کہتے ہیں ناں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں بلکہ ہمیشہ جوڑے کی صورت میں آتی ہے، تو مشرف صاحب کے لیے ایک طرف افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک تھی جبکہ دوسری جانب لال مسجد کا کرائسس شروع ہوگیا۔
نواز شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے کسی جنرل کو بالکل ایسے تلاش کرتے ہیں جیسے لڑکی کا رشتہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ سب کرکے جب اسے سپہ سالار تعینات کردیتے ہیں تو اسی سے ان کی لڑائی ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کی بدقسمتی ہے کہ حکومت کو چاہے دو تہائی اکثریت، سادہ اکثریت ملے یا چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس کے لیے 5 کا ہندسہ پار کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
محمد خان جونیجو صاحب نے کہا 'میں جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھاؤں گا'، یہ بیان درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی دم پر پاؤں رکھنے کے مترادف تھا اور بہت بعد میں جا کر اس بیان کا غصہ ان کی برطرفی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔
1985ء میں بلدیاتی ذہن کے ساتھ قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے، یہی مارشل لا حکومت کا ٹارگٹ تھا کہ اس طرح کے سیاست دان آجائیں جو پڑھے لکھے نہ ہوں تاکہ وہ سوال کریں گے اور نہ ہمیں جواب کی زحمت ہوگی۔
مجھے یاد ہے کہ جب 5 جولائی کو ضیاالحق نے پہلی تقریر کی تھی تب انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ فوج ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی اقتدار میں نہیں رہے گی اور 90 دنوں میں انتخابات کروا کر بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔
بھٹو نے کہا کہ چھ نکات پر سمجھوتے کے بغیر اگر ڈھاکا میں اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں مغربی پاکستان سے کوئی جاتا ہے تو ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔