انڈیا اور پاکستان، افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے خواہشمند
واشنگٹن: ایک سینیئر امریکی اہلکارکا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے اگرچہ افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ خطرناک حد تک دشمنی اختیار کررکھی ہے، لیکن دونوں ہی چاہتے ہیں کہ افغان صدر حامد کرزئی امریکا کے ساتھ دوطرفہ سیکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کردیں۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز نے منگل کو سینیٹ برائے خارجہ تعلقات کو بتایا کہ ایران کو چھوڑ کر افغانستان کے علاقائی ہمسایہ ممالک بھی اس معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ روس کے صدر پیوٹن، چین کے صدر زی، ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھاور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت سب ہی ذاتی طور پر یہ معاہدے طے کرنے کے لیے صدر کرزئی پر زور ڈال چکے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ”ان میں سے زیادہ تر رہنما وسطی ایشیا میں امریکی افواج کی موجودگی کو پسند نہیں کرتی، لیکن یہ سب کے سبب تسلیم کرتے ہیں کہ بین الاقوامی فوجی اور اقتصادی امداد مسلسل جاری نہ رہی تو افغانستان کے اندر دوبارہ خانہ جنگی شروع ہونے کا خطرہ ہے۔“
جیمز ڈوبنز کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے واشنگٹن کے سینئر سیاسی مبصروں نے حوالہ دیا کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے اختلافات کے باوجوداس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی جاری رہنا ضروری ہے۔
جنوبی ایشیا کے ایک سینئر سفارتکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ”دونوں ہی کو خوف ہے کہ افغانستان سے تیزی سے امریکی انخلاء پورے خطے کو غیر مستحکم کرسکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ صدر کرزئی سیکیورٹی کے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کردیں۔“
انہوں نے واضح کیا کہ امریکیوں کے قیام جاری رہنے کی خواہش کے لیے دونوں ملکوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ”پاکستانی محسوس کرتے ہیں کہ امریکا کی لاتعلقی سے ان کے ملک کے اندر دہشت گردوں کو حوصلہ مل سکتا ہے، جبکہ ہندوستانیوں کا خوف اس وجہ یہ ہے کہ اس وجہ سے طالبان افغانستان پر غلبہ حاصل کرسکتے ہیں۔“
مبصرین نے نشاندہی کی کہ افغانستان کے طاقتور عناصر بھی اس طرح کے امکانات سے خوفزدہ ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قبائلی عمائدین کے گرینڈ جرگے نے گزشتہ ماہ صدر کرزئی پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کردیں۔