حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبے پر عمل درآمد کا مطالبہ
حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کرنے والے فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ مزید مذاکرات کرنے کے بجائے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے سے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد کریں جب کہ فلسطینی شہری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے باعث فرار ہو رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے جمعرات کو طے شدہ مذاکرات کے دور کے لیے امریکا، قطر اور مصر کی دعوت قبول کر لی ہے جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر سیاسی فائدے کے لیے تنازع کو طول دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
حماس نے کہا کہ مزید مذاکرات یا نئی تجاویز کے بجائے 31 مئی کو جو بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد چاہتی ہے، اس منصوبے کی بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی توثیق کی تھی۔
اپنے بیان میں حماس نے کہا کہ وہ مطالبہ کرتی ہے کہ ثالث ممالک بائیڈن کے وژن اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر اس منصوبے پر عمل درآمد کا خاکہ پیش کریں جو انہوں نے تحریک کو پیش کیا تھا اور قابض اسرائیل کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ غزہ میں سیز فائر کا معاہدہ ان کی صدارت کے خاتمے سے پہلے ’ممکن‘ ہو سکتا ہے، امریکی صدر جوبائیڈن سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا ان کا خیال ہے کہ ان کی صدارت کی میعاد میں 5 ماہ باقی ہیں، اس دوران سیز فائر ہو سکتا ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہاں، یہ اب بھی ممکن ہے۔
نئے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے باہر ہونے کا اعلان کرنے کے بعد سی بی ایس کو اپنا پہلا انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے جو منصوبہ پیش کیا، اس کی جی 7 نے توثیق کی ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس کی توثیق کی ہے، یہ اب بھی قابل عمل ہے۔
جوبائیڈن نے کہا کہ میں ہر دن کام کر رہا ہوں تاکہ یہ معاملہ بڑھ کر علاقائی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
واضح رہے کہ یکم جون کو امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے جامع سیز فائر کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے حماس سے اسے قبول کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جنگ ختم کرنے کا وقت ہے اور ہم اس موقع کو گنوا نہیں سکتے۔
جنوبی غزہ کا مرکزی شہر خان یونس پہلے ہی مہینوں کی بمباری اور جنگ سے تباہ ہو چکا ہے، اے ایف پی کے صحافیوں نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے انخلا کے تازہ احکامات جاری کیے جانے کے بعد سیکڑوں فلسطینی شمالی علاقے سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
اسرائیلی فوج نے پمفلٹ گرائے اور موبائل فون پر پیغامات بھیجے جن میں الجلا ضلع میں خطرناک لڑائی کا انتباہ دیا گیا اور فلسطینی شہریوں سے کہا گیا کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں جب کہ یہ علاقہ اتوار تک انسانی بنیادوں پر محفوظ زون قرار دیا گیا تھا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فلپ لزارینی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں جنوب مغربی غزہ میں 75ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
لازارینی نے کہا کہ انخلا کے نئے احکامات کے سبب اتوار کی صبح سے ہی بہت سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر نئے ٹھکانوں کی تلاش میں نکل پڑے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ صرف اپنے بچوں کو ہی ساتھ لے جا سکے جبکہ کچھ اپنی پوری زندگی کی پونجی صرف ایک چھوٹے سے تھیلے میں ڈال کر نئے سفر پر نکل پڑے، غزہ کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
علاقے کے رہائشیوں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے اتوار کو بھی خان یونس پر حملہ کیا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے جن کا نصر ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔
علاقے کے رہائشی عواد بربخ نے بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والے افراد عام شہری تھے اور وہ بازار میں خریداری کر رہے تھے جب انہیں ایک میزائل لگا۔
حماس کے زیرانتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری جنگ میں اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں اور بمباری سے اب تک کم از کم 39 ہزار 790 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 40 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں، اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے فلسطینیوں میں سے کم از کم ایک تہائی حماس کے افراد شامل ہیں۔