اسرائیل-فلسطین تنازع ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے، وزیراعظم
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیل فلسطین تنازع ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے۔
سرکاری نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ پر منگل کے روز صحافیوں اور وی لاگرز سے اسلام آباد میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مسٔلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی ایک تسلسل کا حصہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ نگران حکومت کے دوران مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کوئی نئی پالیسی آ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا بطور ریاست شروع سے ظاہر ہے کہ ہمارا ایک مؤقف ہے کہ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے جس کے ہم بھی داعی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطینی فریق کو مظلوم سمجھتے ہیں، یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے، یہ اسرائیل اور فلسطین سے زیادہ ان دو قوموں کی جنگ ہے جو ایک کیفیت میں ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’دوسری جنگ عظیم کے دورانیے میں جرمن یہودی قوم ہٹلر کے مظالم کے باعث مظلومیت کی کیفیت میں تھے، جب وہ مظلومیت کی کیفیت سے نکلے، انہوں نے فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ صیہونی ریاست بنانے کی طرف گئے تو وہ ان کی کیفیت تبدیل ہو گئی اور وہ ظالم کی کیفیت میں آ گئے اور مظلومیت کی کیفیت فلسطینیوں پر آ گئی۔‘
نگران وزیراعظم نے کہا کہ اس تنازے میں سب سے بڑا فریق فلسطین خود ہے، بطور ریاست اور معاشرہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا کا پہلا حق فلسطینی عوام کا ہے۔ یہ ان پر ہے کہ وہ امن کو کیسے موقع دیں، امن کو وقار کے ساتھ یا غلامی کے ساتھ جوڑیں، یہ ان پر منحصر ہے، یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کے جواب انہوں نے خود تلاش کرنے ہیں اور انہوں نے تلاش کیے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں گذشتہ ایک دو دہائیوں سے عالمی سطح پر دو ریاستوں کے تصور کا تذکرہ ہے، اس کی تجویز ہے کہ یہ ایک حل ہوسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اب بھی اسرائیل اس مذکورہ حل سے انکاری ہے جس کی وجہ سے وسیع طور پر مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر فلسطین کا مسٔلہ دن بدن پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا تنازع فلسطین اور مسئلہ کشمیر دونوں ایسے معاملات ہیں جن کا ہمارے معاشرے کو بنیاد پرست بنانے میں بہت گہرا کردار ہے، جہاں جہاں مذہب کو سیاست میں بطور آلہ استعمال کیا گیا، ان میں دونوں واقعات کو گہرائی سے جوڑا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بھی عالمی برادری چاہتی ہیں کہ قومیں بقائے باہمی اور امن سے رہیں تو وہاں ان دو مسائل کا حل کلیدی اور بنیادی کردار رکھتا ہے۔’
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی مسٔلہ فلسطین کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز غزہ کی وزارت صحت نے بتایا تھا کہ اسرائیلی بمباری سے جاں بحق افراد کی تعداد 830 اور زخمیوں کی تعداد 4 ہزار 250 تک پہنچ گئی۔
اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کرنے کے بعد بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں یہ نقصانات ہوئے ہیں اور محاصرے کے نتیجے میں خوراک، پانی اور بجلی کی سپلائی منقطع ہوگئی تھی جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
فلسطینی گروپ حماس نے مبینہ طور پر ہفتے کے آخر میں اسرائیل پر اپنے اچانک حملے میں تقریباً 150 افراد کو اغوا کرلیا تھا، اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر بغیر وارننگ کے اسرائیلی فضائی حملوں کے ذریعے غزہ کے رہائشیوں کو ’نشانہ بنانے‘ کا سلسلہ جاری رہا تو وہ مغویوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔
صحافتی تنظیموں اور حکام نے بتایا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ سٹی پر کی جانے والی فضائی کارروائیوں کے دوران 4 فلسطینی صحافی بھی جاں بحق ہو گئے تھے، فلسطینی پریس یونین نے بیان میں کہا تھا کہ ہفتے کو شروع ہونے والی جھڑپوں میں اب تک جاں بحق ہونے والے فلسطینی صحافیوں کی مجموعی تعداد 8 ہوگئی تھی۔