فوجی آپریشن اور سول حکومت کی نااہلی
پیر کے روز انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے جانے والے پریس ریلیز میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں کی گئی تھی۔
اس پریس ریلیز میں تحریر تھا کہ ’’سول انتظامیہ کی جانب سے ملک بھر میں تمام اہم شہروں، قصبوں اور حساس تنصیبات پر حفاظتی اقدامات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔‘‘
پاکستانی عوام کو اس طرح کی یقین دہانی کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ سیکیورٹی فورسز شمالی وزیرستان میں منتقل ہوگئی ہیں اور وہاں عسکریت پسندوں کے گڑھ کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
تاہم تجزیہ نگار اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ یقین دہانی اس کے بجائے وفاقی حکومت کی جانب سے کرائی جانی چاہیٔے تھی اور وہ بھی آپریشن کے آغاز سے بہت پہلے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قومی سلامتی کے مسئلے پر فیصلے کرنے اور سول اداروں کے ذریعے مخصوص مقاصد پر تبادلۂ خیال کرنے کے معاملے میں حکومت ناکام رہی ہے۔
سابق بیوروکریٹ خالد عزیز، جنہوں نے قبائلی علاقوں میں کئی سال سرکاری کاموں کی نگرانی کی تھی، کہتے ہیں کہ ’’اس طرح کے کاموں کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار موجود ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کو چاہیٔے تھا کہ وہ آپریشن کے اعلان سے قبل ان اداروں کو متحرک کرتی، تاکہ سیکیورٹی اور انسانی چیلنجز کے ساتھ ساتھ آپریشن کے نتیجے میں عوام کی نقل مکانی سے بہتر طریقے سے نمٹاجاتا۔‘‘
پشاور میں مقیم خالد عزیز نے نشاندہی کی کہ قومی سلامتی پر کابینہ کی کمیٹی، جس میں ملک کے سینئر ترین سویلین اور سیکیورٹی کی قیادت شامل ہے، کو صوبائی حکومتوں کی شراکت کے ساتھ آپریشن کے مضمرات پر غور کرنا چاہیٔے تھا۔
انہوں نے کہا ’’ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ دوسری جانب حکومت نے وہی قبول کیا، جو فوج پہلے ہی طے کرچکی تھی۔ جب فوج نے دیکھا کہ حکومت کچھ بھی نہیں کر رہی ہے تو اس نے یکطرفہ طور پر کارروائی کا فیصلہ کیا۔‘‘
خالد عزیز نے کہا کہ ’’اس سے سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس سے فوج کو مایوسی ہوئی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس ماہ کی ابتداء میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والا حملہ واحد واقعہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے فوج نے آپریشن شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کیا۔
سویلین اور آئینی میکانزم کی موجودگی کے باوجود اس آپریشن کے آغاز کے فیصلے سے کیوں باہر رکھا گیا، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے خالد عزیز نے کہا ’’شمالی وزیرستان کے محفوظ ٹھکانوں میں موجود دہشت گردوں کی جانب سے چین اور افغانستان میں بہت سے حملے کیے گئے تھے، اس طرح کے واقعات پر پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر جوابدہی کا سبب بن رہے تھے، اس کے باوجود کہ اس خطے میں پاکستانی ریاست کی کوئی عملداری بھی موجود نہیں ہے۔ اس طرح کے حملوں سے پاکستان میں حکام پر کچھ کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا، لیکن حکومت نااہل دکھائی دے رہی تھی۔‘‘
خیبر پختونخوا اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی جماعتوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کے آغاز سے پہلے وفاقی حکومت نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ حالانکہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کے ممکنہ ردّعمل سے نمٹنا بھی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
جماعت اسلامی جو خیبرپختونخوا میں حکمران اتحاد کا حصہ ہے، اس کے صوبائی سیکریٹری جنرل شبیر احمد خان کا کہنا ہے ’’وفاقی حکومت نے اس حوالے سے صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بھی اسی طرح کی شکایت کی،﷽ انہوں نے کہا ’’ہم نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران حکومت سے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے خطوط وضع کرے، دوسری صورت میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات ناقابل قبول ہوں گے۔ حکومت اس قابل نہیں رہ گئی تھی کہ وہ فوجی آپریشن کے امکان پر تنہا سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتی۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت کو وفاقی حکومت کی جانب سے شمالی وزیرستان میں فوج کی منتقلی سے قبل آپریشن کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔
سول انتظامیہ کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں سخت حفاظتی اقدامات کے بارے میں آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی اور ضلعی سطح تک معیاری طریقہ کار کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت نہیں کررہے ہیں اور مسائل اور آپریشن سے اُبھرنے والے چیلنجز کا ایک بھرپور جواب دینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نظر نہیں آتے۔
خالد عزیز کہتے ہیں کہ ’’ہمیشہ بڑے اور اہم فیصلوں سے پہلے اجلاس ہوتے ہیں، خلاصے اور رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں۔ تاہم فوجی آپریشن کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘
تقریباً ہر کوئی مطالبہ کررہا ہے کہ اس طرح کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فیصلے سے قبل بات چیت کی جائے۔
جماعت اسلامی کے شبیر احمد خان کہتے ہیں ’’حکومت نے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو آپریشن شروع کیے جانے کے بارے میں اعتماد میں نہ لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اسے اب یہ غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیٔے اور فوری طور پر مستقبل کے ایجنڈا طے کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس طلب کرنی چاہیٔے۔‘‘
ملک محمد اقبال جو ایک ریٹائیرڈ پولیس آفیسر ہیں اور ماضیٔ قریب میں انہوں نے پولیس اور انٹیلی جنس کے بہت سے عہدوں پر کام کیا ہے، کہتے ہیں، سیاسی اور فوجی قیادت میں کس طرح اتفاقِ رائے پیدا کیا جاتا ہے، یہ اب نظر آنا چاہیٔے۔ اس آپریشن کی مخلصانہ حمایت کے لیے صرف اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ’’اس وقت ’کرو یا مرو‘کی سی صورتحال ہے، اس وقت اسٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنا بند کرکے ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنی چاہیٔے۔‘‘