دنیا

’مودی پاکستان اور چین کے لیے سخت ثابت ہوں گے‘

ماضی میں وہ انڈیا میں مسلم عسکریت پسندوں کے حملوں کو لے کر پاکستان کے خلاف ریلی نکال چکے ہیں۔

نئی دہلی: نریندر مودی کے دو معاونین کا کہنا ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کے لیڈر مودی مئی کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ہندوستان کی پاکستان کے ساتھ دشمنی اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات میں سختی پیدا ہوجائے گی۔

مودی جو ایک ہندو قوم پرست ہیں، اور سات اپریل سے شروع ہونے والے پانچ ہفتوں پر مشتمل انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں، انہوں نے دونوں پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بیجنگ کو اس کے ’’توسیع پسندانہ‘‘ عزائم خبردار کیا ہے اور ماضی میں وہ انڈیا میں مسلم عسکریت پسندوں کے حملوں کو لے کر پاکستان کے خلاف ریلی نکال چکے ہیں۔

شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش، جس کے ایک علاقے پر چین دعویٰ کرتا ہے، میں پچھلے مہینے انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا ’’میں اس مٹی کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس ملک کی حفاظت کروں گا۔‘‘

انڈیا، چین اور پاکستان تینوں ہی نیوکلیئر پاورز ہیں۔ افغانستان میں پوزیشن حاصل کرنے کے لیے تینوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے، جہاں سے بارہ سال کی عسکریت پسندی کے بعد ایک جنگ زدہ قوم سے مغربی افواج کا انخلاء جاری ہے۔

مودی حکمران جماعت کانگریس پر الزام قومی سلامتی کو کمزور کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، جو ہندوستان کی آزادی کے 67 برسوں میں سے پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ اقتدار میں رہی ہے۔ تاہم اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ان کا ملک دنیا بھر میں فوجی سازوسامان کی خریداری میں سرِ فہرست ہے، جس میں بنیادی فوجی سامان کے ساتھ طیارہ بردار بحری جہاز غرضیکہ سب کچھ شامل ہے۔

مودی کے دو مشیروں کا کہنا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی طاقتور ہوجائے گی، اس کے علاوہ ان کا عزم ہے کہ علاقائی تناؤ سے صرف نظر کرتے ہوئے معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے۔

مودی کی بھارتیا جنتا پارٹی کے منشور کی تشکیل میں شریک ایک صاحب کہتے ہیں کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی معیشت پر مبنی ہوگی اور اس کا مکمل تصور ہندوستانی معیشت کی تعمیر ہوگا، تاکہ مضبوطی کے ساتھ ہم دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنی شرائط پر ڈیل کرسکیں۔‘‘

اقتصادی پاور ہاؤس کہلانے والی ریاست گجرات کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے قیادت کرنے والے مودی چین کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے دعوت دے چکے ہیں۔ مذکورہ مشیر نے بتایا کہ بحیثیت وزیرِ اعظم وہ ہندوستان کے سیکیورٹی مفادات کے دفاع کے درمیان سے ایک راستہ نکالنا چاہیں گے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے ساتھ کاروباری روابط میں اضافہ کرنا چاہیں گے۔

مودی نے کبھی واضح نہیں کیا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کا وژن کیا ہے، لیکن وہ بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی تعریف کرچکے ہیں، جنہوں نے شکتی اور شانتی دونوں کی بنیاد پر ایک حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے 1998ء میں ایٹمی تجربات کے ایک سلسلے کا حکم دیا تھا۔سنسکرت کے ان الفاظ کے بالترتیب معنی ہیں، طاقت اور امن۔

بی جےپی کے منشور کی تشکیل میں شامل ایک صاحب نے کہا کہ ’’چینی وزیراعظم سمجھ جائیں گے کہ نیا وزیراعظم کمزور اور نالائق نہیں ہے اور وہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرنا نہیں چاہیں گے۔‘‘

مذکورہ مشیر جو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کررہے تھے، اس لیے کہ بی جے پی کا منشور اب بھی پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کانگریس پارٹی کے تحت ردعمل والی پالیسی کو مسترد کرکے اس کی جگہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہندوستان کی قومی سلامتی کے مفادات کو تیزی سے آگے بڑھائیں گے۔

ان کی پالیسی میں سرفہرست چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کا جلد از جلد تصفیہ ہوگا، بحرہند میں ہندوستان کی فوقیت کا دعویٰ اور مسلم عسکریت پسندوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا، جن کے بارے میں ہندوستان خیال کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔

ان مشیروں میں سے ایک نے کہا کہ ’’ہمارے ہمسائے میں دہشت گردی سے متعلق مسائل پر بہت سے قوم پرست نکتہ نظر آپ دیکھیں گے۔ ایسی چیزوں کے لیے یہ ایک کہیں زیادہ سخت نکتہ نظر ہے۔‘‘

سبکدوش ہونے والے وزیراعظم منموہن سنگھ نے امن کے لیے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی تھی اور انہوں نے پنجاب میں اپنے جائے پیدائش کے دورے کی امید ظاہر کی تھی تاکہ ان کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے مفاہمت کو آگے بڑھایا جائے۔

پاکستان میں ہندوستان کے سابق سفیر راجیو ڈوگرا بی جے پی کی حکومت کے تحت ایک کہیں زیادہ طاقتور پالیسی کی توقع رکھتے ہیں، اس لیے کہ اندرونی دباؤ اور افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء سے پیدا ہونے والی خطے کی غیریقینی صورتحال دونوں اس کی وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اب تک ہندوستان قیاس آرئیوں اور حکومت کی تبدیلی سے قطع نظر خارجہ پالیسی کے خدوخال پرمیں ایک اتفاقِ رائے ہوا ہے۔ لیکن اس وقت حکومت میں تبدیلی آتی ہے تو میں روایت کے ٹوٹنے کی توقع کرتا ہوں۔‘‘