’حکام ایسا مواد پیش کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے‘
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں اپنے اوپر فرد جرم عائد کیے جانے سمیت ٹرائل کے خلاف سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت ملتوی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت کر رہے ہیں، سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم عدالت کے سامنے پیش ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ درخواست پر کیا اعتراض ہے ؟وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ رجسٹرار آفس نے کہا ہے آپ کی استدعا درست نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ بھی اپنی استدعا کسی ایک آرڈر کے خلاف رکھیں نہ، وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 12 نومبر کے خصوصی عدالت کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے، آپ اپنے آپ کو عبوری حکم کے خلاف استدعا تک محدود رکھیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ اب میں ہر اعتراض کو تو دور نہیں کر سکتا نا،اس پر تو درخواست نامکمل ہونے کا اعتراض بھی لگا ہے، آپ اس کو دیکھیں۔
عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درخواست نامکمل ہونے کا بھی اعتراض لگا ہے وہ اعتراض دور کریں۔
عدالت نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی، عدالت نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ایک اعتراض ختم کرتے ہوئےباقی اعتراض دیکھ کر ان کو ختم کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے کہا کہ 12 دسمبر کا آرڈر چیلنج کرنے کی حد تک آپ کا اعتراض ختم کر رہے ہیں، باقی ختم کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی حاضری اس آرڈر میں لگی ہوئی ہے ؟ وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم نے کہا کہ جی ہم وہاں موجود تھے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ جیل ٹرائل کن حالات میں ہو سکتا ہے؟ یہ تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ فیصلہ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ ہو چکا ہے، آپ پہلے اسے پڑھ لیں، وکیل نے کہا کہ جیل ٹرائل کاالعدم قرار دیا تو اس کے بعد کورٹ نے کچہری میں کیس کی سماعت کی مگر ملزمان کو پیش نہیں کیا گیا، جیل سپرنٹنڈنٹ نے ملزمان کو پیش کرنے سے معذرت کی جسے عدالت نے منظور کر لیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر جیل ٹرائل کی منظوری ہونے سے قبل جیل میں ٹرائل کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اتھارٹیز ایسا مٹیریل پیش کر سکتی ہیں جن کی بنیاد پر ملزمان کا جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے، وکیل بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج کورٹ کو خود سے جیل احاطہ میں شفٹ نہیں کر سکتے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا 29 نومبر کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا، عدالت نے نوٹیفکیشن کی کاپی پٹیشنر کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے فرد جرم سمیت سائفر کیس کی اب تک کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے گزشتہ روز اعتراضات لگا کر سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
سائفر کیس
یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔