پاکستان

اسلام آباد میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں؟ وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی میں تنازع

سرکاری اعداد و شمار جاری نہ کیے جانے سے سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم، پی ٹی آئی کا ’بہت زیادہ‘ اموات کا دعویٰ: کوئی مارا گیا ہے تو ثبوت کہاں ہیں؟ وفاقی حکومت کا موقف

اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مارچ کے دوران مبینہ طور پر ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے دعوے اور جوابی دعوے کی وجہ سے وفاقی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعت کے درمیان نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آبا کے بلیو ایریا سے منگل کی شب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اور کارکن احتجاج چھوڑ کر چلے گئے تھے، پی ٹی آئی کی قیادت نے الزام عائد کیا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں ان کے متعدد کارکن مارے جاچکے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے ذرائع نے 6 کارکنوں کی اموات کا دعویٰ کیا، اسی دوران پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ ’20 کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔

اس صورت حال میں سوشل میڈیا پر زیر گردش غیر مصدقہ اطلاعات، جنہیں پی ٹی آئی رہنما سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے ٹی وی چینلز پر بھی دہرایا گیا، اس میں اموات کی تعداد ’بہت زیادہ‘ بتائی گئی۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایکشن میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

عام طور پر کسی دہشت گرد حملے، بڑے حادثے یا قدرتی آفت کے بعد ادارے اور محکمہ صحت کے حکام ہسپتالوں میں زیر علاج افراد اور مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کرتے ہیں، تاہم اس مارچ کے بعد ایسے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے، سوشل میڈیا کے صارفین اور بعض صحافیوں کی جانب سے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے معلومات شیئر کی جارہی ہیں جن کے پس پردہ کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔

جب وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کے سامنے ’اموات‘ کے حوالے سے سوال رکھا گیا تو انہوں نے پوچھا ’ثبوت کہاں ہے؟‘

ڈان کی جانب سے مختلف ہسپتالوں کے حکام سے بات چیت کی گئی، یہ حکام کسی واقعے کے بعد میڈیا کو مرنے والے افراد کے اعداد و شمار کی تفصیل شیئر کرتے ہیں، تاہم موجودہ صورت حال میں ان میں سے کسی نے بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مارچ کے دوران ڈیوٹی پر تعینات کسی اہلکار کے پاس آتشیں اسلحہ موجود نہیں تھا، اس لیے عام شہریوں کی ہلاکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس ساری صورت حال نے بعض عناصر کو موقع دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات پھیلائی جاسکیں، اس طرح کے کیسز میں ایسی ہی معلومات مین اسٹریم ٹی وی چینلز پر بھی دکھائی دیتی ہے۔

اسلام آباد کے پولی کلینک لائے جانے والے افراد کی ’مبینہ فہرست‘ سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے، اسی رپورٹ کو بعض صحافیوں نے بھی اٹھایا ہے، اس مبینہ فہرست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کم از کم 2 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔