پاکستان

شدید خشک سالی کے بعد تھر میں قحط سی صورتحال

خوراک کی کمی سے چھتیس بچوں کی اموات، ایک لاکھ پچھتّر ہزار خاندان متاثر اور وزیرِ اعظم کا نوٹس۔

کراچی/مٹھی: سندھ کے ڈسٹرکٹ تھرپارکر کے زیادہ ترعلاقوں میں لوگوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اطلاعات کے مطابق خوراک کی شدید کمی کا شکار ہوکر اب تک کم ازکم بتیس بچوں کی اموات ہوچکی ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ پچھتّر ہزار خاندانوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں، اور ان میں سےکچھ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بیراجی علاقوں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

جمعرات کو موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے سرپرستِ اعلٰی بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر ایک امدادی آپریشن شروع کرے۔ انہوں نے صورتحال کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے اپنے اقلیتی امور کے مشیر سریندر والاسائے، جن کا تعلق تھر سے ہے، کو طلب کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے وزیرِ اعلٰی سندھ کے ساتھ مل کر کام کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی اور بحالی کے اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے منتخب نمائندے، رہنما اور کارکنان اس صورتحال کی شدت میں کمی لانے کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

تھرپارکر ڈسٹرکٹ کے ایک سو چھیاسٹھ دیہہ میں سے صرف نو دیہہ ایسے ہیں جو ایک بیراج سے سیراب ہونے والے علاقے میں واقع ہیں۔ اس ڈسٹرکٹ میں باقی تمام علاقے کے لوگوں کو اپنی خوراک اور مویشیوں کے چارے کی فصلوں کی کاشت کے لیے بارش پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

حالیہ موسم کے آغاز میں معمولی سے بونداباندی کے سوا اس علاقے میں بالکل بھی بارش نہیں ہوئی ہے۔ تقریباً تمام پانی کے ذخائر سوکھ گئے ہیں، اور تھر کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہر دو یا تین سال کے بعد تھرپارکر خشک سالی سے متاثر ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے، نتیجے میں یہاں کے لوگوں کو بیماریاں اور اموات جیسی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

مٹھی کے سول ہسپتال میں صحت کی دیکھ بھال کی مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں، جہاں غذائی کمی کے سبب بتیس بچے وفات پاچکے ہیں۔

بارش پر انحصار کرنے والے اس ضلع میں بھیڑوں، اونٹوں اور گائے بکریوں کی ایک بڑی تعداد خشک سالی کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں۔

بہت سے دیہاتوں میں موروں کی بڑی تعداد مرچکی ہے، لیکن اس صورتحال میں بہتری کے لیے محکمہ جنگلی حیات نے اب تک کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں اُٹھایا ہے۔

ڈیپلو، چھاچھرو، اسلام کوٹ، ڈہلی اور ننگرپارکر سے موصول ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے غریب تھری خاندان اپنے مویشیوں کے ساتھ بیراج کے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔

مٹھی کے ہسپتال میں داخل مریضوں کے رشتہ داروں نے شکایت کی ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ دوائیں فراہم نہیں کررہی ہے اور انہیں مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا ’’ہم اپنے بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے ہیں، دوائیں کیسے خرید سکتے ہیں؟‘‘

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی نے ڈان کو بتایا کہ سول ہسپتال میں چھتیس بچوں کی اموات رپورٹ کی گئی تھیں۔ ان میں سے تینتس کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں اور ان کا وزن بہت کم ہوچکا تھا۔ان اموات کا بنیادی سبب خوراک کی شدید کمی تھی۔

صوبائی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر مہیش کمار مالانی نے تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر مخدوم عقیل الزمان کے ہمراہ بدھ کو ہسپتال کا وزٹ کیا تھا۔

سول سرجن ڈاکٹر جواہر لعل نے انہیں بتایا کہ دواؤں، ڈاکٹروں، طبّی عملے اور صفائی کرنے والے عملے کی کمی نے لوگوں کے مصائب میں اضافہ کردیا ہے۔

ڈاکٹر مہیش کمار مالانی نے ہسپتال کی انتظامیہ کو یقین دلایا کہ جلد از جلد ان کی مشکلات کا ازالہ کردیا جائے گا۔

اگرچہ سندھ حکومت تھرپارکر کو ایک آفت زدہ علاقہ قرار دے چکی ہے، لیکن اب تک مزید نقصانات سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔

خشک سالی سے متاثرہ تھری لوگوں کے لیے گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ابھی اس اعلان پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے ریلیف کمشنر کو بتایا تھا کہ گندم کی ساٹھ ہزار بوریوں سے خشک سالی سے متاثرہ تقریباً ایک لاکھ پچھتّر ہزار خاندانوں کی ضروریات پوری نہیں ہوسکیں گی۔

وزیراعظم کا نوٹس

وزیرِ اعظم کا نوٹس

تھر اور خصوصاً مٹھی میں تھر میں چھوٹے بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) کو فوری طور پر سندھ کے مجاز اتھارٹی اور اداروں سے رابطے کیلئے کہا ہے تاکہ فوری طور پر ہر ممکن مدد اور ریلیف پہنچایا جاسکے۔

وزیرِ اعظم سے احکامات کے بعد این ڈی ایم اے نے سندھ میں مجاز اداروں سے رابطہ کیا ہے اور این ڈی ایم اے کے صوبائی آفس سے صورتحال کا ہنگامی بنیادوں پر جائزہ لینے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی تخمینے کے بعد این ڈی ای ایم اے اگلے چوبیس گھنٹوں میں مناسب امداد تھر پہنچادے گی۔