکھتے میں خود کہیں اور ہی کھو گیا۔ وہ جو بے ساختہ پن والا انسان تھا گم ہو گیا۔ اب بھی خوابوں کی تعبیر کا کوئی نام و نشان ہے نہ ہی اس راہ میں کوئی مِیل کا پتھر دکھائی پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر سفر ہی خوابوں کے نگر کا ہو تو؟
شمال میں بسا ضلع ہنزہ نگر خوابوں کا نگر ہے۔ ہنزہ اور نگر ماضی میں دو الگ ریاستیں رہیں، اور ان دونوں کو بیچ میں بہتا دریائے ہنزہ الگ کرتا تھا۔ دریا دونوں ریاستوں کی سرحد ہوا کرتی تھی۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا، جس کا دارالحکومت ڈونگس تھا۔ یہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا، اور یہ آج کے نگر اور ہنزہ پر مشتمل تھا۔
نگر — فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
چونکہ ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشئیرز تھے جن کے بڑھنے سے وہاں کا نظامِ آبپاشی سخت متاثر ہوا تو لوگ ہوپر میں آکر آباد ہوئے۔ اس کے بعد راجہ میور خان کے بیٹوں مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ہنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ہنزہ چھوٹی ریاستں تھیں، اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والے تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔
انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھیں، اس لیے 1891 میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا، اور نگر کی طرف چڑھائی شروع کی گئی۔ نگر کا دفاعی قلعہ نلت کے مقام پر واقع تھا۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہنچ گئی، اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر محیط آزادی ختم ہوگئی۔
انگریزوں سے نکل کر ریاست کا انتظام کشمیر کے مہاراجہ کے سپرد ہو گیا مگر مرکز سے دوری کی بنا پر مقامی لوگ اپنی من مانی ہی کرتے رہے۔ ریاست نگر کا دارالحکومت ڈونگس، نگر خاص میں واقع تھا جہاں بادشاہ کا محل اور دربار ابھی تک موجود ہے۔ یہ دارالحکومت مغلوٹ شاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر شوکت علی خان تک قائم رہا۔
نگر کو برف پوش پہاڑوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ راکاپوشی، نگر کی وادی غلمت میں واقع ہے جبکہ دران پِیک نگر کی وادی مِناپن میں سینہ تانے کھڑی ہے۔ ہوپر تو نگر کے ماتھے کا جھومر ہے، جہاں سے ایک راستہ پاکستان کی بلند ترین جھیل رش لیک کو نکلتا ہے تو وہیں پر ہوپر گلیشیئر، گولڈن پِیک، برپو گلیشیئر، بولتر گلیشیئر، اور میار گلیشیئر ظہور پذیر ہیں۔
گولڈن پیک یا اسپانٹک پیک — فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
راکاپوشی — فوٹو سید مہدی بخاری |
نگر کا حسن پہلی بار مجھ پر حادثاتی طور پر آشکار ہوا۔ میں قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا ہنزہ جا رہا تھا۔ مناپن کے قریب لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے راستہ بند تھا، اور گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میرے جیپ ڈرائیور نے گاڑی مناپن گاؤں کے اندر ڈال لی۔ اس دن میں نگر کی وادیوں سے ہوتا ایک پرخطر کچے تنگ راستے پر سفر کرتا اور نیچے قراقرم ہائی وے کو دیکھتا رہا کہ جہاں دونوں اطراف لینڈ سلائیڈ اور اس کی وجہ سے رکی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں تھیں۔
دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد میں پھر سے دریائے ہنزہ پر بنا پل عبور کر کے قراقرم ہائی وے پر موجود تھا، اور گاڑی ہنزہ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس دن نگر کی اندرونی بستیوں کو قریب سے دیکھا۔ خوش باش لوگ تھے، کھیلتے بچے تھے، کام کرتی عورتیں تھیں، کھیتوں میں چرتے مویشی تھے اور دور کہیں عقب میں گولڈن پِیک مسلسل منظر میں موجود تھی۔ خالص دیہی زندگی کا نام نگر ہے، یہ احساس اسی دن ہوا۔
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری |
ہنزہ سے نکلیں تو گنیش گاؤں کے بعد دریا پر بنا پل پار کرتے ہی دائیں جانب ایک سڑک ہوپر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ ہوپر سے پہلے نگر خاص آتا ہے جو کبھی ریاست نگر کا صدر مقام ہوا کرتا تھا۔ سارا علاقہ خوبانی، چیری اور سیب کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ کھیتوں میں کرکٹ کھیلتے بچے ہاتھ ہلا کر مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
محنت کشوں کی آبادی نگر خاص، چھوٹی چھوٹی دکانوں اور گھروں پر مشتمل ہے۔ نگر خاص کے بازار سے ایک راستہ شمال کے آخری گاؤں ہیسپر کو نکل جاتا ہے اور دوسرا ہوپر کی طرف، جو کہ برفپوش پہاڑوں، رش جھیل اور کئی گلیشیئرز کی سرزمین ہے۔ ہوپر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ اس سے آگے انسانی آبادی کا کوئی وجود نہیں، محض برف ہی برف ہے اور ان سے سر ٹکراتی بے چین ہَوا کہ جس نے برفوں کو اپنے زور سے کاٹ کر ان میں لہریں بنا دی ہیں۔
ہیسپر کی طرف جائیں تو راستے میں پتھروں سے بنے قدیم طرز کے مکانات نظر آتے ہیں جن کے آنگنوں میں مویشی اور بچے ساتھ ساتھ کھیلتے اور پلتے ہیں۔ ایسے گھروں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں دل چاہنے لگتا ہے کہ ان کے اندر ایک شب کسی کا مہمان رہوں۔ آبادی سے تھوڑا آگے نکلیں تو دودھ کی آبشار بلندی سے گرتی دکھائی دیتی ہے۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ لوگ ایسے مہمان نواز اور خوش اخلاق کہ مسافر کو اپنے گھر کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ کوئی خشک خوبانیاں پیش کرتا ہے تو کوئی اخروٹ۔
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
میں شمال کے آخری گاؤں ہیسپر جا رہا تھا۔ یہ خزاں کا موسم تھا۔ تیز ہواؤں سے درختوں کے خزاں رسیده پتے اڑتے پھرتے تھے۔ ایک گھر کے باہر بچے کھیل رہے تھے، اور میں ان کی فوٹوگرافی میں مگن تھا۔ اس گھر کے آنگن میں ناشپاتی کا گھنا درخت لگا ہوا تھا، جو ناشپاتیوں سے بھرا پڑا تھا۔ گھر کا دروازه کھلا ہوا تھا اور میں اس کے چھوٹے چھوٹے مکینوں کی تصویریں لیتا اور ان سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔
بچوں کو ہنسانے کی خاطر اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے میں کہتا کہ بچو گھر کے آنگن میں لگے درخت سے ناشپاتیاں تو توڑ کر لاؤ۔ مجھے قطعی خبر نہ تھی کہ میری آواز گھر کے اندر بھی کوئی سنتا ہے۔ کچھ دیر میں دروازے کی اوٹ سے سرخ آنچل سے نقاب بریده نیلی آنکھیں برآمد ہوئیں. مہندی لگے ہاتھوں سے چہرے کا نقاب بناتے ہوئے مجھے اشاره ہوا۔ میں قریب گیا تو دوسرے ہاتھ سے ناشپاتی سے بھری لکڑی کی چھال کی ٹوکری میری جانب بڑھا دی گئی۔
ہیسپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری |
ہیسپر — فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
میں نے وصول کر کے شکریہ ادا کیا تو نیلی آنکھیں پھیل گئیں، غالباً نقاب کے اندر ہنسی تھی۔ نیلی آنکھوں والی میرے سر کی طرف مہندی رچے ہاتھوں سے اشاره کر کے بولی، " پتہ"۔ میرے بالوں میں ایک زرد پتہ نجانے کب کا اٹکا ہوا تھا۔ بالوں کو ہاتھ سے جھٹک کر پتہ گرانے تک دروازے کی اوٹ خالی ہو چکی تھی، اور میرے ہاتھ میں ناشپاتیوں سے بھری ٹوکری تھی جن کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔ گاڑی کے قریب آ کر ڈرائیور کو ناشپاتی دی تو وہ اونچے اونچے قہقہے لگانے لگا۔ اب جب کبھی یاد آئے تو مجھے سارے منظر میں ڈرائیور کا قہقہہ سب سے اونچا یوں سنائی دیتا ہے جیسے مجید امجد کا یہ شعر
گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ، تنہا
ہیسپر کے آتے آتے شام ڈھلنے لگی تھی۔ یہ گاؤں مجھے دنیا سے کٹا ہوا لگا۔ ایک عجیب طرح کا سکون اس بستی میں ٹھہرا تھا، سو وہیں شب بسری کا انتظام کر لیا۔ قراقرم کے دامن میں ایک سرد رات میں جب ہیسپر کے گھروں کی مدھم روشنیاں وادی میں جھلملاتی ہیں اور اوپر آسمان پر ستارے ٹمٹاتے ہیں، ان لمحوں میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ ستارے کہاں کہاں بکھرے ہیں۔ بیچ میں کھڑا میں کبھی وحشی پہاڑوں کے خوف سے، تو کبھی سردی کی لہر سے کانپتا تھا۔
ہوپر سے التر کی چوٹی پر شام کا منظر — فوٹو سید مہدی بخاری |
ہنزہ سے نگر کا منظر: گولڈن پیک، گلگندر، اور چھوٹوکان پیک — فوٹو سید مہدی بخاری |
اس رات میں نے ایک تارہ دیکھا جو آسمان سے بھڑکتا ہوا تیزی سے زمین کی طرف آیا۔ جوں جوں وہ نزدیک آتا جا رہا تھا اس کی چمک دمک بڑھ رہی تھی۔ پھیلتے پھیلتے وہ ایک بڑا سا روشن گولا بن گیا۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے لگا کہ یہ مجھ پر اور وادی پر گر پڑے گا۔ دل میں ڈر بڑھا تو خدا یاد آ گیا۔ ایک دم روشنی کا گولا بجھا اور پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا۔ اس کے بعد دیر تک دھڑکن نارمل نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جلتے ستارے کی رات بعد میں خواب میں بھی ایک دو بار آئی اور مجھے ہمیشہ ڈر کر اٹھنا پڑا، پھر بھی ہوش و حواس میں کئی بار دل کیا کہ پروردگار مجھے ایک بار پھر سے ایسا دہشت زدہ منظر دکھا دے۔ پہاڑوں میں، تنہائی میں، خاموشی میں، موت کی دہشت کی جو لذت ہوتی ہے، وہ بھی کمال ہوتی ہے۔ دور دراز کی وادیوں میں محبتیں ہی نہیں دہشتیں اور وحشتیں بھی بھری ہوتی ہیں۔
ہیسپر اور نگر خاص کے درمیان — فوٹو سید مہدی بخاری |
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
اگلی صبح آسمان سے شفاف اتری۔ اس دن میرا ارادہ نگر کو چھوڑ کر قراقرم کے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ بنی عطا آباد جھیل کو پار کر کے گوجال کے گاؤں حسینی جانے کا تھا۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے جھیل کی جانب سفر ہوتا رہا۔ دھوپ جب پیلے، سرخ، نارنجی پتّوں پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی مصور نے کینوس پر جا بجا رنگ بکھیر دیے ہوں۔ ان رنگ برنگے درختوں کے نیچے سے گزرتے بچوں، بزرگوں، عورتوں کے چہروں پر پڑتی ہلکی دھوپ جو شاخوں سے چھن کر آتی ہے، دیکھتے رہنا بھی ایک مشغلہ ہے۔
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
نگر کی وادیوں سے نکلا تو قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا جھیل تک پہنچا۔ جھیل کے کناروں پر رش تھا۔ ہر کسی کو پار جانے کی جلدی تھی۔ اردگرد کالے سیاہ پہاڑ تھے اور ان کے بیچ تنگ درے میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دریا کا بہاؤ رک جانے سے بنی سبز پانیوں کی ایک گہری جھیل تھی جس کی اپنی الگ ہی ہیبت تھی۔
کشتی والے نے کشتی پر جیپ لوڈ کی تو سارا بوجھ دل پر پڑ گیا۔ قراقرم کے دہشت گرد سنگلاخ پہاڑوں کے تنگ سے درے میں بنی عطا آباد جھیل کا محل وقوع، لمبائی اور گہرائی جان کر ویسے ہی خوف آتا ہے۔ ایک عام سی کشتی میں تیس منٹ کا سفر پہلے ہی ڈرا رہا تھا کہ کشتی پر جیپ بھی لوڈ ہوگئی۔ لائف جیکٹ جو پہننے کو ملی وہ بس دل کی تسلی کے لیے تھی ورنہ جس معیار کی کشتی تھی اسی معیار کی جیکٹ تھی جو شاید تنکے کو بھی ڈوبنے سے نہ بچاتی ہو۔
عطاآباد جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری |
کشتی چلی تو دل سے کئی گمان گزر گئے۔ مجھے یاد پڑا کہ بیس سال پہلے میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں کہ جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ میں کنارے پر امی کے پاس روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔
تیس منٹ کا سفر سوچتے سوچتے گزر گیا۔ کشتی کنارے لگی تو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ پسو کونز کے بیک ڈراپ میں ملاح کا چہره دھندلا چکا تھا۔ حسینی کے گاؤں میں چلتے چلتے اسکول جاتے نیلی آنکھوں والے بچوں نے ہاتھ ہلا کر اشاره کیا تو جھیل، کشتی اور یادیں پیچھے ره گئیں۔ پہاڑوں پر سنہری دھوپ اترچکی تھی۔ موسم بدل چکا تھا۔ پانی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔
سورج ستارہ — فوٹو سید مہدی بخاری |
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری |
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری |
نگر خاص میں چیری بلاسم — فوٹو سید مہدی بخاری |
آدھی رات کو جب سارے دن کے کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹتا ہوں تو بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، گلگت بلتستان کی وادیاں، جیپوں کا شور، جنگل، نگر اور ہیسپر کے پرانے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں چھٹا مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
بلتستان کا ضلع گانچھے الگ تھلگ سربلند پہاڑوں کے بیچ بسی دلکش وادیوں، دلنواز بستیوں اور کھلی دریائی زمینوں کے ساتھ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے حسن و جمال کے پورے ادراک کے ساتھ سہمی گھبرائی ہوئی سب سے آخر میں کھڑی ہو۔
سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں، بہتے نیلگوں پانیوں، بلندی سے گرتی آبشاروں کی یہ سرزمین قدرتی و انسانی حسن سے مالا مال ہے۔ گانچھے کا صدر مقام خپلو اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے بسی یہ آبادی آج بھی اتنی ہی سادہ و خالص ہے جتنی صدیوں پہلے تھی، جب یارقند سے سالتورو کے راستے پہاڑوں کو عبور کرتا انسان ہجرت کر کے اس خطے میں وارد ہوا۔
وادی سالتورو جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری |
سالتورو کی چوٹیوں پر غروبِ آفتاب — فوٹو سید مہدی بخاری |
اسکردو کو چھوڑتے ہوئے نکلیں تو ایک تنگ مگر پکی سڑک دو رویہ پاپولر کے درختوں کے بیچ گِھری مسافر پر سایہ کرتے چلتی ہے۔ درختوں سے چھن چھن کر اترنے والی سورج کی روشنی تارکول پر دھوپ چھاؤں کا رقص اور درختوں کے آڑھے ترچھے لمبے سائے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا قدرت سے ذرا بھی رغبت رکھتا ہو تو مبہوت ہو کر دیکھتا رہ جائے۔
موسم اگر خزاں کا ہو تو پاپولر کے پیلے پڑتے درخت کالے تارکول پر بھی پیلاہٹ پھیلا دیتے ہیں۔ سڑک سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب دریائے سندھ چپکے چپکے بہتا ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ذرا آگے جا کر ایک سڑک وادی شِگر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ دو دریاؤں کے ملاپ کی سرزمین شِگر جہاں بالتورو گلیشیئر سے نکلتا دریائے برالڈو ایک وسیع میدان میں اپنے برفانی نیلے پانیوں کو سندھ کے سبز پانیوں کے سپرد کرتا وادی شِگر کی زمین کو ایبسٹریکٹ رنگوں میں رنگ دیتا ہے۔
شگر کو جاتی سڑک — فوٹو سید مہدی بخاری |
دریائے برالڈو اور دریائے سندھ کا سنگم — فوٹو سید مہدی بخاری |
اوپر سے دیکھیں تو یہ نظارہ کسی مصور کا شاہکار لگتا ہے جس نے گہرے نیلے، سبز اور براؤن رنگوں کے اسٹروکس کینوس پر جا بجا لگائے ہوں۔ وادی شِگر سے گزر کر یہ سڑک ضلع شِگر کی آخری انسانی آبادی اسکولے گاؤں تک جاتی ہے، وہیں سے سیاح اور کوہ نورد دنیا کی بلند چوٹیوں کے ٹو اور براڈ پِیک کی پیدل راہ لیتے ہیں۔
اسکردو سے نکلتے پاپولر کے دو رویہ درختوں کے بیچ ٹھنڈی سڑک پر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے بھیڑوں کے ریوڑ مسافر کا راستہ کاٹتے ہیں۔ سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی چھوٹی چھوٹی بستیوں سے گزرتی یہ سڑک دریائے سندھ کا پل پار کرتے ہی ضلع گانچھے میں داخل ہو جاتی ہے۔
دریا پر بنا قدیم طرز کا لکڑی کا پل اب بوسیدہ ہو رہا ہے، اس کے تختے جگہ جگہ سے شکستہ پڑ چکے ہیں۔ اسکردو چھوٹا، گانچھے آیا، منظر جوں کے توں رہے، مگر موت کی ہیبت طاری ہو گئی۔ وہی پہاڑوں کی وحشت، ویسی ہی بل کھاتی سڑک پر منظر میں دریائے شیوک کا اضافہ ہوا۔ شیوک کے لفظی معنی موت کا دریا ہیں۔ سیاچن گلیشیئر کے ہمسائے ریمو گلیشیئر لداخ سے نکلتا یہ دریا گانچھے کے مقام مچلو سے آگے بلتستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔
دریائے شیوک پر اترتی شام کا منظر — فوٹو سید مہدی بخاری |
دریائے شیوک پر اترتی شام کا منظر — فوٹو سید مہدی بخاری |
دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو راستے میں سڑک کے بائیں ہاتھ دریا کے اوپر بنا لکڑی کا پل وادی سالتورو کو جانے کا راستہ ہے۔ پل عبور کرتے ہی ایک وسیع و عریض میدان نظر آیا، جو چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے بھرا پڑا تھا اور عقب میں سالتورو کا پہاڑی سلسلہ دیوار بنے کھڑا دِکھا۔ مشہ بروم پہاڑ کو جانے وانے والے کوہ نورد اسی وادی سے راہ لیتے ہیں۔
خپلو کو جاتے جاتے تھلے گاؤں والا پل نظر آیا تو دل کیا کہ تھلے کی طرف چلا جائے۔ سارا علاقہ خزاں رسیدہ گھنے درختوں سے گھِرا ہوا تھا۔ دریائے شیوک پر بنا لکڑی کا پل پار کر کے آبادی میں پہنچے تو پولیس تھانے کے باہر چیکینگ کے لیے جیپ روک لی گئی۔ ڈی ایس پی صاحب موجود تھے۔ تھانے کے اندر قہوے سے مہمان نوازی کی گئی۔
تھلے وادی میں خزاں کے خوبصورت رنگ — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو کی خزاں — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو — فوٹو سید مہدی بخاری |
گپ شپ شروع ہوئی تو بولے سَن بہتر سے لے کر اب تک سارے علاقے میں صرف ایک قتل ہوا ہے، اور اتنے سالوں میں کل سات ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا "تو سر تھانہ بند کر دیں کیا ضرورت ہے پھر" تو بولے "بس روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔" اس سادہ سے اندازِ جواب پر میں مسکرا پڑا تو قہوے میں مصری کی ڈلی بھی ہنستے ہوئی گھل گئی اور پاس رکھے گملے میں کھِلے شوخ رنگ پھول پر سترنگی تتلی سکون سے بیٹھ کر ہماری باتیں سننے لگی۔
خپلو کے آتے آتے دائیں ہاتھ باغات اور بائیں ہاتھ جنگل شروع ہو جاتے ہیں۔ گھنے جنگل جن میں نالے بہتے ہیں، مقامی لوگوں کے گھر ہیں اور درختوں کے بیچ بنی تنگ گزرگاہوں پر بچے کھیلتے پھرتے ہیں جن کی آنکھوں کے رنگ جنگل کے رنگوں سے زیادہ گہرے اور متاثر کن ہیں۔ خپلو آیا تو بازار میں کچھ چہل پہل نظر آئی۔ خپلو شمال کا سرد ترین علاقہ ہے۔ سردیوں میں اس کا درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اس لیے اسے "تیسرا قطب" بھی کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قطبِ شمالی و جنوبی کے بعد اگر کوئی تیسرا قطب ہے تو وہ خپلو ہے۔
خپلو کو جاتی سڑک — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو کو جاتی سڑک — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو کا جنگل — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو میں روز مرہ کی زندگی — فوٹو سید مہدی بخاری |
جب میں خپلو میں داخل ہوا تب پہاڑوں پر خزاں آچکی تھی اور آسمان پر بادل چھائے تھے۔ پہاڑی علاقے میں جب شہر کی آبادی بھی کم ہو تو سرِ شام ہی آدھی رات پڑ جاتی ہے۔ خپلو کے جنگلوں کے بیچ ایک تنگ پگڈنڈی پر چلتے سارے دن کی یادیں فاسٹ فارورڈ انداز میں ذہن کے پردے پر چلتی جا رہی تھیں۔
سرسراتی ہوا درختوں کے پتے گراتی، گھماتی، اڑائے پھرتی اور مقامی بچے ان پتوں کے تعاقب میں دیر تک بھاگتے رہتے۔ شجر سے ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے کسی ایک پتے کو پکڑنے کی خواہش میں پہاڑ کے نشیب میں اتر جاتے۔ کبھی کبھی من چاہا پتہ پانیوں میں اتر جاتا اور بہاؤ پر ڈولتا ڈولتا اتنی دور نکل جاتا کہ اسے پکڑنا ممکن نہ رہتا۔ عورتیں کمر سے بندھی لکڑی کی ٹوکری میں زمین سے خشک تنکے چن کر جمع کرتیں تا کہ رات کے کھانے کے لیئے آگ جلائی جا سکے۔
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
— فوٹو سید مہدی بخاری |
پہاڑوں پر خزاں کا موسم میرے مزاج سے ملتا جلتا ہے اس لیے مجھے خزاں ہر سال بلاتی ہے۔ خزاں کا موسم ایک طرح سے انتشار کا موسم ہے۔ تعلق کے ختم ہونے کا موسم، شجر سے پتے کا رابطہ ٹوٹے تو لڑکھڑاتا زمین پر آتا ہے۔ ایک آوارہ گرد کو ٹوٹے پتے کا دکھ سانجھا لگنے لگتا ہے۔
گھروں میں داخل ہونے والوں کے لباس پر خشک پتے، کھڈوں اور نالوں کے پانیوں کے کنارے ٹھہرے کیسری براؤن پتے، بچوں کے بستروں کے اندر باہر پتے، سڑکوں پر سسکتے، سرسراتے چھوٹے بڑے خشک پتے۔ کھڑکیوں اور جالیوں میں اٹکے پتے، بجلی کی تاروں پر ٹنگے ہوئے اور گیلے کپڑوں سے لپٹے پتے۔ چنتا کا موسم، ہراساں سی کیفیت، بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بھی ایک رنگ آتا اور جاتا ہے۔ خزاں سب موسموں سے کٹا ہوا موسم ہے۔ اس میں حزن و ملال، یاس و خوف کی کیفیت غالب رہتی ہے اور اگر خزاں شمال کے آخری کونے میں بسی خپلو کی بستی میں اتر آئے تو ارد گرد بکھرے خزاں کے رنگوں کے بیچ دل دھڑکتا نہیں ٹپکنے لگتا ہے۔
مچلو گاؤں سے نظارہ — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو کی ایک بستی — فوٹو سید مہدی بخاری |
مچلو — فوٹو سید مہدی بخاری |
صدیوں پہلے سارا خطہ بدھ مت کے زیرِ اثر تھا، آج بھی قدیمی پتھروں پر اس دور کے کھدے ہوئے آثار ملتے ہیں۔ 1570ء میں سید ناصر طوسی اور سید علی طوسی دونوں بھائی یارقند سے سالتورو کے راستے خپلو پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ بازار سے نکل کر ایک سڑک اوپر چڑھتی ہوئی قلعہ خپلو تک جاتی ہے۔ اس قلعہ کو 1840ء میں یبگو راجا خپلو نے تعمیر کیا۔ یبگو خاندان کے لوگ وسطی ایشیاء کے علاقے یارقند سے یہاں وارد ہوئے اور خپلو پر 700 سال تک حکمرانی کی۔ قلعہ کے اندر اب سرینا ہوٹل وجود میں آ چکا ہے۔ قلعہ کی پرانی طرز پر ازسر نو تعمیر بہت مہارت سے کی گئی ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے آباد اس بستی میں مکمل لکڑی سے بنی قدیم ترین اور پرسکون مسجد بھی واقع ہے اور یہاں پر حکمرانی کرنے والے راجاؤں کی رہائش گاہ بھی۔ مسجد کے اندر جیسے صدیوں کا سکوت خیمہ زن ہے۔ بیٹھے بیٹھے ہزاروں سجدے جبینِ بے نیاز میں تڑپنے لگتے ہیں۔
خپلو قلعہ — فوٹو سید مہدی بخاری |
دریائے شیوک کا ڈیلٹا — فوٹو سید مہدی بخاری |
دریائے شیوک — فوٹو سید مہدی بخاری |
یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے — دریائے شیوک۔ — فوٹو سید مہدی بخاری |
خپلو کو چھوڑ کر آگے بڑھیں تو اسی بل کھاتی سڑک پر دریائے شیوک کا کھلا میدان آتا ہے جہاں یہ دریا پھیل کر نالیوں کی صورت میں اپنے وسیع کنکر بھرے میدان میں بہتا ملتا ہے۔ یہیں سے اس کے عقب میں مشہ بروم پِیک کی چوٹی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
آگے مچلو کا گاؤں آباد ہے۔ مچلو، سکردو سے پرے خپلو سے آگے، دریائے شیوک کے کنارے کہ جو موت کا دریا ہے ایک دور دراز بسا گھنے اخروٹ اور لمبے پاپولر کے درختوں کی چھاؤں میں ٹھنڈا ٹھنڈا گاؤں. یاک اور زمو، دودھ اور لسی، ٹراؤٹ اور ابلے آلو، ہنستے مسکراتے بلتی لوگ، لکڑیاں چنتی عورتیں اور بچے، ٹولیوں میں نیلگوں آسمان سے گزرتے بادل، سامنے نظر آتی مشہ بروم کی چوٹی، سکون سے بہتا شیوک دریا، پہاڑ سے نکلتا چشمہ، پرانی لکڑی سے بنی دیده زیب مسجد، چھوٹی چھوٹی دکانیں، مچلو کا سب کچھ یاد رہ جاتا ہے۔ گانچھے کا حسن تصویروں اور لفظوں میں سمونا ناممکن ہے۔ ایک عرصے تک آوارہ گردی کر کے بھی جب یاد آنے لگتا ہے تو دل سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ دل کرتا ہے کہ چچا محسن نقوی کا شعر مجھ پر صادق آ جائے
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!
سڈنی:پاکستانی ٹیم کے ایک اور کھلاڑی ورلڈ کپ اسکواڈ سے باہر ہو گئے ہیں۔
آل راؤنڈر محمد حفیظ اب ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ نہیں رہے۔
ٹیم مینجمنٹ نے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو محمد حفیظ کی انجری سے آگاہ کر دیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق انجری کے باعث ڈاکٹرز نے محمد حفیظ کو 3 ہفتے آرام کا مشورہ دے دیا۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ محمد حفیظ کی انجری کے بعد متبادل کے طور پر ناصر جمشید کی ور لڈکپ اسکواڈمیں شمولیت کا امکان ہے، پی سی بی نے ناصر جمشید کا نام ٹیکنیِکل کمیٹی کو بھجوادیا۔
کپتان مصباح الحق نے محمد حفیظ کے ورلڈ کپ سے آؤٹ ہونے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محمد حفیظ ایک تجربہ کار کھلاڑی ہیں، جن کی کمی ٹیم کو محسوس ہوگی۔
یاد رہے کہ حفیظ انجری کے باعث ٹیسٹ بھی نہیں دے سکے تھے جو 6 فروری کو ہونا تھا تاہم اب یہ ٹیسٹ انجری سے صحتیابی کے بعد لیا جائے گا۔
آل راؤنڈر محمد حفیظ پنڈلی کی انجری کا شکار ہوئے تھے اور ان کی چوٹ سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔
حفیظ انجری کا شکار ہونے والے واحد کھلاڑٖی نہیں بلکہ فاسٹ باؤلر جنید خان بھی زخمی ہونے کے سبب ورلڈ کپ سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مشکوک باؤلنگ ایکشن کے باعث اسپنر سعید اجمل نے بھی ورلڈ سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا، ان ایکشن قانون قرار دیا جا چکا ہے لیکن 15 کھلاڑیوں کی فہرست میں ان کا نام شامل نہ ہونے کے سبب ان کی بھی ٹیم میں شمولیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم پیر کو سڈنی میں اپنے پہلے وارم اپ میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف گراؤنڈ میں اترے گی۔
پاکستانی وقت کےمطابق یہ ڈے اینڈ نائیٹ میچ صبح 8:30 بجے شروع ہو گا۔
پاکستانی ٹیم اپنا دوسرا وارم اپ میچ بدھ کو انگلینڈ کے خلاف کھیلے گی۔
14 فروری سے شروع ہونے والے میگا ایونٹ میں پاکستان اپنا پہلا میچ 15 فروری کو روایتی حریف ہندوستان کے خلاف ایڈیلیڈ میں کھیلےگا۔
کراچی/اسلام آباد: محرم الحرام کا چاند نظر آگیا ہے جس کے بعد کل ملک بھر میں یکم محرم الحرام ہوگی جبکہ یوم عاشور 4نومبر (منگل کو) ہوگی۔
ڈان نیوز کے مطابق چاند نظر آنے کی پہلی شہادت اسلام آباد سے موصول ہوئی جبکہ کراچی میں بھی چاند دیکھا گیا۔
مفتی منیب الرحمن کی عدم موجودگی میں کراچی میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس مفتی محمد ابراہیم کی زیرصدارت ہوا۔
مفتی محمد ابراہیم پریس کانفرنس کر رہے ہیں |
مفتی محمد ابراہیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد، کراچی، ژوب، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، مالا کنڈ، فیصل آباد، بھکر ، شور کوٹ اور ملک کے اکثر علاقوں سے چاند نظر آنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ارکان نے بھی ازخود چاند دیکھا ہے۔
مفتی محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ یکم محرم الحرام 1436ہجری (بروز اتوار) یعنی 26 اکتوبر 2014 کو ہو گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یوم عاشور یعنی 10 محرم الحرام 4 نومبر بروز منگل کو ہو گی۔
محرم الحرام کے دوران ملک بھر میں امن امان کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جارہے ہیں۔
ملک بھر میں مجالس اور جلوسوں کی سی سی ٹی وی کیمروں اور ہیلی کاپٹرز سے نگرانی کی جائے گی۔
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاورمیں 10محرم الحرام تک دفعہ 144نافذ کر کے غیرملکیوں کاداخلہ بند کردیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں سیکورٹی انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
موٹر سائیکل کی ڈبل سواری اور شہر میں افغان مہاجرین کے داخلے پر پابندی ہوگی ۔۔
پنجاب میں موبائل فون سروس بند کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں جامع سیکورٹی پلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔
پنجاب میں 9 اور 10 محرم کو موبائل سروس بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
سیکورٹی خدشات کے باعث ضرورت پڑنے پر کسی بھی ضلع میں رینجرز یا فوج بھی تعینات کی جاسکتی ہے۔
سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حساس اداروں نے محرم کے دوران دہشت گردی کی بڑی کارروائی کاخطرہ ظاہر کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ پولیس نے محکمہ داخلہ کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں صوبے بھر میں فوج بھی تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
سندھ میں یکم سے 12محرم تک لائسنس والا اسلحہ لے کر چلنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
سندھ رینجرز کے ترجمان کے مطابق یکم سے 30محرم تک اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی ہوگی۔
خفیہ اداروں نے محرم الحرام کے دوران کراچی میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے کارروائی کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کوایٹمی طاقت ہونے کی دھمکی دینے کے بجائے ایک دوسرے کے وجودکااحترام کریں۔
الطاف حسین نے ان خیالات کااظہار کل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منعقدہ اپنی کتاب ’’فلسفۂ محبت‘‘ کے انگریزی ترجمے کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگرہم ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ لیں، مارکٹائی اور اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیں اور نفرتوں کے بجائے محبت کو پروان چڑھائیں توسارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے کہا جہاں محبت ہوگی وہاں انصاف ہوگا، مساوات ہوگی، ایمان ہوگا، نزاکت ہوگی، حسن ہوگا، تہذیب وشائستگی ہوگی، خندہ پیشانی ہوگی، عزت وتکریم ہوگی، ایک دوسرے کے دکھ درد کومحسوس کرنے کاجذبہ ہوگا۔ جہاں محبت ہوگی وہاں علم ہوگا، تاریخ ہوگی، انسانیت ہوگی، شرافت ہوگی، ایمانداری ہوگی اورکچھ لینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دینے کاجذبہ ہوگا۔ محبت اتنی طاقتورچیزہوتی ہے کہ یہ خونی رشتوں، مذہب اوروطن کی جغرافیائی سرحدکوبھی عبورکرجاتی ہے۔
الطا ف حسین نے کہاکہ ہمارے ہاں بچوں کومسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے اورحقائق سے آگاہ نہیں کیاجاتا، انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ علامہ اقبال ایک وطن پرست انسان تھے اورمتحدہ ہندوستان پریقین رکھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل اس بات سے واقف نہیں ہے کہ 1930ء کے تاریخی خطبۂ الہ آبادمیں علامہ اقبال نے یہ تجویزپیش کی تھی کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں کو آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تبدیل کردیاجائے ۔
متحدہ کے قائد نے کہا کہ جب ان کے ایک شاگردنے یہ لکھا کہ علامہ اقبال نے قیام پاکستان کاتصورپیش کیا ہے تو انہوں نے اس پر ناراضگی کااظہارکیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ قائداعظم بھی متحدہ ہندوستان کے متوالوں میں سے ایک تھے، اسی لیے انہوں نے آل انڈیانیشنل کانگریس میں شمولیت اختیارکی لیکن جب انہیں اس میں متعصبانہ سوچ کارفرما نظرآئی تو انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کامطالبہ کیا اور تقسیم ہند کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ پاکستان اورہندوستان دو الگ الگ ملک ہیں تو دونوں ملکوں کو انسانوں کاملک بن کر رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کوایٹمی طاقت ہونے کی دھمکی دینے کے بجائے ایک دوسرے کے وجودکااحترام کرنا چاہیے۔
الطاف حسین نے کہا کہ علامہ اقبال نے رام، بابا گرو نانک اور دیگر مذاہب کی شخصیات کے بارے میں بھی لکھا تاکہ مسلمانوں پر تنگ نظری کاالزام نہ لگے۔
انہوں نے کہاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی غیرمسلم نہیں رہے گا، اگرامریکہ اوربرطانیہ نے بھی یہ فیصلہ کرلیاکہ یہاں کوئی پاکستانی نہیں رہے گاتوپھرآپ کیاکریں گے؟ج
متحدہ کے قائد نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے بچوں کوابتداء ہی سے نفرت کے زہرمیں ڈوبی ہوئی تحریریں پڑھائی گئیں، جس سے ظاہر ہے کہ ان کے ذہن زہر آلود ہی ہوں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ آج اگر داعش اور ISIS جیسی تنظیمیں وجودمیں آگئی ہیں تو پھرہم پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ ہم جوبوئیں گے وہی کاٹیں گے۔
الطاف حسین نے کہاکہ مسجدوں اورامام بارگاہوں میں خودکش بم دھماکے کرکے معصوم نمازیوں کوشہیدکرنے کادرس قرآن مجید کی کس آیت اورکس حدیث مبارکہ میں دیاگیاہے؟بازاروں، مارکیٹوں، مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرز، کامرہ ،نیول بیس، جی ایچ کیو اورآئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز ، پولیس اورایف سی کے کیمپوں پر حملے کرناکونسا جہاد ہے؟ گرجاگھروں، مندروں اوردیگرمذاہب کی عبادت گاہوں کونقصان پہنچانا کس مذہبی تعلیم کے تحت کیاجارہا ہے؟
انہوں نے یاد دلایا کہ دنیا اپنے ثقافتی ورثے کاتحفظ کرتی ہے، ہم اپنے ثقافتی ورثے کوکیوں تباہ کررہے ہیں؟ دنیاچاندپر پہنچ چکی ہے اوریہ تک بتادیا جاتا ہے کہ چاندگرہن کب ہوگا مگرہم آج تک چاندنظرآنے نہ آنے کے معاملے پر جھگڑتے ہیں۔
الطاف حسین نے کہاکہ یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ بلوچستان میں معصوم پنجابیوں کوقتل کیاجارہاہے، مگر جو معصوم بلوچ مارے جارہے ہیں اس کاحساب کون دے گا؟کیا ہماری عدالتیں آزاد ہیں؟ کیا کوئی غریب آدمی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی متعصبانہ سوچ کو عملی طورپرختم کردیں تو ہم ایک پاکستانی قوم بن سکتے ہیں، ہم مارکٹائی کے عادی ہوچکے ہیں، یہاں کوئی کوئی ٹارزن، کوئی رستم زماں اورکوئی گلوبٹ بنناچاہتاہے، اگرہم ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیں اور نفرتوں کے بجائے محبت کو پروان چڑھائیں توسارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
اس موقع پر الطاف حسین نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ محبت کوعام کردے اورایساکردے کہ محبت عام ہوجائے، نفرتیں ختم ہوجائیں اورہم محبت کی زنجیرمیں بندھ جائیں، پاکستان میں پیارمحبت، امن بھائی چارہ پیداکردے، ایساماحول کردے کہ ہم جھوٹ سے پرہیزکریں، سچ بولیں، لین دین میں ایمانداری اوردیانتداری اختیارکریں، چوری چکاری سے خودبھی پرہیزکریں اوردوسروں سے بھی پرہیزکرائیں، ہم سب ایک بنیں، ملک کی حفاظت کریں، فرسودہ جاگیردارانہ نظام ، چائلڈلیبر ، کاروکاری اور خواتین کے استحصال کے خلاف جدوجہد کریں۔
انہوں نے تقریب میں شرکت پر تمام مہمانوں کاشکریہ ادا کیا اور شاندارتقریب کے انعقاد پر ایم کیوایم پنجاب کے صدرمیاں عتیق سمیت تمام ذمہ داروں اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی معروف کالم نگار حسن نثار تھے جبکہ تقریب سے سینیٹر مشاہد حسین سید، ممتاز اینکر پرسن حامد میر، سماجی کارکن ماروی سرمد، لاہور کے سینئر صحافی اورمقامی اخبارکے ایڈیٹر ذوالفقار راحت سندھو، ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹرفاروق ستار، ایم کیوایم پنجاب کے صدرمیاں عتیق اورایم کیوایم خیبرپختونخوا کے صدر بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی خطاب کیا۔
اس تقریب میں سفارتکاروں، دانشوروں، سینئرصحافیوں، کالم نگاروں، ریٹائرڈججوں، سینئر وکیلوں، تاجروں، ارکان پارلیمنٹ اوردیگرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔
اس سے قبل ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جمعیت علمائے اسلام فضل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ٹیلی فون کرکے ان کی خیریت دریافت کی۔
انہوں نے معروف سماجی رہنماء مولانا عبدالستار ایدھی سے بھی بذریعہ ٹیلی فون بات کی، اور ڈکیتی کی واردات پر ان سے اظہار ہمدردی کیا۔
مولانافضل الرحمان سے گفتگو میں الطاف حسین خودکش حملے میں مولانا کے محفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کیا، اورکہا کہ خدا نے ایک علمی خزانے اوراصولوں کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک نڈر شخصیت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔
مولانا فضل الرحمان نے اظہار ہمدردی پرالطاف حسین کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔
الطاف حسین نے معرف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی سے ڈکیتی کی واردات پر اظہار ہمدردی کرتےہوئے کہا کہ آپ نے پوری زندگی غریب، معصوم اور دکھی عوام کی خدمت میں صرف کردی، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
متحدہ کے قائد نے ڈکیتی میں ملؤث ملزمان کی فوری گرفتاری کابھی مطالبہ کیا۔
واشنگٹن: امریکا کی دفاعی و سلامتی تعاون کے ادارے (ڈی ایس سی اے) کی جانب سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے محفوظ 160 بکتر بند گاڑیوں کی پاکستان کو فروخت کی منظوری دے دی ہے۔
مرمت اور فاضل پرزہ جات کی سہولت کے ساتھ اس کی لاگت کا تخمینہ 198 ملین ڈالرز لگایا گیا ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ منظوری ایسے وقت میں دی ہے، جب کہ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان ایجنسی میں ایک بھرپور فوجی آپریشن ضربِ عضب کے عنوان سے جاری ہے، جبکہ خیبر ایجنسی میں بھی باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق حکومتِ پاکستان نے 160 نویسٹار ایم آر اے پی بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کی درخواست دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کو فاضل پرزہ جات، جانچ کے آلات، تیکنیکی دستاویزات، تربیت بھی فراہم کی جائے۔
یاد رہے کہ ایم آر اے پی بکتر بند گاڑیوں کے حصول کے امکانات اس سال مارچ میں ظاہر ہوگئے تھے، اس لیے افغانستان سے انخلاء کے ساتھ پینٹاگون نے اضافی فوجی سامان امریکی اتحادیوں کو فروخت کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
پاکستانی اور امریکی حکام کے مابین اس معاملے پر کئی مہینوں سے بات چیت کی گئی تھی اور افغانستان میں اختتام پذیر ہوتی جنگ کے ساتھ امریکانے پاکستانی درخواست کو منظور کرلیا ہے۔
اسلام آباد: حکومتی نظام کو اپنانے کے لیے پاکستان کو کسی دوسرے مسلم ملک کی جانب نہیں دیکھنا چاہیٔے، اس لیے کہ اس کا اپنا ملکی نظام ایک مکمل نظام ہے۔
یہ ایک گول میز کانفرنس کا موضوع تھا، جو یہاں ہیئنرچ بال اسٹفٹنگ (ایچ بی ایس) پر پیر کو منعقد ہوئی۔
’حکومت، برادری اور مذہب‘ پر مذاکرے کا یہ سلسلہ اسلام آباد کے مرکز برائے ریسرچ اور سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) اور ہیئنرچ بال اسٹفٹنگ (ایچ بی ایس) کی ایک مشترکہ کوشش ہے۔
انسانی حقوق کی سرگرم رہنما طاہرہ عبداللہ نے اس اجلاس میں میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
مقررین میں ترکی کے اسکالر ڈاکٹر بہلول اوزکان اور انڈونیشیا میں سابق سفیر میاں ثناء اللہ شامل تھے، جنہوں نے اسلامی نظام حکومت کے مختلف نمونوں پر عمومی اور خاص طور پر ترکی اور انڈونیشیا کے تناظر میں اپنا نکتۂ نظر پیش کیا۔
اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کو کسی دوسرے حکومتی نظام کے ماڈل کو اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیٔے۔
ڈاکٹر بہلول اوزکان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی نے پچھلے کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی کے دوران بہت سے ترکی طالبعلموں نے پاکستان سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔
تاہم ڈاکٹر بہلول نے تسلیم کیا کہ ترکی جو ایک سیکیولر ملک تھا، وہاں پر بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہمارے قانون میں ایک جرم ہے۔ لیکن انہوں مزید کہا کہ اس کے باوجود ترکی کی حکومت اسلام کا نام سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ترک اسکالر نے کہا کہ گزشتہ سال جب کوئلے کی کان میں ہلاک ہونے والے لگ بھگ تین سو کان کن ہلاک ہوگئے تھے تو حکومت نے حزبِ اختلاف کی بڑھتی ہوئی تنقید سے بچنے کے لیے ہلاک ہونے والے کان کنوں کو ’شہید‘ قرار دے دیا تھا۔
سیاست میں ترکی کی فوج کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بہلول نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو ترکی کی فوج کا سیاست میں کوئی سنجیدہ کردار نہیں تھا۔
انہوں نے کہا ’’پاکستانی فوج نے اس ملک پر تیس برس حکومت کی ہے، لیکن میرے ملک پر فوج نے مشکل سے چھ سال ہی حکومت کی۔‘‘
ڈاکٹر بہلول نے مزید کہا کہ ترکی کی سیاست میں فوج کا براہ راست اور واضح کوئی کردار نہیں ہے۔
’’لیکن ملکی معاملات میں فوج کو پسِ پردہ اہم گردانا جاتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترکی میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔
ڈاکٹر بہلول نے بتایا صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا میڈیا پر تقریباً مکمل کنٹرول ہے اور صحافیوں کے لیے حکومت کی برائیوں کو بے نقاب کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
میاں ثناء اللہ نے کہا کہ پاکستان کے لیے انڈونیشین ماڈل مناسب نہیں ہوسکتا۔
’’ہم نہیں کہہ سکتے کہ انڈونیشیا میں مکمل اسلامی یا سیکولر نظام ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ انڈونیشیا میں چھ مذہبی ریاستیں تھیں۔
میاں ثناءاللہ نے کہا کہ انڈونیشیا کے کچھ صوبے سختی کے ساتھ اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ دیگر میں اسلام کا کوئی کردار نہیں ہے۔
اسلام آباد: پاکستان نے افغانستان سے ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان(ٹی ٹی پی) کے سربراہ ملوی فضل اللہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ مولوی فضل اللہ کی حوالگی کے لیے دوبارہ معاملہ اٹھا جائے گا، افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملے نہایت اہم معاملہ ہے اس پر اعلیٰ افغان حکام سے رابطے میں ہیں تاکہ سرحد پر معاملات کو درست کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سرحد پر بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب سے معاملات مزید موثر ہونے کے امکانات ہیں۔
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنے سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے اور سرحد پار سے ہونے والی کسی بھی کارروائی کا بھر پور جواب دیا جائے گا، دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ معاملہ ہے دونوں ممالک کو اس کے تدارک کے لیے مل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہندوستان سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات 25 اگست کو طے ہے۔
ملکی کی داخلی صورتحال پر ہونے والے سوال پر انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام کو پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی جانب سے اسلام آباد میں نکالے جانے والے لانگ مارچز سے خطرہ ہے۔
قبل ازیں اسلام آباد میں پاکستان اور چین کے تھنک ٹینک سیمینار سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ چین سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے، دونوں ممالک میں تعلقات میں گرم جوشی برقرار ہے اور گزشتہ 14ماہ میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں قریبی تعاون کر رہے ہیں، پاکستان میں تمام چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال پر او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس 12اگست کو طلب کرلیا گیا ہے، او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس جدہ میں ہوگا،
انہوں نے مزید کہا کہ او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس جدہ میں ہوگا، پرنس سعود الفیصل اجلاس کی صدارت کریں گے، وزیراعظم کی ہدایت پر او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں میں شرکت کروں گا۔
شمالی وزیر ستان میں جاری ضرب عضب آپریشن کے حوالے سے مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آپریشن کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، شمالی وزیرستان کا بڑا حصہ سیکیورٹی فورسز نے کلیئر کروا لیا ہے، تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، کارروائی کے دوران تمام مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
سیمینار سے خطاب میں پاکستان میں چین کے سفیر وائی ژونگ نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوطرفہ تجارت کا حجم 6ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے، انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
وائی ژونگ کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان اور چین کو ای ٹی آئی ایم(ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ) کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا، پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں مصالحت کے لیے کام جاری رکھیں گے۔
گلاسگو: کامن ویلتھ گیمز 2014 میں پاکستان ایک اور چاندی کا تمغہ جیت گیا۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں پاکستان کے محمد وسیم کو آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے شکست دے دی جس سے آسٹریلیا کے تمغوں میں ایک اور سونے کے تمغے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
محمد وسیم نے چاندی کا تمغہ پاکستان کے نام کیا ہے جس سے پاکستان کی کامن ویلتھ گیمز میں تمغوں کی تعداد چار ہو گئی ہے جن میں تین چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل ہے، پاکستان اب تک کوئی بھی سونے کا تمغہ نہیں جیت سکا ہے۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے پاکستان کے محمد وسیم کو 28-29 ، 28-29 اور 28-29 سے شکست دی۔
انڈریو ملونے کی کامیابی کے بعد میڈل ٹیبل پر آسٹریلیا کےسونے کے تمغوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان 4 تمغوں کے ساتھ 22ویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔
کامن ویلتھ گیمز میں انگلینڈ سرفہرست ہے جس نے 50 سونے، 51چاندی اور 46 کانسی کے تمغوں کے ساتھ مجموعی طور پر 147 تمغے جیتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جس نے 42 سونے، 40 چاندی اور 44 کانسی کے تمغے جیتے ہیں اور اس کے مجموعی تمغوں کی تعداد 126 ہے۔
کینیڈا 75 تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جس نے 30 سونے، 14 چاندی اور 31 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستان کے نئے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے پہلے روز ہی پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرنی شروع کردی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نئے بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ہندوستانی فوجیوں کو قتل کیے جانے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی اشتعال انگیزی کا سخت جواب دیاجائے گا۔
نئے ہندوستانی آرمی چیف گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے 8 جنوری 2013ء کو پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر پونچھ سیکٹر میں ایک ہندوستانی فوجی لانس نائیک ہیمراج کا سر قلم کیے جانے کے واقعے کا حوالہ دے رہے تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ہندوستانی سپاہی کا سر قلم کیے جانے کا بدلہ پاکستان سے کس طرح لیا جائے گا، جنرل دلبیر سنگھ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کام کیا جا چکا ہے۔ جب ہم طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد تکنیکی، آپریشنل اور پھر حمکت عملی کی سطح پر ہوتا ہے‘۔
یاد رہے کہ انڈیا نے اپنے سپاہی ہیمراج کا سر قلم کرنے اور لارنس نائیک سدھاکار سنگھ کی لاش کی بے حرمتی کا الزام پاکستان کی اسپیشل فورسز پر لگایا تھا۔
واضح رہے کہ 2013ء سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی خلاف ورزیوں پر کشیدگی جا ری ہے۔
انڈیا نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی فوجیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے قریب اس کے دو فوجی ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے ایک کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
جبکہ پاکستان کی جانب سے بارہا اس الزام کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ ہمیشہ ہندوستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے بعد انڈین فوج کی فائرنگ سے ایک پاکستانی فوجی کی ہلاکت اور ایک کے زخمی ہونے کے واقعے پر پردہ ڈالنے کےلیے ہندوستان کی جانب سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد: حزب اختلاف کی اہم ترین جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وفاقی دارالحکومت میں امن عامہ کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کی مخالفت کر دی ہے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں تین ماہ کے لیے امن عامہ کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں جس کے رد عمل میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اس کی شدید مخالفت سامنے آئی ہے۔
پی پی پی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتی فیصلے سے ملک اور عوام کے لیے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اس سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جائے گا کہ سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو گئی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بھی معطل ہو جائے گا، درحقیقت فیصلے فوجی عدالتوں میں ہوں گے جس کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں فوج طلب کرنے کی مخالفت کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد کی صورتحال ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ خراب نہیں ہے جس کے لیے عدالتی دائرہ اختیار سے باہر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو طلب کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے آج ناکامی کا ثبوت دیا ہے ، اگر آرٹیکل 245 کے تحت آج اسلام آباد میں فوج طلب کی جا رہی ہے تو کل کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور حتی کہ پورا ملک فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور عملی طور پر ہائی کورٹس معطل ہو جائیں گی۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی بہت خراب ہے ایسے میں شہریوں کے لیے ہائی کورٹس کے دروازے بند ہونے پر صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت فوج کے حوالے کرنے سے عالمی سطح پر پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کا درست تاثر نہیں جائے گا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا ہر معاملے میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکائو نظر آتا ہے، اس فیصلے سے سول اور فوجی انتظامیہ میں تقسیم اختیارات میں مزید پیچیدگی آ جائے گی۔
فرحت اللہ بابر نے مسلم لیگ(ن) کو میثاق جمہوریت(چارٹر آف ڈیمو کریسی) کی بھی یاد دہانی کروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت کے آرٹیکل 32 سے 36 میں ان عوامل کا تذکرہ ملتا ہے جس میں سول اور فوجی انتظامیہ میں تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے سے غیر متوازن صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے 33رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
کمیٹی سابقہ الیکشن میں ہونے والی خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات کو آزادانہ، شفاف اور منصفانہ بنانے کے حوالے سے تجاویز دے گی۔
19 جون کو قومی اسمبلی اور 30 جون کو سینیٹ میں تحاریک منظور ہونے کے بعد اسپیکر کی جانب سے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
19جولائی کو یہ طے ہوا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹی میں 11ارکان ایوان بالا(سینیٹ ) اور 22ارکان ایوان زیریں(قومی اسمبلی) سے ہوں گے، جس کے لیے سینیٹ کے چیئرمین نیئر حسین بخاری کی جانب سے 11ارکان کے نام اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کیے جائیں گے جس کے بعد کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی۔
کمیٹی کی تشکیل کے لیے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے 8ارکان کے نام تجویز کیے تھے جن میں سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر ملک محمد رفیق رجوانہ، زاہد حامد، انوشہ رحمن ایڈووکیٹ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، مرتضیٰ جاوید عباسی، عبدالحکیم بلوچ اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی جانب سے سینیٹر رضاربانی، سید نوید قمر، شازیہ مری، سینیٹر اعتزاز احسن اور سینیٹر فاروق نائیک کو نامزد کیا گیا ہے۔
انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے لیے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی جانب سے شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری اور ڈاکٹر عارف علوی کے نام دئیے گئے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کی جانب سے سینیٹر کرنل ریٹائرڈ طاہر حسین مشہدی، نعیمہ کشور خان اور ڈاکٹر فاروق ستار کمیٹی میں نمائندگی کریں گے۔
حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹر میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو کمیٹی میں نمائندگی دی جائے گی۔
اسی فیصلے کے نتیجے میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالحکیم مندوخیل، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پائو، پاکستان مسلم لیگ(ضیاء) کے اعجاز الحق، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی محمد عدیل، عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے عثمان خان ترکئی، نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضی جتوئی، پاکستان مسلم لیگ(فنکشنل) کے غوث بخش خان مہر، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے سینیٹر میر اسرار اللہ زہری، فاٹا سے ہلال الرحمن، جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سینیٹر محمد طلحہ محمود اور قومی اسمبلی کے آزاد ارکان کی جانب سے سید غازی گلاب جمال کمیٹی کے ارکان ہوں گے۔ یہ قابل ذکر امر ہے کہ کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب اس کے ارکان کریں گے۔
مسلم لیگ(ن) کے ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا ہے کہ حکمران جماعت کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حصول کی خواہاں ہے جس کے لیے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد کو اہل سمجھا جا رہا ہے جو کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر قانون رہ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی تحریک چلائی جا رہی ہے اس کے تدارک کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو 10 جون کو انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز تحریری طور پر ارسال کی تھی۔
وزیر اعظم کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کمیٹی کی جانب سے ایسی ٹھوس تجاویز پیش کی جائیں جس سے آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ممکن بنایا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جن کی جانب سے اگست میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مطالبات پر ملین مارچ کی کال دی گئی ہے، نے بھی کمیٹی کے لیے اپنے ارکان کے پہلے سے تجویز کر دیئے تھے۔
اقوامِ متحدہ: پاکستان گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کی ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس 187 ممالک کی فہرست میں 146 ویں درجے پر تھا، اس سال بھی اسی درجے پر موجود ہے۔
یہ درجہ بندی متوقع زندگی کی شرح، تعلیم اور آمدنی کے اوسط کو دیکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔
ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) دراصل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ (ایچ ڈی آر) کا ایک حصہ ہے، یہ اہم اسٹڈی اقومِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے تیار کی جاتی ہے۔
یہ رپورٹ جمعرات کو ٹوکیو میں جاری کی گئی، جس کا عنوان ہے ’’انسانی ترقی کو برقرار رکھنا: خطرات کو کم سے کم اور تعمیری لچک کے ذریعے‘‘۔ یہ اس سلسلے کی 23 ویں انڈیکس ہے، جس کا آغاز 1990ء میں ہوا تھا۔
یاد رہے کہ پہلی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کی تیاری اور اشاعت پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ مرحوم ڈاکٹر محبوب الحق کی قیادت میں کی گئی تھی۔
اس ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے کہ قدرتی آفات کے باعث بیس کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں، اور چار کروڑ پچاس لاکھ افراد جن میں اٹھارہ برس کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، 2012ء کے آخر تک مختلف تصادموں کے نتیجے میں بے گھر ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔
یہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے انسانی ترقی میں بہتری کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔
ہندوستان 135 ویں درجے پر پہنچا ہے، بنگلہ دیش چار درجے آگے بڑھ کر 142 ویں درجے پر ہے، سری لنکا 73 ویں درجے پر ہے، جبکہ یہ پچھلے سال 92ویں درجے پر تھا، مالدیپ ایک درجہ بلند ہوکر 103 کے درجے پر ہے، نیپال 157 ویں درجے سے آگے بڑھ کر 145 ویں درجے پر پہنچ گیا ہے اور بھوٹان چار درجوں کی ترقی کی ہے اور وہ 140ویں درجے پر ہے۔
ناروے اپنے بہترین معیارِ زندگی کی وجہ سے سرِ فہرست ہے، اس کے بعد آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ کا نمبر ہے۔
برکینا فاسو، اریٹیریا، چاڈ اور موزمبیق اس فہرست میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان نے اسرائیلی کی جارحیت کے خلاف سرکاری سطح پر غزہ سے یوم یکجہتی منانے کا اعلان کیا ہے۔
فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لیے جمعہ کے روز پاکستان میں یوم سوگ منایا جائے گا، سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
غزہ کی صورت حال پروزیراعظم نوازشریف کی جانب سے یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف نے غزہ کے متاثرین کے لیے 10لاکھ ڈالر امداد دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ پر اسرائیل نے 7 اور 8 جولائی کی درمیان شب سے حملے شروع کیے تھے، اسرائیلی جارحیت کو 17 دن مکمل ہونے کو ہیں اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد 747 تک جا پہنچی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے اس کے باوجود غزہ پر جارحیت کا سلسلہ نہیں رک سکا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
حماس نے بھی اسرائیل کی جانب سے آٹھ سال سے جاری غزہ کا محاصرہ ختم نہ کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
ادھر اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ حماس اس کے لیےایک مضبوط دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹینینٹ کرنل پیٹر لرنر نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ حماس کے جنگجو تربیت یافتہ ہیں، ان کے حوصلے بلند ہیں، ہمارا مقابلہ ایک مضبوط دشمن سے ہے۔
یاد رہے کہ چار روز قبل ہی اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائی کا آغاز کیا تھا، ان چار دنوں میں ہی اسرائیل کے 30سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ گزشتہ چند سالوں میں اسرائیل کا بڑا نقصان بتایا جا رہا ہے اس کے علاوہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کے یرغمال بنائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں مگر اس کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
واشنگٹن: پاکستان کے اعلٰی سطح کے سرکاری نمائندوں نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے وزٹ کے دوران امریکا و پاکستان کے سینئر حکام نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کا جائزہ لیا۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی اور امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ بل برنز کے درمیان ایک اجلاس کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے پاکستانی عزم پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
امریکیوں نے شکایت کی کہ پاکستان نے حقانی عسکریت پسندوں کو آپریشن شروع ہونے سے پہلے افغانستان فرار ہونے کی اجازت دی تھی۔ طارق فاطمی نے اس پر امریکیوں کو یقین دلایا کہ قومیت، نسل یا گروپ سے وابستگی سے قطع نظر فوج تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنارہی ہے۔
جبکہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے طارق فاطمی نے واضح کیا کہ آپریشن ضربِ عضب میں ایک لاکھ پچھتر ہزار سے زیادہ سپاہی شریک ہیں، اور اس طرح کا بہت بڑا آپریشن خاموشی کے ساتھ شروع نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ فوج کی نقل و حرکت اور دیگر تیاریوں نے ممکن ہے کہ کچھ عسکریت پسندوں کو خبردار کردیا ہو اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے شمالی وزیرستان چھوڑ دیا ہو۔
طارق فاطمی نے کہا کہ ’’لیکن حکومت نے کسی کو بھی فرار کی اجازت نہیں دی۔ ہمارے فوجی تمام طالبان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنارہے ہیں، چاہے وہ افغان ہوں یا پاکستانی۔‘‘
واضح رہے کہ طارق فاطمی ایک ہفتے کے دورے پر واشنگٹن پہنچےہیں، ان سے پہلے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک نے بھی شمالی وزیرستان کی کارروائی پر امریکی دفاعی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا تھا۔
آصف یاسین ملک کے دورے کے دوران پاکستان کے ایک سینئر دفاعی اہلکار نے امریکی میڈیا کو بریفنگ دی تھی اور ایسوسی ایٹڈ پریس رپورٹ کے مطابق اسے مطلع کیا تھا کہ اسلام آباد نے واشنگٹن پر زوردیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے انخلاء کے شیڈول پر نظرثانی کرے۔
مذکورہ اہلکار نے کہا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ امریکا افغانستان سے اپنے تمام فوجی 2016ء کے آخر تک نکال لے اور انہوں نے امریکیوں کو یاد دلایا کہ انہوں نے افغانستان میں ابھی تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس ملک میں ان کے قیام کی ضرورت باقی ہے۔
جب طارق فاطمی سے اس بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا ’’پاکستان کی جانب سے کسی بھی رہنما نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، اسی بناء پر پاکستان امریکیوں کو ایسا کوئی مشورہ نہیں دینا چاہتا کہ وہ وہاں قیام کریں یا انخلاء کرجائیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اس میں کوئی فائدہ نہیں وہ امریکا سے یہ کہیں کہ اس نے افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں، یا نہیں۔
واشنگٹن میں سرکاری اور سفارتی حلقوں نے اس معاملے پر پاکستان کے خارجہ آفس اور وزارتِ دفاع کے نکتہ نظر میں واضح اختلاف کا نوٹس لیا ہے۔
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستانی فوج یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے آپریشن کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ امریکی افواج سرحد کے دوسری جانب موجود رہے، جبکہ سول قیادت بظاہر اس غیر مقبول مطالبے کو سیاسی تحفظ دینے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔
تاہم سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس نکتہ نظر پر اتفاق موجود ہے کہ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے لیے امریکی حمایت جاری رہنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی دفاعی اہلکار کی طرح طارق فاطمی نے بھی امریکی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کو زرتلافی کی ادائیگی کے لیے نیا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کی اس آپریشن کے دوران ہونے والے اخراجات کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔
دونوں ہی نے امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ کا حوالہ دیا، جسے پاکستان کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، یہ فنڈ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ اس آپریشن کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک اور فنڈ قائم کیا جائے۔
اس کے علاوہ طارق فاطمی نے کہا کہ امریکا اور پاکستان نے ان تجاویز پر پہلے ہی تبادلۂ خیال کرلیا تھا کہ طالبان سے مقابلے کے لیے پاکستان کو کون کون سے ضروری سامان اور ہتھیاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ بل برنز کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران طارق فاطمی نے اس عزم کو مزید تقویت دی کہ پاکستان افغانستان اور ہندوستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بل برنز نے خطے میں پاکستان کے مستحکم کردار کی تعریف کی اور وزیراعظم کے اقتصادی ترقی کے منصوبے، جس میں توانائی کے بحران اور انتہاء پسندی سے نمٹنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ امن کے لیے پہل کرنے کی بھی تعریف کی اور کہا کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے عوام کو خوشحال بنانے میں مدد دے گا۔
طارق فاطمی نے تصدیق کی کہ امریکا داسو ہائیڈرو پروجیکٹ سمیت پاکستان کے توانائی کے بڑے پروگراموں کی مدد جاری رکھے گا۔
اس ملاقات میں امریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اور افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ڈین فیلڈمین بھی شریک تھے۔
واشنگٹن: ملک کے سب سے اعلٰی سطح کے سفارتکار کا کہناہے کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کو باقاعدہ بنانے اور ایک دوسرے کی شکایات دور کرنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق پر کام کررہے ہیں۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ پاکستان امریکا سے توقع رکھتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کیے جانے والے اخراجات میں اپنا حساب بے باق کردے گا۔
وزارت برائے خارجہ امور نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے طارق فاطمی نے کہا کہ اس سال کے آخر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی اور ہندوستانی وزیراعظم کے درمیان ملاقات کا پاکستان خیر مقدم کرے گا۔
مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ اس موقع پر تمام متعلقہ امور کا احاطہ کیا جائے گا، مثلاً دونوں فرقین کو ایک دوسرے سے پیدا ہونے والی شکایات، سرحدی انتظام، دونوں ملکوں کی افواج اور ان کے سیکیورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون میں توسیع دینے پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ پسند کرے گا کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں سے نمٹنے پر جو اخراجات ہورہے ہیں، امریکا ان کی ادائیگی کرے۔
اب تک امریکا کی جانب سے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے ذریعے یہ ادائیگی کی جارہی تھی، جسے اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ افغانستان سے متوقع امریکی انخلاء کے بعد ختم ہوسکتا ہے۔
طارق فاطمی نے کہا ’’اب بھی اگر امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد مزید ایک یا دو سال کے لیے نامکمل رہ جاتے ہیں اور اگر پاکستان کو ان خدمات کی فراہمی جاری رکھنی پڑتی ہے تو ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان اخراجات کی ادائیگی جاری رکھی جائے گی۔‘‘
انہوں نے امریکی میڈیا کی اس رپورٹ کی تردید کی کہ پاکستان نے امریکا سے کہا تھا کہ وہ اپنے انخلاء کے منصوبے پر نظرثانی کرے، اس لیے کہ اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ امریکی افواج دونوں ملکوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت افغانستان میں تعینات کی گئی تھی، اور ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس پر تبصرہ کریں کہ انہیں کتنا عرصہ رکنا چاہیٔے یا نہیں رکنا چاہیٔے۔
ان کا کہنا تھا ’’حکومتِ پاکستان نے کبھی امریکی افواج کی تعیناتی کے سلسلے میں عوامی یا نجی سطح پر کسی قسم کا ترجیحی بیان نہیں دیا ہے۔‘‘
تاہم امریکی میڈیا نے پاکستان کے ایک سینئر دفاعی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اسلام آباد نے واشنگٹن سے کہا تھا کہ وہ اپنے انخلاء کے شیڈول پر نظرثانی کرے۔
طارق فاطمی نے ان قیاس آرائی کو مسترد کردیا کہ اگر امریکا کے افغانستان میں طویل قیام سے پاکستانی فوجی کارروائی میں مدد ملے گی، تو اس آپریشن کا آغاز 2010ء میں زیادہ بہتر ہوتا جب کہ افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی کئی سالوں کے لیے تھی۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ یہ کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بنیادی مقاصد حاصل نہیں کرلیے جاتے۔
’’عسکریت پسندوں کی سیاسی وابستگی، نسل و قومیت کے حوالے سے کوئی تفریق یا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ تمام عسکریت پسند نشانے پر ہیں اور اس آپریشن کے مقاصد جب تک حاصل نہیں ہوجاتے، اسے طویل عرصے تک جاری رکھا جائے گا۔‘‘
طارق فاطمی نے وضاحت کی کہ اس کے دوسرے مرحلے میں تعمیر نو پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور پناہ گزینوں کی دوبارہ آباد کاری کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ’’یہ ایک طویل، مشکل اور مہنگی کارروائی ہے، لیکن اگر ملک کو ایک جدید، اعتدال پسند اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر سامنے لانا ہے تو یہ کارروائی کی جائے گی۔‘‘
امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نےحقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں کو فاٹا سے فرار کی اجازت دی تھی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق فاطمی نے کہا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر کیا جانے والا فوجی آپریشن کسی خلاء میں نہیں شروع کیا جاسکتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’’لوگ فوجی دستوں اور آپریشن کے دیگر عناصر کی نقل و حرکت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ فرار ہوگئے ہیں، لیکن جہاں تک پالیسی کا معاملہ ہے یہ بات وضاحت سے بیان کردی گئی تھی کہ رنگ و قومیت سے قطع نظر تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘
طارق فاطمی نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے، عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے افغانستان سے درخواست کی تھی کہ جب بھی ممکن ہو وہ اپنے علاقے میں انہیں پکڑے۔
انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کو شکست دینے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی سرحد کے دوسری جانب اس قسم کی دوطرفہ کارروائی ضرروی ہے۔‘‘
مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی نے کسی کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا اور اس وقت جنوبی ایشیا میں انہوں نے بھی اس کا احساس کرلیا ہےاور اپنی پالیسیوں میں ایک انقلابی طرز کی تبدیلی پیدا کرلی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر کی دعوت پر افغانستان میں ان کے حالیہ وزٹ کے دوران دونوں فریقین نے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ پر اتفاق کیا تھا، جو ایک دوسرے کی شکایات کی جانچ پڑتال کرے اور انہیں دور کرنے لیے اقدامات اُٹھائے۔