دنیا

اسرائیل- ایران تنازع: امریکا کا اسٹرائیک گروپ کو مشرق وسطیٰ میں طیاروں کی تعیناتی تیز کرنے کا حکم

تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ پینٹاگون کی جانب سے آبدوز کی تعیناتی کا عوامی طور پر اعلان کرنا غیر معمولی ہے۔

امریکا نے اسرائیل پر ایرانی حملے کے خدشے کے پیش نظر جنگی طیاروں اور بحریہ کے جنگی جہازوں کے ایک اسٹرائیک گروپ کو مشرق وسطیٰ میں طیاروں کی تعیناتی تیز کرنے کا حکم دے دیا۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ سے بات کرنے کے بعد ابراہم لنکن اسٹرائیک گروپ کو خطے میں اپنی تعیناتی کو تیز کرنے کا حکم دیا اور اسی کے ساتھ انہوں نے گائیڈڈ میزائل آبدوز کی تعیناتی کا بھی اعلان کردیا۔

تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ پینٹاگون کی جانب سے آبدوز کی تعیناتی کا عوامی طور پر اعلان کرنا غیر معمولی ہے۔

یاد رہے کہ امریکی فوج نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اضافی لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز تعینات کریں گے کیونکہ واشنگٹن اسرائیل کے دفاع کو تقویت دینا چاہتا ہے، ایران کی حمایت یافتہ حماس کے سیاسی رہنما اسمعیل ہنیہ کو 31 جولائی کو ایرانی دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، اس کے بعد ایران نے اسرائیل سے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا، ایران نے اس قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے تاہم اسرائیل نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

اسمعیل ہنیہ کی شہادت اور اسرائیل کی طرف سے بیروت پر حملے میں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروپ حزب اللہ کے سینئر فوجی کمانڈر فواد شکر کے قتل نے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ غزہ کا تنازع مشرق وسطیٰ کی وسیع جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

یہ اس وقت سامنے آیا جب حماس جنگ بندی کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے خلاف پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے، جمعے کو امریکا، مصر اور قطر کے رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ 15 اگست تک جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔

اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے مذاکرات کار بھیجے گا، حماس نے شروع میں کہا تھا کہ وہ اس پیشکش کا مطالعہ کر رہی ہے لیکن اب اشارہ دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے نئے دور سے باہر ہو سکتی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو ایک خطاب میں تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، اس کے بعد سے واشنگٹن اور علاقائی ثالثوں نے غزہ میں یرغمالیوں کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں بار بار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔