دنیا

سنکیانگ: باریش مردوں اور حجاب کرنے والی خواتین پر روک ٹوک

چینی حکام نے حجاب لینے والی خواتین اور باریش مردوں کے بسوں میں سفر کرنے پر20 اگست سے پابندی عائد کی ہے۔

سنکیانگ: چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں باریش مردوں اور نقاب یا اسکارف لینے والی خواتین کے بسوں میں سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی مسلما نوں کے خلاف تعصب کا اظہار ہے۔

چینی میڈیا کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی شہر کرامے میں پا نچ قسم کے مسافروں پر بسوں میں سفر کرنے کی پابندی ہوگی۔

ان میں وہ مسافر بھی شامل ہیں جنہوں نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا ہو، اسکارف یا عبایا پہن رکھا ہو یا چاند تارے کی اشکال والے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ اس کے علاوہ باریش مردوں پر بھی پابندی کا اطلاق ہوگا۔

واضح رہے کہ چاند تارے کی اشکال بہت سے اسلامی ممالک کے جھنڈوں کا حصہ ہیں اور ان پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں موجود علیحدگی پسند مشرقی ترکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک مقامی اخبار نے کرامے کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'اس پابندی کا اطلاق20 اگست سے ہونے والے ایتھلیٹکس مقابلوں کے موقع پر سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور سیکیورٹی ٹیموں کی مدد سے اسے ممکن بنایا جائے گا'۔

اخبار کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس پابندی پر عمل نہیں کریں گے، خصوصاً مذکورہ پانچ قسم کے افراد، تو ان کی اطلاع پولیس کو دی جائے گی۔

واضح رہے کہ جولائی میں سنکیانگ کے دارالحکومت ارومقی میں مسافروں پر بسوں میں سگریٹ لائٹرز، پانی اور دہی وغیرہ لے جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاکہ پُرتشدد کارروائیوں کو روکا جا سکے۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سنکیانگ کی مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ نافذ کی گئی حکومتی پا بندیاں ہی تشدد کو جنم دے رہی ہیں، جبکہ چینی حکومت نے اس دلیل کو مسترد کردیا ہے۔

واضح رہے کہ چینی مسلم کمیونٹی یوغور کی خواتین بالکل ویسا ہی لباس پہنتی ہیں، جیسا دیگر چینی علاقوں میں پہنا جاتا ہے، تاہم چند ایک خواتین چہرے پر نقاب ڈالنے کے ساتھ ساتھ عبایا پہننے کی بھی عادی ہیں۔

سنکیانگ، چین کا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جہاں کے لوگ ترک زبان بولتے ہیں۔

مذکورہ شہر ایک عرصے سے پُرتشدد کارروائیوں کا سامنا کر رہا ہے، جس کا الزام حکومت کی جانب سے اسلامی شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں پر لگایا جا تا ہے۔

گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران سنکیانگ میں جاری فسادات کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

انتہائی سخت سیکیورٹی کے باعث صحافیوں کے لیے سنکیانگ کے حالات کا آزادانہ جائزہ لینا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں حکومتی اطلاعات پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق جولائی کے آخر میں چاقو بردار حملہ آوروں کی جانب سے فسادات کے آغاز کے باعث تقریباً سو افراد ہلاک ہوئے، جن میں 59 دہشت گردوں کو پولیس نے ہلاک کیا۔