9 مئی کے پرتشدد واقعات: چیئرمین پی ٹی آئی تفتیش میں قصور وار پائے گئے، اسپیشل پراسیکیوٹر
لاہور کی انسداد دہشت گری عدالت نے 9 مئی کو ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں سے متعلق 5 مقدمات میں چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی ضمانت میں توسیع کردی جب کہ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے دوران تفتیش سابق وزیراعظم کو قصور وار پایا ہے۔
یہ مقدمات جناح ہاؤس حملہ، عسکری ٹاور، شادمان ٹاؤن تھانے پر حملے، ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر میں توڑ پھوڑ اور عمران کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کے دوران کنٹینر کو نذر آتش کرنے سے متعلق ہیں۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے سابق وزیراعظم کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ان کی ضمانت میں 21 جون تک توسیع کی تھی۔
جج ابہر گل خان نے آج کی کیس کی سماعت کی، اسپیشل پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ اور عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر جج کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر اسپیشل پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اپنی تفتیش مکمل کر لی ہے، اور چیئرمین پی ٹی آئی تفتیش میں قصوروار پائے گئے ہیں۔
پراسیکیوٹر کے بیان کے بعد عدالت نے 8 اگست کو ہونے والی اگلی سماعت کے دوران فریقین کے وکلا کو دلائل دینے کے لیے طلب کر لیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ سرور روڑ ،گلبرگ، شادمان سمیت دیگر پولیس اسٹیشنز میں مقدمات درج ہیں۔
سماعت کے بعد اسپیشل پراسکیوٹر فریاد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح ہاؤس حملہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف قصوروار قرار پائے ہیں، پولیس نے جناح حملہ کیس میں تفتیش مکمل کر لی ہے، پولیس نے تمام پہلوؤں سے تفتیش کی، ہمیں عمران خان کو حراست میں لینا ہے، ان سے حراست کے دوران سوشل میڈیا پیجز ریکور کرنے ہیں۔
خیال رہے کہ 10 مئی کو لاہور پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر اعلیٰ قیادت کے خلاف لاہور کینٹ میں جناح ہاؤس (کور کمانڈر ہاؤس) پر حملہ کرنے، 15 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا قیمتی سامان لوٹنے اور اسے آگ لگانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور 20 دیگر گھناؤنے جرائم میں معاونت کرنے پر سرور روڈ تھانے میں مقدمہ درج کیا تھا، جب وہ القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ملک بھر کی مختلف سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے تھے، خاص طور پر لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کے دروازے کو توڑا گیا تھا۔
بعد ازاں، عمران خان اور ان کی جماعت کے کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
فوج نے 9 مئی کے واقعات کو سیاہ باب قرار دیا تھا اور ان واقعات کے تقریباً ایک ہفتے بعد اعلان کیا تھا کہ ملوث ملزمان کا ٹرائل پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت کیا جائے گا۔
اس اعلان کے ایک روز ر بعد حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کی مخالفت کے دوران ہی قومی سلامتی کمیٹی نے اس فیصلے کی تائید کردی تھی جو کہ ملک کی خارجہ اور قومی سلامتی پالیسی سے متعلق ملک کا اہم فیصلہ ساز فورم ہے۔