پاکستان

مظفر گڑھ: پنچایت کے حکم پر گینگ ریپ؟

پولیس نے نو میں سے چھ ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے، جبکہ متاثرہ فریق کے بیانات اور میڈیکل رپورٹ ریپ کی تردید کررہی ہے۔

مظفرگڑھ: انصاف کے نام پر انسانیت سوز اور حیوانیت سے بھرا سلوک جمعرات کو اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک پنچایت نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کے ساتھ تعلق الزام پر چالیس سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم دیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مظفر گڑھ سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر احسان پور ٹاؤن کے نزدیک تیس کے لگ بھگ گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ردی والہ میں ایک پنچایت کے حکم پر ایک مطلقہ خاتون کو برہنہ کیا گیا۔

اس واقعے کی اطلاع پھیلنے اور عوام کے غم و غصے کے بعد چھ افراد کو نو میں سے چھ افراد کو گرفتار کیا گیا، باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

یہ سارا واقعہ ایک ہفتہ پہلے چوبیس جنوری کو رونما ہوا تھا۔ مجید نامی ایک دیہاتی نے اپنے ایک رشتہ دار اجمل پر الزام عائد کیا کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ افیئر چلا رہا ہے، اس کے بعد مجید نے ایک پنچایت کی تشکیل کے لیے کوشش شروع کی۔ الزام عائد کرنے کے بعد اس نے بدلے کا مطالبہ کیا اور اجمل کو اپنی بہن (ف بی بی) کواس جگہ لانے پر مجبور کیا جہاں پنچایت جمع تھی۔

پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پنچایت کی سماعت دس منٹ تک جاری رہی۔ پنچایت کے سربراہ کو نواز کے نام سے شناخت کرلیا گیا ہے، جس نے ف بی بی کو متاثرہ فریق کے مردوں کی جانب سے اجتماعی جنسی زیادتی کرنے کی سزا سنائی تھی۔ ف بی بی کو ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں مدعی کے رشتے دار نے اس کو برہنہ کیا اور اس کے ساتھ مار پیٹ کی۔

اس معاملے کا اچھے طریقے سے تصفیہ ہوگیا تھا۔ یہ کہنا ہے اجمل کا، جن پر افیئر کا الزام تھا، اور ان کی بہن کو سزا بھگتنی پڑی۔ اور وہ وہاں موجود تھے، جہاں ایک کے بعد دوسر مرد تیار تھا۔

ردی والہ میں ایک اکرم نامی ایک دیہاتی نے ڈان کو بتایا کہ ”یہ تنازعہ پُرامن طریقے سے ختم ہوگیا تھا۔“

”دونوں فریقین ایک ہی خاندان کے ہیں، اور کوئی بھی پولیس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا۔“

جمعرات کی دوپہر سے ردی والہ پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہاں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے گھر ہیں، ایک یا دو کمروں کے گھروں پر تالے پڑے ہیں۔ صرف چند دیہاتی جو سب کے سب مرد ہیں اور میڈیا کے درجنوں رپورٹرز اردگر اکھٹا ہیں۔

حملہ کرنے والے ایک ملزم نے تسلیم کیا کہ ف بی بی کے کپڑے پھاڑے گئے تھے اور ان کو تھپڑ مارے گئے تھے۔ لیکن ان کا ذہن ریپ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ”جنسی زیادتی نہیں کی گئی تھی۔“

ردی والہ میں متاثرہ فریق اور دیہاتیوں کی ہچکچاہٹ اور پاکستان بھر میں ایک خاتون کی سرعام بے حُرمتی کے خلاف احتجاج میں واضح فرق نظر آرہا تھا۔ ریاست اور معاشرے کی ناکامی کے خلاف آواز بلند کی گئی کہ وہ فوری انصاف کے نام پر پنچایت کے غیرانسانی طریقوں کے خلاف ایک مؤثر نظام لے کر آئے۔

اس واقعہ سے مختاراں مائی کیس کی یاد تازہ ہوگئی، جس میں بھی گینگ ریپ کا حکم دیا گیا تھا اور وہ واقعہ 2002ء کے دوران اسی ضلع مظفرگڑھ میں ہی رونما ہوا تھا۔

مختاراں مائی نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے ردی والہ کے واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ اگر ان کے کیس میں انصاف سے کام لیا جاتا تو ایسے واقعات سے بچا جاسکتا تھا۔

یہ واقعہ دائرہ دین پناہ پولیس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، جس نے نو ملزموں میں سے چھ کو جمعرات کی شام کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ مقدمہ کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 354-1, 365-B, 376, 511 کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا پر اس واقعہ کی رپورٹ سامنے آنے کے فوراً بعد وزیرِ اعلٰی شہباز شریف نے اس کا نوٹس لیا اور ضلعی رابطہ آفیسر فراست اقبال اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عثمان اکرم گوندل نے جائے واردات پر پہنچ کر تفتیش شروع کردی تھی۔

ڈی سی او نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ف بی بی کو مارنے اور برہنہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

دائرہ دین پناہ کے ایس ایچ او محمد رمضان نے کہا کہ متاثرہ فریق نے اس کیس کو آگے بڑھانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، یہاں تک کہ وہ اپنی ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ بھی بیان نہیں کرسکے۔

ایس ایچ او نے کہا کہ چھ مردوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ دیگر تین کی تلاش جاری ہے۔

ڈاکٹر نصرت رحمان جنہوں نے ف بی بی کا طبی معائنہ کیا تھا، نے ڈان کو بتایا کہ ان خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی تھی۔ بظاہر اس کی تشریح کے لیے جسمانی حملہ اور برہنہ کیا جانے سے کہیں زیادہ دردناک عمل کی ضرورت ہوگی، جسے ریپ کہا جائے۔