مناسب نقاب نہ لینے پر ایرانی خواتین تیزابی حملوں کا نشانہ
تہران: ایران کے تاریخی شہر اصفہان میں خواتین پر تیزاب کے مسلسل حملوں نے جہاں خوف پھیل گیا ہے، وہیں ان افواہوں کو بھی فروغ ملا ہے کہ متاثرہ خواتین کو مناسب طریقے نقاب نہ لینے پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
جنرل حسین اختری کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری خبررساں ادارے ارنا (آئی آر این اے) کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے، تاہم ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، اور اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تہران کے جنوب میں 450 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اصفہان میں تیزاب کے چار حملے رپورٹ کیے گئے تھے، لیکن انہوں نے دیگر تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
تشدد کےاس سلسلے کے حوالے سے سوشل نیٹ ورکس پر بہت زیادہ بات کی جارہی ہے، جس کے مطابق ان خواتین ڈرائیوروں پر 13 حملے کیے گئے، جنہوں نے پوری طرح نقاب نہیں کیا ہوا تھا، اور کار کے شیشے بھی کھول رکھے تھے۔
پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں اس طرح کے واقعات میں حالیہ برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ تیزاب سے حملہ آوروں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ خواتین کو اس طرح کے نامناسب رویے کے ذریعے اپنے خاندان کی عزت پر داغ لگانے کی سزا دے رہے ہیں۔
ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد سے اسلامی قانون کے تحت خواتین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ لازماً ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں اور حجاب سے سر اور گردن کو ڈھانپیں۔
تاہم پچھلے برسوں کے دوران ہلکے نقاب کا رجحان فروغ پا رہا ہے، جس سے بمشکل بالوں کو ڈھانپا جاسکتا ہے اور بجائے پورے جسم کو ڈھاپنے والی روایتی چادر کے تنگ کپڑے یا گھٹنے تک لمبا کوٹ پہنا جارہا ہے، قدامت پسندوں کی جانب سے بُرے حجاب کہتے ہوئے مذمت کی جاتی رہی ہے۔
اصفہان کی ایک مسجد جس کا قالین ایران آنے والے سیاحوں کی توجہ کا سب سے زیادہ مرکز ہوتا ہے، اور جس کا سائز بیجنگ کے تیان من اسکوائر کے برابر ہے، کے پیش امام نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔
جمعہ کی نماز کے پیش امام حجۃ الاسلام محمد تقی رہبر نے ایرانین اسٹوڈنٹ نیوز ایجنسی، اسنا (آئی ایس این اے) کو بتایا ’’اس طرح کے حملوں کے لیے کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہاں تک کہ اگر ایک خاتون بُرے انداز میں سڑک پر جارہی ہو تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس طرح کی کوئی حرکت کرے۔‘‘
اصفہان کے ایک خوفزدہ خاتون نے اسنا سے کہا کہ ’’میں نے جب ایک موٹرسائیکل کی آواز کو اپنی گاڑی کے قریب آتے سنا تو میں خوفزدہ ہوگئی، اور میں ہر وقت اپنی کار کی کھڑکیاں بند کرکے رکھتی ہوں۔‘‘
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں ایران کے اراکین پارلیمنٹ نے تحریری طور پر صدر حسن روحانی سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پولیس خواتین کو نقاب پہننے پر مجبور کرے۔