• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

خصوصی بچوں کی سپر ہیرو مائیں

رابعہ کی 'پرنسز ایلسا'

رابعہ اور ان کی 'اپرٹ سنڈروم' کا شکار بیٹی عالیہ ایک مثالی بندھن کی بہترین مثال ہیں

میٹرنٹی وارڈ میں خاموشی طاری رہی اور پھر نروس سرگوشیاں ہونے لگیں۔

اپنی بیٹی کی پیدائش کے لمحے کو یاد کرتے ہوئے رابعہ عزیز بتاتی ہیں کہ " نرسز خوفزدہ نظر آرہی تھی، مجھے آپریشن کی اسکرین کے پیچھے کسی قسم کی گھبراہٹ کا احساس ہورہا تھا اور پھر انہوں نے پوچھا ' کیا آپ اپنی بچی کو دیکھنا چاہیں گی؟' "

ننھی عالیہ عجیب شکل کی کھوپڑی کے ساتھ پیدا ہوئی، ہاتھوں کی انگلیاں غائب اور پیروں کی انگلیاں جڑی ہوئی تھیں، یہ کھوپڑی اور ہاتھوں کے پیدائشی نقص ‘اپرٹ سنڈروم' Apert syndrome کی واضح علامات تھیں، یہ ایسا جینیاتی مرض ہے جو 65 ہزار میں سے ایک بچے کو متاثر کرتا ہے۔

رابعہ کے بقول " کیا آپ کو ایسی راتوں کا تجربہ ہوا ہے جو گزر جاتی ہیں اور آپ کو یاد نہیں رہتا کہ نیند کیسی تھی؟ ایسا ہی تین سال تک میرے ساتھ ہوا"۔

اس نقص سے متاثرہ بچوں کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تو اگر رات کو ان کی نگہداشت نہ کی جائے تو دم بھی گھٹ سکتا ہے، اپنے ہاتھوں کی حالت کی وجہ سے عالیہ اپنے بستر سے ٹیک بھی نہیں لگاسکتی تھی۔

جسمانی رکاوٹوں یا اپنے ہاتھوں کی حالت کی وجہ سے وہ نیچے گرتے ہوئے خود کو سنبھال نہیں سکتی تھی، اسے سیڑھیوں پر اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی۔

اگرچہ Apert سے متاثرہ اکثر بچے بات کرسکتے ہیں، تاہم عالیہ کے اندر زبان اور بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوسکی، اس کی آواز مدھم بڑبڑاہٹ کی طرح ہونے کے باعث وہ ہاتھوں اور تاثرات کے ذریعے دیگر تک اپنی بات پہنچاتی۔

رابعہ بتاتی ہیں " یہ بہت دل توڑ دینے والا تجربہ ہوتا ہے جب آپ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کا بچہ کیا کہنا چاہتا ہے"۔

اور معاملہ جسمانی چیلنجز تک ہی محدود نہیں تھا۔ رابعہ کو لوگوں کے ردعمل سے بھی لڑنا پڑا۔ ایک مقامی ڈاکٹر نے خاص طور پر عالیہ کی حالت میں بہتری کے امکان کو مسترد کردیا تھا۔

رابعل کے مطابق " اس کا کہنا تھا کہ اسے بس محبت اور شفقت دی، یقیناً میں نے اسے یہ سب دیا مگر میں اپنی حد تک ہرممکن بہترین چیز دینے کی خواہشمند تھی"۔

مگر رابعہ نے ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ " لوگوں کے تمسخر نے مجھے مضبوطی دی، لوگوں کی نظریں بھی میری ہمت نہیں توڑ سکیں۔"

"یہ بہت بڑی آزادی ہوتی ہے جب آپ یہ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں کہ دیگر افراد آپ کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں"۔

تو کس طرح اس ماں نے جس کی بیٹی کو اضافی نگہداشت کے لیے توانائی کے ہر ایک ذرے کی ضرورت تھی، نے اپنے اندر حیران کن قوت ارادی کو دریافت کیا؟ اور کس طرح ننھی عالیہ مشکلات سے گزرنے میں کامیاب رہی؟

رابعہ اپنی زچگی کے لمحات میں واپس کھو جاتی ہیں اور شوہر کے الفاظ ان کے ذہن میں گونجتے ہیں۔

ہماری بچی Apert syndrome کے ساتھ پیدا ہوئی تھی جو دیکھنے میں واضح تھا، اور میرے شوہر نے مجھ سے کہا ' ہم اسے ایسے ہی بیان کریں گے جیسا یہ ہے' ، یہ وہ سہارا تھا جس کی رابعہ کو ضرورت تھی۔

رابعہ نے پھر سے عالیہ کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔

"ہم نے اس سماجی رکاوٹ یا سوچ کو توڑا کہ لوگ کیا کہیں گے؟"


" لوگوں کے تمسخر نے مجھے مضبوطی دی، لوگوں کی نظریں بھی میری ہمت نہیں توڑ سکیں۔"



رابعہ نے عالیہ کے نقص کے حوالے سے خود کو درپیش چیلنجزکا ذکر 800 الفاظ پر مبنی اپنی فیس بک پوسٹ میں کیا۔ انہوں نے لکھا کہ "میرے سینے میں ایسے تیز درد کا احساس ہوا جیسے کسی نے میرے دل کو ٹکڑے کرنے والی مشین میں ڈال دیا ہو"۔

انہوں نے اپنے اندرونی عدم تحفظ کا سامنا کیا۔ "مجھے یاد ہے کہ این آئی سی یو میں عالیہ کی نگہداشت کرتے ہوئے سوچتی تھی کہ آخر وہ کیوں؟ آخر میری بچی ہی کیوں؟ میں نے خدا سے اسے کسی بھی طریقے سے ٹھیک کرنے کی دعا کی، بالکل ایسا بنانے کی جیسی میں ہوں۔ مجھے خود ڈر تھا اور سب سے زیادہ ڈر مجھے چیلنج سے تھا"۔

رابعہ نے اپنی بیٹی سے مضبوطی حاصل کی اور ان کی تحریر جذباتی ابال سامنے لانے کا ذریعہ بن گئی۔ "عالیہ صرف دو ماہ کی تھی اور اس نے مجھے بہت کچھ سیکھا دیا تھا، بے غرضی، دردمندی اور ایک حیرت انگیز ارادہ"۔

رابعہ کے مطابق " اس نے مجھے سیکھایا کہ مزید گہرائی میں جاﺅ اور مزید وسائل کی دوبارہ تلاش کرو، اس نے مجھے دکھایا کہ کوئی بھی جدوجہد بے معنی نہیں ہوتی، اس نے مجھے مقصد دیا اور مجھے زیادہ لچکدار بنایا"۔

یہ ایک جذباتی اور روح پر بوجھ ختم کرنے کا اعتراف نامہ تھا اور اس کا جادوئی ردعمل سامنے آیا۔ سینکڑوں لائیکس، کمنٹس اور پیغامات رابعہ کی ٹائم لائن پر سیلاب کی طرح آئے۔

آن لائن اور گھر پر خاندان کی اس سپورٹ نے رابعہ کو مزید شیئر کرنے کے لیے پرعزم کیا اور جلد ہی وہ عالیہ کے سفر کے نام سے بلاگز لکھنے لگیں۔ انہوں نے عالیہ کی پہلی بڑی سرجری سے قبل اور بعد کی تصاویر شیئر کیں، اس ایک گھنٹے کی سرجری کے دوران ڈاکٹروں نے عالیہ کی انگلیوں اور پیروں پر کام کیا اور لوگوں نے اس ننھی جنگجو کو سراہا۔

عالیہ کی مزید تصاویر بھی ہیں جس میں اس کی معجزانہ صحت یابی، شاپنگ مراکز کے خوش باش دورے، ہالووین کاسٹیومز اور اس بچی کی زندگی کے دیگر سنگ میل شیئر کیے گئے ہیں۔

رابعہ عالیہ کے بارے میں پوری سچائی سے بات کرتی ہیں اور اپنے دوستوں کو بیٹی کی خصوصی دنیا میں خوش آمدید کہتی ہیں، اپنی ایک اپ ڈیٹ میں انہوں نے لکھا " میری انگلیوں سے محروم بے خوف بیٹی ایک ڈائنامک شخصیت ہے"۔

یہ پوسٹس وائرل ہوئیں " کراچی میں لوگ جاننے لگے کہ یہاں ایک لڑکی عالیہ ہے جو اس عارضے کا شکار ہے، اس سے قبل وہ باہر جاتی تھی تو اسے ایک ایسی بچی کے طور پر جانا جاتا جس کی انگلیاں نہیں"۔

" پہل نظر میں وہ ہچکچاہٹ اور خوف کے شکار ہوتے، وہ حیران ہوتے کہ اس کے ہاتھوں، سر اور آنکھوں کے ساتھ کیا ہوا ہے"۔

" مگر جب وہ اس کی مسکراہٹ دیکھتے تو فوراً ہی اسے سراہتے"۔

رابعہ عالیہ کی کشادہ مسکراہٹ کو ' پیک مین اسمائل' قرار دیتی ہیں۔ "جب بھی وہ تکلیف میں ہو یا اسکول میں کسی بچے نے اسے مارا ہو، اگلے ہی لمحے ایک بڑی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آجاتی ہے"۔

" یہ چیز میرے مسائل کو بہت چھوٹا کردیتی ہے، اس کی مسکراہٹ میرا حوصلہ ہے، وہ ایک محبت کا مقناطیس ہے"۔

تحقیق اور لکھنا رابعہ کے مقاصد بن چکے ہیں اور اب وہ پاکستان میں Apert syndrome کے دیگر مریضوں تک رسائی حاصل کررہی ہیں۔ " میں نے اب تک کراچی، لاہور اور ملتان کے لوگوں سے رابطہ کیا ہے"۔

گزشتہ سال انہوں نے فیس بک پر ایک آن لائن فورم ' اسپیشل نیڈز پاکستان' متعارف کرایا جو کہ اب ایسے والدین کا پلیٹ فارم بن چکا ہے جو اس مسئلے کا سامنا کررہے ہیں۔ " کیا بہن بھائی اپنے ایسے بہن بھائیوں کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں جنھیں اضافی توجہ کی ضرورت ہے؟"

رابعہ نے یہ بات اس فورم کے لگ بھگ دو ہزار اراکین سے ایک فیس بک پوسٹ میں پوچھی، جس پر والدین نے مختلف طرح کے تجربات بیان کیے۔

اس حوالے سے لوگوں کی بہن بھائیوں کو ذمہ داری سونپنے کے حوالے سے منقسم تھی اور بحث میں ایک دوسرے کے خلاف ہونے کے باوجود آخر میں وہ ایک دوسرے کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہے ۔

بچی کی پیدائش سے قبل رابعہ کے ایک کاروبار کے حوالے سے بڑے منصوبے تھے مگر عالیہ نے انہیں بدل دیا، اس نے رابعہ کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

"وہ ایک حیرت انگیز بچی اور عطیہ خداوندی ہے، اس نے مجھے زیادہ درد مند فرد بنادیا ہے، اس نے زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بدل دیا ہے، یہ کوئی دوڑ نہیں، یہ کوئی مقابلہ نہیں، ہم سب ایک مصنوعی زندگی میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نے عام چیزوں کی خوبصورتی کو فراموش کردیا ہے"۔

فیس بک پر رابعہ کی پہلی پوسٹ کواب تین سال ہوچکے ہیں اور وہ عالیہ کے لیے اس دوڑ میں قیادت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خوش قسمتی سے امریکا میں آپریشنز کے بعد عالیہ کو انگلیاں مل گئی ہیں اور وہ چیزیں پکڑنے کے قابل ہوگئی ہے " وہ اب خود اپنا دودھ پی لیتی ہے، وہ کانٹے سے کھانا بھی کھانے لگی ہے، اب وہ وائٹ بورڈ پر لائنیں بھی گھسیٹ لیتی ہے، ڈیڑھ برس کے مزید علاج کے بعد وہ ایک دن چلنا بھی شروع کردی گی"۔

وہ اپنی بیٹی کے لیے حیران کن حد تک سخت محنت کرتی ہیں۔ وہ ایک مثالی ماں بیٹی کے تعلق کی مثال ہیں۔

رابعہ کا کہنا ہے کہ " ہمارا مقصد اسے خودمختار بنانا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ وہ کسی کو مدد کے لیے پکارے، میرے لیے وہ تکلیف دہ وقت ہوتا ہے جب وہ کسی اجنبی سے سیڑھی چڑھنے کے لیے مدد مانگتی ہے، مجھے توقع ہے کہ جو اعتماد میں اس کے اندر پیدا کرنا چاہتی ہو وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی"۔

تین سالہ عالیہ مختلف پہلوﺅں سے ایک عام بچے کی طرح ہی ہے، وہ بچوں اور بڑوں دونوں میں مقبول فروزن کی 'پرنسز ایلسا ' جیسے ملبوسات پہننا پسند کرتی ہے اور اکثر اس سے ملنا ہو تو وہ نیلے لباس میں ہی ملتی ہے۔ اسے بولی وڈ میوزک اور ٹی وی کے سامنے ناچنا پسند ہے اور یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

اگرچہ عالیہ ایک چیلنج بھری زندگی گزاری رہی ہے مگر اس امر نے اسے پیدائش کے دن سے ہی ایک فائٹر بنادیا ہے، اپنی ماں کی مضبوط سپورٹ کے ساتھ وہ پورے حوصلے کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔

اپنی بیٹی کے لیے جدوجہد کرتی ماں

ڈاکٹرز نے کہا کہ فاطمہ کبھی بات نہیں کر سکے گی مگر اس کی ماں سے یہ کر دکھایا

سندس حمزہ اور فاطمہ کا ایک فیملی فوٹو
سندس حمزہ اور فاطمہ کا ایک فیملی فوٹو

فاطمہ رضا کی پہلی سالگرہ کے ایک ہفتے بعد والدین کو معلوم ہوا کہ ان کی بچی بہری ہے۔

اس دن سے قبل انہیں ہلکا سا شائبہ تک نہیں تھا کہ فاطمہ اس عارضے جیسا ڈاکٹروں کے مطابق مکمل طور پر قوت سماعت سے محروم ہے۔ اس کی والدہ سندس منیر کہتی ہیں کہ وہ بچوں کی طرح بات چیت اور ایسے کھلونوں سے کھیلتی جو موسیقی کی آوازیں پیدا کرتے جیسے دیگر بچے کرتے ہیں۔

جو چیز وہ اس وقت سمجھنے سے قاصر رہے وہ یہ تھی کہ فاطمہ کھلونوں کے روپ پر ردعمل ظاہر کرتی تھی جیسے کوئی چمکتی لائٹ یا آنکھ وغیرہ اور آواز سننے سے قاصر رہتی تھی۔

سندس نے بچی کا ٹیسٹ کروایا " ٹیسٹ کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ فاطمہ کچھ بھی نہیں سن سکتی، تو اگر وہ کسی جیٹ انجن کے برابر بھی کھڑی ہو تو ہوسکتا ہے کہ اسے نہ ہونے کے برابر کچھ سنائی دے جائے"۔

اس انکشاف نے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا، اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خدشات کی تصدیق کے لیے دوسرا ٹیسٹ کرایا اور فاطمہ پیدائشی بہری ثابت ہوئی۔

سندس اس انکشاف پر اپنے احساسات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں۔ " صدمے کے باعث مجھ سے کچھ بولا نہیں گیا"۔


'گزشتہ سال تک تو فاطمہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھ سے بہری کا لفظ تک بولا نہیں جاتا تھا، مگر اسے قبول تو کرنا تھا، آپ کو یہ لفظ استعمال کرنا اور اس کی اصطلاح کو سمجھنا ہوتا ہے، اگر میں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی تو میری بیٹی خود اس حالت میں خود کو سنبھال پاتی؟'



سندس کے ذہن میں اپنی بیٹی کے مستقبل کے حوالے سے تشویشناک خیالات چھانے لگے، کیا وہ کبھی کسی عام اسکول میں جاسکے گی؟ کیا وہ سالگرہ کی تقریبات میں جاکر لطف اندوز ہوسکے گی؟ کیا وہ دوست بناسکے گی؟ کیا اسے بدزبانی کا سامنا تو نہیں ہوگا؟

وہ بتاتی ہیں 'گزشتہ سال تک تو فاطمہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھ سے بہری کا لفظ تک بولا نہیں جاتا تھا، مگر اسے قبول تو کرنا تھا، آپ کو یہ لفظ استعمال کرنا اور اس کی اصطلاح کو سمجھنا ہوتا ہے، اگر میں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی تو میری بیٹی خود اس حالت میں خود کو سنبھال پاتی؟

فاطمہ کھیل میں مشغول ہے
فاطمہ کھیل میں مشغول ہے

سپورٹ گروپس یا رہنمائی نہ ہونا بھی سندس کی ہمت توڑ نہ پائی۔ انہوں نے ڈاکٹر کے اس خیال کو مسترد کردیا کہ فاطمہ کبھی بی بولنے کے قابل نہیں ہوسکے گی اور انہوں نے فوری طور پر ریسرچ کے آپشن کو اختیار کرلیا۔

"ہم نے یہ سمجھنے کے لیے 40 ہزار پاﺅنڈ خرچ کرسکتے تھے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہوا، مگر ہم نے زندگی میں آگے بڑھنے پر سرمایہ کاری کا انتخاب کیا"۔

سندس اور ان کے شوہر نے فاطمہ کے اندر ایسی ڈیوائس لگوانے کا فیصلہ کیا جو کان کے متاثرہ حصے میں کام کرکے آواز کے سگنلز دماغ تک پہنچاتی ہے " ہم امریکا یا انڈیا سے سرجری کروا سکتے تھے مگر ہم کچھ غلط ہونے پر ایک سے دوسرے ملک میں بھاگنا نہیں چاہتے تھے، ہم نے یہ کام پاکستان میں ڈاکٹر سہیل اعوان سے کرانے کا فیصلہ کیا جن کا 600 سرجریوں میں کامیابی کا 98 فیصد ریکارڈ ہے"۔

وہ اس لمحے کے بارے میں بتاتی ہیں جب فاطمہ نے زندگی میں پہلی بار آواز سنی " وہ ہم سب کے لیے بہت جذباتی لمحہ تھا، ڈاکٹر نے ڈیوائس کو آن کیا اور میز کو کھٹکھٹایا، فاطمہ نے ردعمل ظاہر کیا اور اس کے بعد رونے لگی۔ ہم سب رونے لگے"۔

اشاروں کی زبان پر انحصار کرنے اور بولنے سے قاصر فاطمہ اس آپریشن کے تین سال بعد بولنے اور سننے لگی۔ اس نے آغاز میں اس ڈیوائس کو نہ پہننے کی خواہش پر قابو پالیا اور اب اسے وہ رات کو سونے سے قبل چارج کرنے کے لیے ہی اتارتی ہے۔

سندس بتاتی ہیں " اس کی حس سماعت اب ٹھیک ہے، میری بہری بیٹی اب نرسری کی نظمیں بھی گاسکتی ہے اور پورے جملے بول سکتی ہے"۔

وہ ایک ضدی بچی ہے، اور یہ اس کے کام آیا ہے کیونکہ وہ ایک فائٹر ہے۔ آپ اسے کسی بھی صورتحال میں ڈال دے، وہ اسے بتدریج قبول کرکے اس سے باہر نکل آتی ہے"۔

اگرچہ ابھی بالکل واضح انداز سے بول نہیں پاتی مگر سندس کا کہنا ہے کہ اس کام میں پیشرفت ہورہی ہے۔ فاطمہ زبردست لپ ریڈر ہے اور اس کی ماں مذاق میں کہتی ہے کہ ایک ایف بی آئی ایجنٹ کے طور پر اس کا کیرئیر شاندار ہوسکتا ہے۔

سندس کے مطابق " ہم سب کہتے ہیں کہ ہم ہی کیوں؟ مگر اس طرح کے حالات ہمیں دردمندی اور مضبوط بننا سیکھاتا ہے تو آخر ہم کیوں نہیں؟"۔

معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والی بیٹی کی ماں کی حیثیت سے سندس سمجھتی ہیں کہ والدین ایک مشکل مرحلے سے گزرتے ہیں " آپ روتے ہیں مگر آپ کو اس کیفیت پر قابو پانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے بچے کی مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے"۔

سندس اس وقت فاطمہ کے تعلیمی سلسلے کے لیے لڑ رہی ہیں کیونکہ متعدد اسکول سماعت کی محرومی کے شکار بچوں کو اپنانے سے انکار کردتیے ہیں۔

اس حوصلہ شکن چیلنج سے نبردآزما ہونے ساتھ ساتھ سندھ فاطمہ کے بولنے اور اعتماد بڑھانے کے حوالے سے سخت محنت کررہی ہیں تاکہ وہ اپنی عمر کے دیگر بچوں کی بھرپور مسابقت کرسکے۔

امیرہ کی ہیرو

امیرہ کی ماں مہرناز نے میڈیسین میں اپنا کیرئیر ختم کرکے بیٹی کی نگہداشت کی کیونکہ اس کے سامنے ہر چیز بے معنی تھی


چار سالہ امیرہ کو موسیقی پسند ہے۔ مہرناز اس بات سے واقف ہیں، جب کوئی بھی ان کی بیٹی کے لیے گاتا ہے یا کسی میوزیکل کھلونے کو چلاتا ہے تو وہ بھی بتاسکتی ہیں کہ امیرہ اس سے لطف اندوز ہورہی ہے۔

مہرناز کے مطابق " کوئی بھی گانا ہو، وہ بہت انہماک سے سنتی ہے، وہ ایسے سنتی ہے جیسے سب کچھ سمجھ رہی ہو"۔

امیرہ اور مہرناز
امیرہ اور مہرناز

جب مہرناز کا بیٹا باغ میں کھیل رہا ہوتا ہے تو امیرہ اپنی وہیل چیئر پر بیٹھ کر اسے دیکھتی رہتی ہے، وہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے پاتی جس میں اسے خود حرکت کرنا پڑتی ہو۔

مہرناز بتاتی ہیں " مجھے لگتا ہے کہ وہ پورا دن خود کو قید میں محسوس کرتی ہے"۔

جب وہ اپنی بیٹی کو باہر لے جاتی ہیں تو لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ قیدی ہو۔

مگر مہرناز کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ امیرہ کی معذوری کوئی ایسی چیز ہے جس پر شرمندہ ہوا جائے۔

وہ کہتی ہیں " ہم اپنی بچی کو چھپاتے نہیں، یہ ہماری غلطی نہیں بلکہ خدا کی مرضی ہے اور چھپانے سے کوئی مدد نہیں ملے گی"۔

2012 میں جب مہرناز ہنگامی حالات میں ڈیڑھ سالہ امیرہ کو لے کر ہسپتال پہنچی تو وہ فکرمند تھیں، ہاں مگر انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ یہ کوئی بہت زیادہ سنگین مسئلہ ہوسکتا ہے۔ امیرہ کو بخار تھا اور طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر پھر حالات بگڑنا شروع ہوگئے اور اسے سزیر 'seizure' کا مرض لاحق ہوگیا جو بڑھتا چلا گیا۔

ایک ہفتے تک بیمار رہنے کے بعد ڈاکٹروں کو احساس ہوا کہ ان کی ابتدائی تشخیص درست نہیں تھی، جس پر امیرہ کو فوری طور پر دوسرے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی بیماری کی جڑ کو فوری پکڑ لیا گیا کہ اس کا دماغ مکمل طور پر متاثر ہوچکا ہے۔

مہرناز کو اس وقت پہنچنے والے اس صدمے کی کیفیت یاد ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ" میں نے اس وقت دیوار پر سر مارنا شروع کردیا تھا، تصور کریں کہ اچانک بیٹھے بیٹھے بچے کو بخار ہوجائے اور پھر اسے seizure ہو، میں حس مزاح سے محروم ہوگئی تھی"۔

جس چیز سے مہرناز کو سب سے بڑا دھچکا لگا کہ کس طرح اس کی چلتی پھرتی بچی اچانک سب کچھ سے محروم ہوگئی۔ چند روز قبل ہی امیرہ نے دیگر صحت مند بچوں کی طرح چلنا اور پاتھ پاﺅں پر چلانا شروع کیا تھا، اب وہ اپنے پیروں پر چلنے سے قاصر ہوگئی تھی۔ مہرناز کو گزشتہ برس کے اپنی بیٹی کے الفاظ اور قہقہے یاد ہیں مگر اب گھر میں صرف خاموشی رہ گئی۔

مہرناز وہ وقت دہراتی ہیں " وہ شاک کئی ماہ تک برقرار رہا مگر جیسی انسانی فطرت ہے، بتدریج سب کچھ معمول پر آتا گیا"۔

مہرناز کو احساس ہوا کہ انہیں جنگ لڑنا ہوگی اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو وہ اپنی بیٹی کے لیے کرسکتی تھیں۔

بیرون ملک روانگی

مہرناز کے شوہر تو کراچی میں رہے مگر وہ اسی مہینے امیرہ اور چار سالہ بیٹے کے ساتھ لندن منتقل ہوگئیں۔ لندن کی زندگی آسان تو نہیں مگر پھر بھی وہ بہتر تھی۔ مہرناز سائیڈ واک پر جاتیں، پبلک ٹرانسپورٹ پر وہیل چیئر ریمپ کا استعمال کرتیں اور ایسی کشادہ جگہوں کو ترجیح دیتیں جہاں وہ اپنی بیٹی کو آسانی سے لے جاسکیں، اس طرح کم از کم وہ اپنی بیٹی کو باہر تو لے جاتی تھیں۔

وہ یاد کرتی ہیں " میرا ماننا تھا کہ میرے بچوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے"۔

ڈیڑھ سال تک ان کے دن رات امیرہ کے لیے وقف رہے، انہوں نے میڈیسین میں اپنا کیرئیر ختم کرکے بیٹی کی نگہداشت کی کیونکہ اس کے سامنے ہر چیز بے معنی تھی۔

دوسری جانب امیرہ کو ہر ممکن بہترین علاج میسر آیا، اس کی فزیوتھیراپی اور اسپیچ تھیراپی کو ایسے ڈاکٹروں کی نگرانی میں شروع کیا گیا جن پر مہرناز کو اعتماد تھا۔

امیرہ کی انگلینڈ میں علاج کے دوران لی گئی تصویر
امیرہ کی انگلینڈ میں علاج کے دوران لی گئی تصویر

ہر چیز منصوبہ بندی کے مطابق چل رہی تھی، ہسپتال کی جانب سے اپائٹمنٹ اور ادویات میں تبدیلی کی یاد دہانی ارسال کی جاتی۔ کراچی کے مقابلے میں ڈاکٹرز اور نرسز ہر وقت دستیاب ہوتے اور مہرناز کو ہر وقت ان وسائل تک رسائی حاصل تھیں، جس کا مشورہ امیرہ کی پرورش کے لیے دیا گیا، یعنی کسی تھراپسٹ کے پاس جانا ہے، کونسے اسکول میں اس کا داخلہ کرانا ہے۔

ہفتے میں تین بار ایک نرس گھر پر امیرہ اور اس کے آلات کی چیکنگ کے لیے آتی اور مہرناز کو پانچ گھنٹے کا وقفہ مل جاتا۔ اس وقفے کے دوران مہرناز ان کاموں کے لیے آزاد ہوتی جو کچھ عرصے سے رکے ہوتے۔

روزمرہ کے خدشات

مہرناز گزشتہ سال جنوری میں کراچی واپس آئیں، لندن کے برعکس یہاں انہیں آرام کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں ملتا، وقت کے ساتھ امیرہ کی حالت میں بہتری آئی تھی مگر وہ اب بھی مکمل طور پر معذور تھی، اسے کھانے، چلنے اور اردگرد گھومنے کے لیے معاونت کی ضرورت تھی۔ مہرناز نے ایک کل وقتی نرس کی خدمات مدد کے لیے حاصل کرلیں، امیرہ کو ایک ٹیوب کے ذریعے کھانا اور ادویات مختلف اوقات میں کھلائی جاتیں۔

امیرہ اپنے سٹینڈنگ بورڈ پر
امیرہ اپنے سٹینڈنگ بورڈ پر

روزمرہ کے کام چیلنج سے کم نہیں تھے، شہر میں بہت کم ڈاکٹرز موجود تھے اور ان کے مصروف شیڈول کو دیکھتے ہوئے رابطہ کرنا کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ کھانے کے لیے ٹیوب کے ساتھ ساتھ امیرہ کو ایک خصوصی وہیل چیئر، خصوصی باتھ ٹب اور ایک اسٹیڈنگ بورڈ کی بھی ضرورت تھی۔

مہرناز یہ س آلات لندن سے لائی تھیں مگر جب کچھ ٹوٹ جاتا یا کسی نئے پرزے کی ضرورت پڑتی تو انہیں سمجھ نہیں آتا کہ اب کیا کریں۔

ایک بار امیرہ کی کھانے کی ٹیوب ٹوٹ گئی تو مہرناز خوفزدہ ہوگئیں کیونکہ کوئی ڈاکٹر یا طبی ماہر نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے ٹھیک کیا جائے۔ وہ امیرہ کو ایک سے دوسرے ہسپتال لے کر جاتی رہیں، انہوں نے ڈاکٹروں کو متعدد بار فون کیا۔ انہوں نے ٹیوب کو خود بھی بدلنے کی کوشش کی۔ آخرکار وہ ایک ڈاکٹر کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں جو ان کی مدد کے لیے تیار ہوگیا حالانکہ اس نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس نے پہلے کبھی ایسے آلات کو استعمال نہیں کیا ہے۔

مہرناز اپنے شوہر کو کہتی رہتی تھیں کہ لندن واپس چلے جانا چاہئے چاہے کچھ عرصے کے لیے ہی۔ ایسا نہیں کہ امیرہ کے لیے کراچی میں کوئی خرابی تھی بلکہ اس لیے کہ اس کی نگہداشت کے لیے جو توجہ درکار تھی وہ پیشہ ور ماہرین اور وسائل کی کمی کے وجہ سے آسان نہیں تھی۔ "میرا دل اس کے لیے خدشات سے بھر گیا تھا"۔

محبت کے ذریعے سیکھنا

ایک عام بچے کی پرورش خود اس پر چھوڑ دینا آسان نہیں ہوتا ، کسی بھی چار سالہ بچے کی توانائی والدین کو تھکا دینے کے لیے کافی ہوتی ہے مگر یہاں تو ایک خصوصی بچہ تھا جو مکمل طور پر ہر چیز کے لیے اپنے والدین کا محتاج تھا۔ مہرناز جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا اپنا خیال رکھ سکتا ہے مگر امیرہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

ان کے بقول " اس طرح کی محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی، اس کا تجربہ عام بچوں کے ساتھ نہیں ہوتا"۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو کم چاہتی ہیں مگر امیرہ کے لیے جو محبت وہ محسوس کرتی ہیں اس کے کہیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں گزرے برسوں میں احساس ہوا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔

" مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہوں، میں نے اپنی مضبوطی کے بارے میں جانا ہے، میں نے جانا کہ کس طرح اتنی گہری محبت کیسے ہوتی ہے"۔

انہوں نے یہ مضبوطی اپنی بچی کی ذمہ داری سے حاصل کی۔ " ہاں مجھے خاندان کا تعاون حاصل ہے، میرے شوہر کا، نرس کا، مگر دن کے اختتام پر مجھے سب کچھ تنہا کرنا ہوتا ہے"۔

مگر پھر بھی مہرناز کو احساس ہوتا ہے کہ وہ خوش قسمت افراد میں سے ایک ہیں " ان سب لوگوں کے بارے میں سوچیں جن کے پاس دولت اور سہولیات نہیں ہوتیں، ان ماﺅں کے بارے میں سوچیں جو اس طرح کے چیلنجز سے روزانہ گزرتی ہیں"۔

معیز کی سپرماں سے ملیے

ہما درانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 'آٹزم' کا شکار بیٹے معیز کے ذریعے گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی بجائے بھرا ہوا دیکھنا سیکھا۔

معیز اور ہما
معیز اور ہما

مجھے وہ جملے یاد ہیں جو اپنے بیٹے میں آٹزم کی تشخیص کے بعد میں نے کہے تھے:

"میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ معیز آٹزم کا شکار ہے اور میں اس کا سامنا اپنی بہترین صلاحیت سے کروں گی"۔

مجھے اپنے آپ پر فخر ہے کہ میں نے اس حقیقت کو کچھ منٹ کے لیے بھی قبول کرنے سے انکار نہیں کیا اور بغیر کوئی وقت ضائع کیے بغیر حکمت عملیاں مرتب کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد کے لیے اپنے بیٹے کو تھراپی کورس سے گزارا۔

خصوصی توجہ کے خواہشمند بچوں کے بیشتر والدین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان خصوصی بچوں کی پرورش پر اکثر جذبات کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے۔

ان جذبات کے ایک طرف خوشی ہوتی ہے تو دوسری جانب دل میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔

خصوصی بچوں کی بات کی جائے تو یہ اتھل پتھل اتنی صدمہ انگیز نہیں ہوتی یا کم از کم میرا تجربہ یہی ہے۔

مثال کے طور پر میرے دو دیگر (خصوصی) بچوں کی بات ہے تو میں ان کی زندگیوں میں اونچ نیچ سے اتنی آسانی سے پریشان نہیں ہوتی اور اس طرح میں ان کی کامیابیوں پر حد سے زیادہ خوش نہیں ہوتی۔

اس لیے میرے لیے اس بات کو قبول کرنا اتنا مشکل نہیں تھا کہ مراد جو بہت باصلاحیت کھلاڑی ہے، کسی بھی کھیل میں اپنے جذبے کی کمی کی وجہ سے مہارت حاصل نہیں کرپارہا اور نہ ہی میں اس وقت دلبرداشتہ ہوتی جب میکائیل کسی بھی کھیل کو پسند نہیں کرتا حالانکہ میرے شوہر اور میں دونوں کھیلوں اور فٹنس پسند کرتے ہیں۔

کیا میں ایک بری ماں ہوں؟

مجھے ایسا نہیں لگتا۔

بات بس یہ ہے کہ جن چیلنجز کا مجھے معیز کے ساتھ سامنا ہوا، اس نے مجھے میرے دیگر بچوں کے لیے ایک ٹھنڈے مزاج کی ماں میں تبدیل کردیا۔

خیر اب واپسی 'تسلیم' کرنے پر آتے ہیں، گزرتے برسوں میں مجھے احساس ہوا کہ معیز کو درپیش زندگی بھر کے چیلنجز کو قبول کرنا میری زندگی کو ایسے موڑ پر لے گیا جو وقتاً فوقتاً معیز کی نشوونما کے معاملے پر بار بار پلٹ کر آتا۔

گزرے برسوں میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ بڑے ہونے والے معیز کے ساتھ قبولیت کے پیمانے نے میرا اس سے تعلق مضبوط بنایا۔

معیز کے ساتھ سفر کے دوران میں یہ سب کچھ 'قبول' کیا:

  • مرکزی دھارے کے اسکول معیز کے لیے کسی بھی طرح مناسب آپشن نہیں اور اسے ایک اسپیشل اسکول جانا ہوگا۔

  • ممکنہ طور پر وہ اپنی پوری زندگی آٹزم کے ساتھ گزارے گا اور ہجوم میں سب سے الگ نظر آئے گا۔

  • معیز کو زندگی گزارنے والی صلاحیتوں کے راستے کو اپنانا ہوگا اور تدریس کے راستے سے نہیں گزرنا ہوگا۔

  • شاید وہ کبھی مکمل طور پر خودمختار زندگی نہیں گزار سکے گا۔

  • ممکنہ طور پر معیز کو کبھی کوئی سچا دوست نہیں مل سکے گا۔

  • ہوسکتا ہے وہ 5 فٹ سے زیادہ مزید لمبا نہ ہوسکے، چاہے میں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلوں، تو آگے بڑھنا چاہئے۔

معیز کی تشخیص ہونے کے بعد کے چند ہفتے کے دوران میں قائل ہوگئی تھی کہ میں آٹزم کو 'قبول' کرکے اس کا سامنا کرسکوں گی، مگر آنے والے برسوں میں میرے سامنے نئے چیلنجز کا ڈھیر لگ گیا، ایسے چیلنجز جو اس حقیقت کا عکاس ہیں کہ مجھے قبولیت کو سیکھنا ہوگا۔

اس وقت حقیقت کو 'قبول' کرنا یقیناً آسان ہوگیا ہے مگر میں جانتی ہوں کہ یہ تسلسل سے چلنے والا عمل ہے اور ایک بار کی چیز نہیں۔ یہ آٹزم کی ناقابل پیشگوئی فطرت جیسا ہی ہے۔

'میں نے ایسا کیا کیا جو یہ بچہ مجھے ملا؟'

میں اکثر خود سے سوال کرتی کہ " میں نے ایسا کیا کیا جو معیز مجھے ملا؟ میں ہی کیوں؟ آخر کیوں؟"۔

میرے سوال پر کسی نتیجے پر پہنچنے اور یہ سوچنے سے پہلے کہ: " آخر کیسے یہ اپنے بیٹے کے بارے میں ایسے بات کرسکتی ہے؟"

پلیز اپنی زبان کو روک لیں۔ اب اس سوال کو دوبارہ پڑھیں اور اس بار مثبت سوچ کو ذہن میں رکھیں اور پھر نیچے میرے جواب کو دیکھیں۔

"میں نہیں جانتی کہ میں نے ایسا کیا کام کیا جو معیز مجھے ملا، میں بس یہ جانتی ہوں کہ خدا یقیناً مجھ سے محبت کرتا ہے جب ہی اس نے مجھے معیز دیا"۔

ہوسکتا ہے آپ میں سے کچھ کے اندر اب بھی شکوک ہوں اور وہ سوچتے ہوں " اوہ تو یہ ماں ایسا کہہ کہ خود کو بیوقوف بنارہی ہے۔ آخر ایک خصوصی بچے کے حصول سے اسے کیا نعمت ملی، ایسا بچہ جو اپنے آٹزم کی وجہ سے کبھی صحیح نشوونما نہیں پاسکے گا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ کبھی خودمختار زندگی بھی گزار نہ سکے؟ یقیناً یہ ماں ابھی تک تردیدی کیفیت میں ہے، وغیرہ وغیرہ"۔

ایسے افراد کے لیے چند ایسی وجوہات درج کررہی ہوں جو بتاتی ہیں کہ معیز کی ماں ہونا میرے لیے خوش قسمتی کا باعث کیوں ہیں، میں کئی بار اس بارے میں بات کرنا چاہتی تھی، جیسے آج، میرے اندر اپنی شکرگزاری کو دیگر سے شیئر کرنے کا جذبہ موجود تھا۔

پہلی نعمت

معیز کے ذریعے میں نے گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی بجائے بھرا ہوا دیکھنا سیکھا، اس کے لیے میں شکرگزار ہوں۔ معیز کے ذریعے میں نے زندگی کی چند بظاہر معمولی مگر انتہائی اہم نعمتوں کی قدر جانی جیسے گہری اور بغیر کسی رکاوٹ کے بلاتعطل سانس لینا، اپنے جوتوں کے تسمے بغیر کچھ سوچے باندھ لینا، پڑھنے، لکھنے اور چیزوں کو یاد کرنے کی آسانی، دیگر افراد کے بارے میں اپنی سوچ یا جذبات کا اظہار اور ایسے ہی بہت کچھ ہے۔

معیز کرکٹ کھیلتے ہوئے
معیز کرکٹ کھیلتے ہوئے

دوسری نعمت

معیز کی وجہ سے مجھے عام چیزوں میں خوشی محسوس کرنے کا تجربہ ہوا جیسے، بالکل بے سُرے انداز سے گانے کو گانا، ایک مذاق کو درجنوں بار پھر نئی خوشی کے ساتھ دہرانا، کرکٹ بال کو بلے باز کی جانب سیدھا پھینکنا، کسی لفظ کو پہلی بار جملے میں استعمال کرنا اور بھی بہت کچھ۔

تیسری نعمت

معیز کی مہربانی سے اب جب بھی میں کسی معذور یا مختلف فرد سے ملتی ہوں تو اس کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ ابھرتا ہے، ایسی گرمجوشی جو اندر سے ابھرتی ہے اور عام تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔

چوتھی نعمت

معیز کی بدولت میں نے اپنی زندگی کا مقصد اپنے کام کے ذریعے جانا۔ اس نے مجھے سیکھایا بغیر مطالبے کہ کیسے کسی کو کچھ دینا چاہئے، مصیبت کے وقت تحمل کا اظہار کرنا، کرشموں پر یقین اور بلاتکان ثبت قدم رہنا۔

تو جب میں نے آغاز میں جو سوال توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھا تھا اب اس کا جواب دوبارہ دہراتی ہوں جو میرے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے " خدا مجھ سے محبت کرتا ہے اس لیے مجھے اس نے مجھے معیز کو دیا"۔

یہ پوسٹ سب سے پہلے ہما درانی کے بلاگمیں شائع ہوئی تھی جس کو اجازت کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا۔

امان کی پرورش اور پھر اس کا بچھڑنا

سائرہ افسردہ ہوتی ہیں مگر امان نے ان کے لیے ایسی متعدد یادیں چھوڑی ہیں جو ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑا دیتی ہیں۔


رواں برس کے اوائل میں جب ہم نے سائرہ مبین سے رابطہ کیا تو ان کے بیٹے امان کی وفات کو بمشکل ایک ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا، مگر اپنے تیرہ سالہ بچے سے محروم ہونے کے دکھ اور صدمے سے گزرنے والی ایسی ماں جس نے متعدد جینیاتی امراض کے خلاف طویل جدوجہد کی نے کہا کہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

امان کی پیدائش 'مائی ٹو کانڈریا' نامی مرض کے ساتھ ہوئی
امان کی پیدائش 'مائی ٹو کانڈریا' نامی مرض کے ساتھ ہوئی

ان کا کہنا تھا " میں اس کے بارے میں ہمیشہ بات کرسکتی ہوں، وہ کبھی بھی برا وقت نہیں تھا"۔

امان کی پیدائش 'مائی ٹو کانڈریا' نامی مرض کے ساتھ ہوئی، یہ بہت کم افراد کو لاحق ہونے والا جینیاتی مرض ہے جس نے امان اور اس کے والدین کے لیے اس کی پیدائش کے دن سے مشکلات کی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔

اپنی مختصر زندگی کے دوران وہ جگر کے ناقص افعال، پٹھوں کی کمزوری اور دماغی مسائل سے لڑتا رہا۔ اس کی بیماری کے لیے بہت زیادہ تحمل اور مضبوطی کی ضرورت تھی، مگر یہ خوفناک چیلنج اسے مکمل زندگی گزارنے سے نہیں روک سکا، یا اس کی شخصیت کے مثبت پہلو کو توڑ نہیں سکا۔

اس کی والدہ یاد کرتی ہیں "مجھے حقیقت میں ایسا کوئی دن یاد نہیں جب وہ اداس ہوا ہو، وہ ایک خوش باش بچہ تھا جو لگ بھگ ہر چیز میں سے خوشی تلاش کرلیتا تھا"۔

سائرہ کو بھی وہ تجربات ہوئے جو خصوصی ضروریات والے بچوں کی ماﺅں کو ہوتے ہیں، بچے کی حالت سے انکار، غصہ، فرسٹریشن وغیرہ، تاہم وہ معاشرے کے ان غلط تصورات کو مسترد کرتی ہیں کہ آخر بچے کی پیدائش کیوں ہوئی " یہ کوئی جادو نہیں، یہ ہماری غلطی بھی نہیں"۔

وہ کہتی ہیں " والدین بیماری کو تسلیم نہ کرنے اور مایوسی کے مرحلے سے گزرتے ہیں، ان کے آنسو کبھی ختم نہیں ہوتے، تاہم اگر آپ ہار مان لیں گے تو آپ کا بچہ مشکل کا شکار ہوگا"۔

امان کی زندگی نے سائرہ کو بہت کچھ سیکھایا، لوگوں کو کبھی اندرونی مضبوطی کے تحفہ کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود کو ضرب نہیں لگاتے۔ " میں نے اپنی طاقت گزشتہ سال دریافت کی، مگر مجھے کبھی احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ غیرمعمولی ہے۔ "۔

کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایسے بچوں کی ماں کو چھوڑنا پڑتی ہیں۔ ایک بیٹی (ایمان) جو اب بیس سال کی ہوچکی ہے اور امان کو درکار توجہ کے باعث وہ بہت مصروف ہوگئیں۔

سائرہ نے بتایا کہ انہوں نے امان کی پیدائش کے بعد چند سال بطور ڈریس ڈیزائنر کام کیا مگر اس کی ضروریات بڑھنے کے باعث اسے جاری نہیں رکھ سکیں۔

وہ بتاتی ہیں " میں نے خصوصی توجہ والے ایسے بچوں کو پڑھانے کا کام بھی کچھ عرصے کے لیے کیا مگر پھر اسے بھی امان کے لیے چھوڑ دیا"۔

انہوں نے اپنی توانائی کا مرکز امان کو بنایا اور بیٹے کے ساتھ سخت محنت کی، اس کا داخلہ بے ویو ہائی اسکول میں ہوا جہاں وہ سات برس تک پڑھتا رہا، گھر پر اس کی ماں اسے ایسی چیزوں کے گرد رکھتی جو اسے خوش رکھتیں۔

سائرہ کے مطابق " وہ گا سکتا تھا اور موسیقی کا بہت زیادہ شوقین تھا، وہ کم از کم تین سو بولی وڈ گانوں کو جانتا تھا"۔

میرے پاس اچھی یادوں کا خزانہ ہے،سائرہ
میرے پاس اچھی یادوں کا خزانہ ہے،سائرہ

سائرہ بتاتی ہیں کہ جان لیوا seizure سے قبل امان مسلسل اپنے ہیڈ فونز کے ذریعے موسیقی سنتا رہتا تھا " اس سے اسے اپنی ہائپر ایکٹیویٹی کو کنٹرول میں لانے میں مدد ملتی تھی"۔

اگست 2014 میں حالات بدترین ہونے لگے، امان میں مرگی کا ایسا مرض ابھرا جس پر کسی دوا کا اثر نہیں ہوتا تھا، دماغی حالت مزید کنٹرول کے قابل نہیں رہی اور سائرہ کہتی ہیں کہ " یہ اللہ اور امان کے درمیان کا معاملہ تھا"۔

اگلے چند ماہ کے دوران اس کی حالت تیزی سے بگڑی اور گزشتہ سال 10 دسمبر کو امان کا انتقال ہوگیا۔ یہ مہینے سائرہ کے لیے بہت مشکل تھے جوکہ ہر والدین کے لیے ہوتے ہیں، مگر انہوں نے خود کو اس بات سے مطمئن کرلیا کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔

سائرہ کے بقول " میں اسے بہت زیادہ یاد کرتی ہوں، مگر اس کے بہت زیادہ اور غیر مشروط پیار نے مجھے دوبارہ صدمے سے باہر نکلنے میں مدد دی"۔

وہ روتی اور غم کرتیں مگر امان نے ان کے لیے ایسی متعدد یادیں چھوڑی ہیں جو مسکراہٹ دوڑا دیتی ہیں۔

"میرے پاس اچھی یادوں کا خزانہ ہے، اس کی شرارتیں اور احمقانہ حرکتیں جو مجھے اکثر زور سے ہنسنے پر مجبور کردیتی ہیں، وہ مجھے آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں"۔



پروجیکٹ ڈائریکٹر: عاتکہ رحمٰن

پروڈکشن ہیڈ (اردو): منظر الہٰی

رپورٹنگ: عاتکہ رحمٰن، سعدیہ کھتری

ترجمہ: فیصل ظفر

ویڈیو پروڈکشن: کامران نفیس، سعدیہ کھتری

ڈویلپمنٹ: علیم باوانی، نعمان جنید

ڈیزائن: ایما انیس، جہانزیب حق

تبصرے (6) بند ہیں

Imtiaz Ali Apr 08, 2016 02:46pm
اللہ آسانیاں عطاء فرمائے۔اور والدین کو اولاد کی طرف سے سچی خوشیاں نصیب کرے۔ آمین۔
Muhammad Abid Bhatti Apr 08, 2016 03:11pm
خدا کی رحمتیں ہو تمام سپر ماوئوں پر،جنہوں نے اپنا آپ ان شہزادوں اور شہزادیوں میں دیکھا، ان کا ہر طرح سے خیال رکھا اپنے آنسوٗوں کو ہر ممکن حد تک روکے رکھا۔ زمانے کی تمام تر تنگ نظری کو سہا، ہر قدم پر ہر سانس میں انکا خیال رکھا۔ جن کے دل کا سکون ہیں یہ شہزادے اور شہزادیاں۔ اور ان تمام افراد پر بھی خدا کی رحمتیں ہوں جنہوں نے ان ماوئوں کا ساتھ دیا چاہے ہمت بڑھا کرہی نہ ہو۔ خدا سبکو اپنی امان میں رکھے ہمیشہ آمین
rabia jamil Apr 08, 2016 03:46pm
بہترین ،،،یہ پوری تحریر ہر اس ماں کے لئے رہنما ہے جو خود بھی اس طرح کے صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں ،کمال کردیا آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔۔
Sahar Apr 08, 2016 06:23pm
Superb I salute those mothers who did not give up and give others courage.
Adam Sher Apr 10, 2016 04:32pm
اچھا سلسلہ ہے۔ بہتر ہوتا کہ نچلے طبقے کی بھی کوئی کہانی آ جاتی۔۔۔ وہاں بھی سپر ہیرو ہوتے ہیں۔
اُمِ داؤد Apr 11, 2016 11:36am
سیلوٹ۔اللہ بہت بہت بہت۔۔۔۔آسانیاں عطا کرے۔اولاد کے دکھ اور اولاد کے حوالے سے آزمائیشوں سے پناہ دے۔ آمین!