پاکستان

حکومت مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے پی ٹی آئی کا ’ٹائم فریم‘ کا مطالبہ قبول کرے گی، رانا ثنااللہ

ایسا ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کے سارے ہی مطالبات مانے جائیں یا اسی طرح وہ ہماری تمام باتوں پر آمادہ ہوں، سینیئر رہنما مسلم لیگ (ن)

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حکومت جاری مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے ٹائم فریم مقرر کرنے کے مطالبے کو قبول کرے گی۔

نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حکومت پی ٹی آئی کے ایسے مطالبے کو قبول کرے گی۔‘

سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ ’ اگر پی ٹی آئی بات چیت کے حوالے سے ٹائم فریم رکھنا چاہتی ہے تو وہ رکھے لیکن پھر ملاقاتیں اسی ٹائم فریم کے مطابق ایک مقررہ وقت میں ہوں گی۔’

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پی ٹی آئی کے سارے ہی مطالبات کو مانا جائے یا اسی طرح وہ ہماری تمام باتوں پر آمادہ ہوں، اس لیے مطالبات اور نقات پر غور کرنے اور ایک مشترکہ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔’

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر مذاکرات کے لیے کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہماری طرف سے ایسی کوئی بات نہیں کی گئی کہ مذاکرات فوری یا روزانہ کی بنیاد پر ہوں لیکن اگر پی ٹی آئی جلد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہے تو ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، انہیں جو کہنا ہے وہ کہہ سکتے ہیں اور ہم اپنا مؤقف ان کے سامنے رکھیں گے۔’

خیال رہے کہ گزشتہ سال عمران خان اور سابق وزیراعظم عمران خان کے جیل جانے کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، کشیدگی کے دوران پی ٹی آئی کے مظاہروں اور حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

گزشتہ ماہ (نومبر) پی ٹی آئی کی ’فائنل کال‘ کے بعد کشیدگی مزید بڑھی تھی، جبکہ تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ڈی چوک پر احتجاج کرنے والے درجنوں کارکنان کی موت ہوگئی ہے، تاہم اس دعوے کو حکومت نے مسترد کردیا تھا۔

اس کے بعد عمران خان نے مذاکرات کے لیے 5 اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

دریں اثنا، اس کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تجویز پر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے 22 دسمبر کو حکومتی کمیٹی تشکیل دی تھی، حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے پہلی باضابطہ ملاقات 23 دسمبر کو ہوئی تھی۔

وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی میں نائب وزیراعظم ووزیر خارجہ اسحٰق ڈار، سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی شامل ہیں جبکہ پیپلزپارٹی سے راجا پرویز اشرف، نویدقمر بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی، استحکام پاکستان پارٹی سے علیم خان، مسلم لیگ (ق) سے چوہدری سالک اور بلوچستان عوامی پارٹی سے سردار خالد مگسی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز راولپنڈی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے ٹائم فریم مقرر ہونا چاہیے تاکہ بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوسکے۔