دنیا

مودی کے پاس کوئی بہانہ باقی نہیں بچا

وہ یہ بہانہ نہیں کر سکتے کہ مخلوط حکومت کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے لیے امن و آشتی کا راستہ نہیں نکال پائے۔

آج ایک تاریخی موقع ہے کہ ہندوستان میں آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کسی غیر کانگریسی سیاسی پارٹی کے رہنما واضح اکثریت کے ساتھ مرکز میں اقتدار سنبھالیں گے۔

پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد نریندرا مودی واحد ایسے ہندوستانی لیڈر ہیں، جن کی قیادت کی وجہ سے ان کی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں پہلے انتخابات 1951ء میں ہوئے تھے۔ اس وقت انڈین نیشنل کانگریس کو نہرو کی قیادت میں کل 489 سیٹوں میں سے 364 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ یہ تقریباً تین چوتھائی اکثریت تھی۔ جب تک نہرو زندہ رہے تقریباً ایسی ہی اکثریت کانگریس کو حاصل ہوتی رہی۔

نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی کو بھی 1971ء کے انتخابات میں کم و بیش اپنے والد جیسی ہی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ انہیں لوک سبھا کی کل 518 نشستوں میں سے 352 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ یہ انتخابات سقوط مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد منعقد ہوئے تھے، تجزیہ نگاروں کے بقول جب اندرا گاندھی اور ہندوستان میں کوئی فرق نہیں سمجھا جارہا تھا۔

اس کے بعد کی اسّی دہائی میں اندرا گاندھی ایک بار پھر ایسی ہی بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیاب ہو ئیں۔

تاہم 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو آزادی کے بعد سے اب تک کی سب سے بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی۔

1984 کے انتخابات میں انہیں کل 514 نشستوں میں سے 404 نشستیں ملی تھیں۔ اگر اس کے فورا بعد 1985 کے دوران آسام اور پنجاب میں منعقد ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کو بھی شامل کر دیں تو راجیو کو حاصل ہونے والی کل نشستوں کی تعداد 414 ہوگی۔اس بھاری اکثریت کی واقعی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن اس میں راجیو گاندھی کا شاید کوئی کمال نہیں تھا۔

اس وقت تک نہ تو ہندوستان راجیو کو بطور لیڈر پہچانتا تھا اور نہ ہی راجیو گاندھی سیاست کی کچھ سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔

اس کے بعد سے 2009ء تک ہندوستان میں سات مرتبہ عام انتخابات ہوئے لیکن کانگریس اور بی جے پی سمیت کسی کو بھی مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔یعنی نریندرا مودی، پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد واحد ایسے رہنما ہیں جن کی قیادت کی وجہ سے ان کی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے۔

یہاں اس موقع کو ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی حاصل ہورہی ہے کہ ہندوستان کے نامزد وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں تمام پڑوسی ممالک کے رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی ۔

یوں تو یہ دعوت سارک تنظیم کے تمام ممالک کے لیے تھی، لیکن اس کی اہمیت پاکستان کی وجہ سےنہایت اہمیت اختیار کرگئی تھی۔

ناصرف ہندوستان میں بلکہ دنیا بھر میں اس اقدام کو مودی حکومت کے ایک مثبت آغاز کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

دس سال قبل سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے جب سوال کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عہدہ سنبھالنے کے بعد ایسے اہم کام جنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی وہ خواہش رکھتے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ اگر وہ اپنی مدتِ اقتدار میں صرف ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ یہ سمجھیں گے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کا مقصد حاصل کر لیا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر منموہن سنگھ دس سال تک ہندوستان کے اقتدار میں رہے لیکن بی جے پی کی مخالفت کا خوف انہیں پاکستان کا دورہ کرنے سے روکتا رہا۔

یہ تو واضح ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد مودی کی توجہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے پر مرکوز رہے گی۔

پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کی ستائیس مئی کو دوطرفہ ملاقات بھی طے ہے اور امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ملاقات مستقبل میں بات چیت کی شروعات کی بنیاد بن سکتی ہے۔

انڈین میڈیا میں گزشتہ تین دنوں سے نواز شریف کے ممکنہ دورے کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کو شامل ہونے کی دعوت دینے کے مودی کے فیصلے پر سب ہی کو حیرت ہوئی تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو حل کرنے میں بی جے پی کے وزیراعظم کے پاس ایک بہتر پوزیشن ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کی حب الوطنی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا تا۔ لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کے لیے حقیقی معنون میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

مودی سے ان کے ووٹرز یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہندوستانی معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈال دیں گے، لیکن جب وہ اس کام کے لیے آگے بڑھیں گے تو یقیناً پاکستان کے ساتھ جاری کشیدگی کی صورتحال اس مقصد کی راہ میں اہم رکاوٹ بن جائے گی۔

چنانچہ ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ اس تناؤ زدہ صورتحال میں کسی حد تک ٹھہراؤ پیدا ہوجائے۔ گوکہ مسئلہ کشمیر کا حل آسان نہیں ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کو امید ہے کہ مودی کی کوشش یہی ہوگی کہ کوئی درمیان کا راستہ نکل آئے۔

گوکہ گجرات کے وزیراعلٰی کے طور پر نریندر مودی کا ریکارڈ متنازعہ رہا ہے اور ان کے پاکستان مخالف بیانات نے بہت سے تجزیہ نگاروں کے دلوں پر مثبت تاثرات مرتب نہیں کیے ہیں، تاہم مستقبل میں جنوبی ایشیائی خطے میں امن کے لحاظ سے یہ بات نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ اب ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کی سوچ کیا رُخ اختیارکرتی ہے ، خاص طور پر اس وقت جبکہ انہیں حکومت چلانے کے لیے دوسری پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب آنے میں ابھی وقت لگ جائے گا کہ انتخابات میں حاصل ہونے والی اس زبردست فتح نے کیا انہیں اتنی طاقت دی ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں موجود بنیاد پرست سوچ والے لوگوں سے بچتے ہوئے حقیقی معنوں میں پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا سکیں ؟

غور طلب امر یہ ہے کہ ماضی میں مودی کی پارٹی کے اقتدار میں رہتے ہوئے ہی ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں دو مرتبہ نہایت اہم موڑ آئے تھے۔ حالانکہ تب اس پارٹی کی کمان ایک ایسے رہنما کے ہاتھ میں تھی، جن کی برصغیر کی سیاسی ثقافت کے بارے میں سوجھ بوجھ کو مودی سے کہیں بہتر سمجھا جاتا ہے۔

نواز شریف کے دوسرے دور میں اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرا موقع جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں آیا تھا، جب واجپائی سارک ممالک کی کانفرنس کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے۔

ان کے دورے سے ایک جامع مذاکرات کا راستہ کھلا تھا، جو بدقسمتی سے سال 2008 میں ممبئی حملے کے سانحہ کا شکار ہو گیا۔

پھر بھی یہ بات خاصی اہمیت رکھتی ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر جمی برف پگھلانے کی کوشش کی تھی۔

ایک مرتبہ پھر ایسا ہی موقع آیا ہے۔ اس موقع پر نواز شریف نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستان کے سیاسی طبقے اور میڈیا کو پاکستان کی مخالفت کا ایک نیا راگ الاپنے کے موقع سے محروم کر دیا۔

بی بی سی ہندی کے مطابق ایک ہندوستانی سفارتکار کا کہنا ہے کہ انڈین بیوروکریسی کے حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ اب ملائی کھانے کے دن گزر گئے۔ اس لیے کہ نریندرا مودی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کام چوری بالکل بھی پسند نہیں کرتے اور کئی مرتبہ تو یہ جاننے کے لیے کام کی جگہوں پر خود پہنچ جاتے ہیں کہ کام کی تکمیل میں کتنا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

مودی کو حاصل ہونے والی بھاری اکثریت نے انہیں کچھ نہ کرنے کا بہانہ کرنے کے سامنے ایک ٹھوس رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔

وہ یہ بہانہ نہیں کر سکتے کہ وہ مخلوط حکومت کی مجبوری کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانوں کے لیے امن و آشتی کا راستہ نہیں نکال پائے۔