دنیا

ایران اور ترکی کا شام میں جنگ بندی کا مطالبہ

جنیوا مذاکرات سے پہلے ہمیں جنگ بندی کا فیصلہ کرنا چاہیے. ایرنی وزیر خارجہ.

تہران: ایران کے اعلٰی سفارتکار نے بدھ کے روز کہا ہے کہ تہران اور انقرہ جنوری میں شام امن بات چیت سے پہلے جنگ بندی پر زور دیں گے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد ظریف نے اپنے ترک ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہماری تمام کوششیں شامی تنازعے کو ختم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے اور جنیوا مذاکرات سے پہلے ہمیں جنگ بندی کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

ظریف نے کہا کہ ایران اور ترکی شامی بحران کے فوجی حل کے بغیر کئی مسائل پر ایک ہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

داؤد اوگلو نے بھی شام میں جنگ بندی تک پہنچنے کے مقصد کی کوششوں کے لئے حمایت کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام کے لوگ بدتر صورت حال کا شکار ہیں ہمیں دو ماہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ہمیں شام میں جنگ بندی کی کوششیں کرنی چاہیے جس سے جنیوا میں کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

ایران، شامی صدر بشارالاسد کا اہم اتحادی ہے جبکہ ترکی ان کا تختہ الٹنے کی کوشش میں باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔

روس اور امریکہ کی طرف سےمنعقد کی جانے والی کانفرس،22 جنوری کو سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہو گی، لیکن اس کے شرکاء اب بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

فرانس اور امریکہ کے مطابق، گزشتہ سال منعقدہ امن کانفرنس کے بعد جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس میں وہ ایک عبوری حکومت کے قیام کی تجویز دے سکتے ہیں۔

شامی حزب اختلاف نے تہران پر صدر بشار الاسد کو فوجی امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایران نے اس الزام کی تردید کی ہے جبکہ شام میں مشیر کی موجودگی کے حوالے سے تہران کا کہنا ہے کہ اس نے دمشق کو اقتصادی امداد دی ہے۔

واضح رہے کہ شام کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کسی بھی طورپر اپنا اقتدار نہیں چھوڑے گی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق دو سال میں شامی تنازعے میں تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔