پاکستان

پولیس ہیلپ لائن۔ ایک ماہ میں پچانوے فیصد شرارتی کالز

پولیس حکام نے ان کالوں کو بلاک کرنے کے لیے سافٹ ویئر انسٹال کرلیا ہے، اور ایسے افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔

کراچی: سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مددگار-15 کو ایک ماہ کے دوران موصول ہونے والی پچانوے فیصد فون کالیں فرضی اور مذاق کے طور پر کی جاتی ہیں، فون کرنے والے افراد کا مقصد محض قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرنا ہوتا ہے۔

لیکن اب پولیس حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ فون پر مذاق کرنے والوں کے خلاف ٹیلی گراف ایکٹ 1885ء کے تحت کاروائی کی جائے گی۔

بدھ کے روز حکام نے بتایا کہ ایک سافٹ ویئر خصوصی طور پر اس مقصد کے لیے تیار کیا گیا ہے، جسے مددگار-15 کی تمام ہیلپ لائنوں پر انسٹال کیا جائے گا۔

اس سافٹ ویئر کے ذریعے ایسے فون کرنے والوں کا سراغ لگایا جاسکے گا جو قانون نافذ کرنے والے ادارے کا وقت اور وسائل ضایع کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی پی محمد اقبال کو جب ہیلپ لائن سروس پر ایک حالیہ بریفنگ کے دوران ان شرارت کرنے والوں کا علم ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

ایک اہلکار نے بتایا ’’یہ سافٹ ویئر ایسے تمام نمبروں کو بلاک کردے گا، جہاں سے عموماً شرارت کے طور پر کالیں کی جاتی ہیں۔‘‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ معاملہ حال ہی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں پیش کیا گیا تھا، جو سینٹرل پولیس آفس پر منعقد ہوا تھا۔ اس میں ڈی آئی جی کرائم، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز اینڈ ٹریننگ اور ویسٹ، ایسٹ اور ساؤتھ کے تمام ڈی آئی جیز نے شرکت کی تھی۔

پولیس اہلکار نے کہا کہ ’’متعلقہ حکام کی جانب سے اس اجلاس میں پیش کیے جانے والے اعدادوشمار نے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔ جس کے مطابق مددگار-15 کو ایک مہینے کے دوران کی جانے والی فون کالوں میں سے تقریباً پچانوے فیصد محض شرارت کی غرض سے کی گئی تھیں، یا پھر محض وقت گزاری کے لیے۔ کئی مرتبہ اس پریشانی سے بچنے کے لیے کوششیں کی گئیں، لیکن اس سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکا۔‘‘

یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا تھا کہ حکام نے اس طرح کی کالوں کو بلاک کرنے کے لیے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تاکہ ایسی فون کال کرنے والوں کی آواز کی شناخت کرکے اس کی مدد سے انہیں ٹیلی گراف ایکٹ 1885ء کے سیکشن 25-ڈی کے تحت گرفتار کیا جاسکے۔

سیکشن 25-ڈی میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی فرد جو کسی سرکاری یا نجی ٹیلی فون کا استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کو تنگ کرتا ہے یا دھمکی دیتا ہے، تو ٹیلی گراف اتھارٹی اس ایکٹ کے تحت کارروائی کرے گی، اور ایسے شخص کو ایک مدت تک کی سزائے قید، جسے تین سال تک توسیع دی جاسکتی ہے دی جائےگی، یا جرمانہ کیا جائے گا، یا پھر دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جائیں گی۔

سندھ کے آئی جی پی اقبال محمد خان نے ڈان کو بتایا کہ یہ فیصلہ آخری حربے کے طور پر لیا گیا ہے، اس لیے کہ شرارتاً فون کال کرنے والے ایسے افراد درحقیقت قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ناصرف وقت اور وسائل ضایع کرتے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے ایسے افراد کی فون کال کا ہیلپ لائن سے رابطہ نہیں ہوپاتا، جنہیں حقیقی معنوں میں کوئی شکایت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا ’’آپ ایک ایسے مرد یا خاتون کے بارے میں سوچیے جو کسی پریشانی سے دوچار ہے اور وہ پولیس ہیلپ لائن کو فون کررہی ہیں، لیکن ان کی فون کال کا رابطہ اس لیے نہیں ہوپاتا کہ یہ شرارت اور فرضی کالیں کرنے والوں نے لائن مصروف کر رکھی ہوتی ہے۔‘‘

اقبال محمد خان نے کہا کہ ’’ہم نے صرف اور صرف اس لیے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی ہے، کہ اس طرح کی شرارتی اور فرضی کالوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بلاک کیا جاسکے۔ اس کے بعد ہم ایسی فون کال کرنے والے تمام افراد کے خلاف کارروائی کریں گے، اور انہیں قانون کے تحت پکڑا جائے گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ شہر میں کام کرنے والے پولیس ہیلپ لائن کے مراکز کی تعداد پندرہ ہے اور وہ اس سروس کی توسیع کے ایک جامع منصوبے پر کام کررہے ہیں، جس کے تحت اس کی تعداد بائیس تک کردی جائے گی۔

اس کے علاوہ سی پی او کی طرف سے جاری کیے جانے والے ڈیٹا کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ (جنوری تا جون 2014ء) کے دوران مددگار-15 کو اکتالیس ہزار تین سو چودہ کالیں جرائم سے متعلق موصول ہوئیں۔

اس ڈیٹا میں کہا گیا ہے کہ ان کالوں میں 621 کالیں ڈکیتی سے متعلق تھیں، 544 گاڑیاں چھیننے کے بارے میں، 896 گاڑیوں کی چوری، ایک ہزار چار سو دو موٹر سائیکلیں چھیننے سے متعلق، دوہزار ایک سو اٹھاون موٹرسائیکلوں کی چوری اور پانچ ہزار ایک سو پینتس کالیں موبائل فون چھیننے سے متعلق تھیں۔