پاکستان

ن لیگ کی حکومت نے اپنے ایک مثبت اقدام پر پانی پھیر دیا

مسلم لیگ ن کی حکومت اراکین اسمبلی کو فنڈز کی تقسیم کے طریقہ کار کو بحال کردیا، تاہم اس میں ہاتھ کی صفائی دکھادی گئی ہے۔

اسلام آباد: نواز شریف نے جون 2013ء میں تیسری مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک اچھی بات یہ کی تھی کہ انہوں نے قانون سازوں کو ترقیاتی گرانٹ سے نوازنے کی اپنے پیشرو کی خودغرضانہ سیاسی حکمت عملی کو ترک کردیا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خود ہی اس مثبت اقدام پر پانی پھیردیا ہے۔

واضح رہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی گرانٹس دیا جانا طویل عرصے سے متنازعہ معاملہ بنا ہوا تھا۔ اس حوالے سے دلیل یہ دی جاتی تھی کہ اراکین پارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے، نہ کہ اپنے انتخابی حلقوں میں شہری ضروریات کی نگرانی کرنا۔

لیکن ایسا لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے پیپلزپارٹی کی خراب طرزِ حکمرانی سے سبق سیکھ لیا تھا، جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت کے دوران مسلم لیگ ن اور میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا، چنانچہ ن لیگ کی قیادت نے اس راستے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو 2013ء کے عام انتخابات شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تاہم اب یہ نظر آرہا ہے کہ خود کو تقریباً دو سال اس کام سے روکنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف ن لیگ کے فاتح قانون سازوں کو ترقیاتی گرانٹ فراہم کرنے کی پرانی روش سے روک نہیں پارہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی شاطرانہ طریقہ کار کو بحال کردیا، البتہ اس میں بھی کچھ ہاتھ کی صفائی دکھادی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایک معصوم سے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اس نے ملک بھی کی کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اسکیموں کی تکمیل کے لیے 12.5 ارب روپے جاری کردیے ہیں۔

اس قدر بھاری رقم کے اجراء نے سوالات کو جنم دیا ہے کہ یہ کہاں سے آئی اور اسے کون خرچ کرے گا؟

پوچھ گچھ اور اس معاملے سے آگاہ افراد نے انکشاف کیا کہ یہ رقم تیس جون کو ختم ہونے والے موجودہ مالی سال کے سرکاری شعبوں میں ترقیاتی پروگراموں میں ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز پر عملدرآمد کے لیے جاری کی گئی ہے اور اب اسے کیبینٹ ڈویژن کے اختیار میں دے دیا گیا ہے۔

شدید غربت اور بھوک کے خاتمے، عالمگیر پرائمری تعلیم کا حصول، صنفی مساوات، بچوں کی شرح اموات میں کمی لانا، زچگی کے دوران ماؤں کی صحت کو بہتر بنانا، ایچ آئی وی یا ایڈز کا مقابلہ کرنا، ماحولیاتی استحکام کو بہتر بنانا اور ترقی کے لیے عالمی شراکت داری کی تعمیر سمیت آٹھ ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے احسن اقبال کی قیادت میں ایک مرکزی وزارت پاکستان وژن 2025ء کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔

ترقیاتی حکمت عملی میں اس تبدیلی اور فنڈز کیبینٹ ڈویژن میں پہنچ جانے کے بعد یہ کام اب وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کے پاس چلا گیا ہے۔

ماضی میں پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ نظر آجائے گا کہ مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے صوابدیدی فنڈز کے استعمال کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، اور عدالت نے دسمبر 2013ء میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ اس طرح کے طریقہ کار کو مستقبل میں نہیں دوہرانا چاہیے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان میں اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے پیپلز ورکس پروگرام کے تحت 47 ارب روپے منتقل کیے تھے۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اسکیموں کے طور پر اس پروگرام کو نئی صورت دی ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو رازدارانہ طور پر بتایا ’’کاغذات پر (موجودہ) وزیراعظم نے ترقیاتی فنڈز کے صوابدیدی استعمال سے روکا ہوا ہے، لیکن بنیادی طور پر وہ اپنے پیش رو کے ہی نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔‘‘

لیکن جب آفتاب شیخ سے پوچھا گیا تو انہوں نے اسے مختلف قرار دیتے ہوئے کہا ’’ہماری کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اسکیموں میں عوامی نمائندوں کو نچلی سطح تک شامل کیا جائے گا تاکہ وہ جہاں ضرورت محسوس کریں گے وہ ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی اسکیموں میں کمیونیٹیز کی شمولیت کا تصور ان کے اندر ملکیت کا احساس پیدا کرے گا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ جس سے ماضی میں محرومی رہی تھی۔

وفاقی وزیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ماضی کے طریقہ کار کے برعکس اس وقت ضلعی رابطہ افسر اس ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔‘‘

لیکن پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے مقامی حکومتوں کے نظام میں ایسا نہیں تھا۔

بے شک قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ایسی آڈٹ رپورٹوں کا انبار لگا ہوا ہے، جن کا کہنا ہے کہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ بنیادی طور پر سیاسی مزاحمت اور دخل اندازی کی وجہ سے کمیونٹی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں یہ سوال برقرار رہے گا کہ کمیونیٹیز مقامی حکومتوں کی غیرموجودگی میں کس طرح ترقی کرسکتی ہیں؟ بہرحال یہ 12.5 ارب روپے کے فنڈز اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو مطمئن کردے گا، جو طویل عرصے سے اس کی حرص میں مبتلا ہیں۔