دنیا

امریکا کی پاکستان اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کی حمایت

ہم ایک ایسے مستقبل کی حمایت کیلئے پرعزم ہیں جس میں تمام پاکستانی اور بنگلہ دیشی اپنی حکومتوں میں بامعنی طور پر حصہ لے سکیں، امریکی محکمہ خارجہ

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام بامعنی طور پر اپنی حکومتوں کے انتخاب میں حصہ لیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس میں پاکستان کاکس کی چیئرپرسن بھی ان قانون سازوں میں شامل ہوگئیں جو پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے ساتھ اپنے دیرینہ دوطرفہ تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔‘

امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ ’ہم ایک ایسے مستقبل کی حمایت کے لیے پرعزم ہیں جس میں تمام پاکستانی اور بنگلہ دیشی اپنی حکومتوں میں بامعنی طور پر حصہ لے سکیں اور اپنے آئین اور قوانین کے مطابق اپنے انتخابات کے نتائج کا تعین کر سکیں‘۔

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے رواں ہفتے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں آزادانہ، منصفانہ اور پرامن قومی انتخابات کی حمایت کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

اس پالیسی کے تحت امریکا ایسے کسی بھی بنگلہ دیشی فرد کے لیے ویزا جاری کرنے پر پابندی لگائے گا جسے ملک کے جمہوری انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے ذمہ دار، یا اس میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔

بعد ازاں بنگلہ دیش نے اعلان کیا کہ وہ اپنے انتخابات میں غیر قانونی مداخلت سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

تاہم امریکی انتظامیہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران میں فریق بننے سے انکاری ہے۔

واشنگٹن میں سرکاری بریفنگ میں جب بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا تو امریکی حکام نے واضح کیا کہ واشنگٹن، پاکستان میں کسی خاص امیدوار یا جماعت کی حمایت نہیں کرے گا۔

جب پاکستان کے لیے مخصوص تبصرے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو عہدیدار کہتے ہیں کہ ’امریکا پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے پرعزم ہے۔‘

تاہم کیپیٹل ہل (جہاں امریکی پارلیمان واقع ہے) میں صورتحال مختلف ہے جہاں سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں نے ایوان اور سینیٹ دونوں کے اراکین کی ایک بڑی تعداد کی ہمدردی حاصل کی۔

حال ہی میں 69 کانگرس اراکین نے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو ایک خط بھیجا، جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنے اختیار میں ’تمام ٹولز‘ استعمال کریں اور اب وہ سینیٹ میں بھی ایسی ہی تحریک پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جمعہ کو پی ٹی آئی کے امریکی چیپٹر نے ایوان میں پاکستان کاکس کی بانی اور موجودہ چیئرپرسن شیلا جیکسن لی کی بھی ہمدردی سمیٹ لی۔

سلسلہ وار ٹوئٹس میں انہوں نے کہا کہ ’کانگریشنل پاکستان کاکس کی بانی اور چیئر کے طور پر، میں پاکستان سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حکومت کی پرامن مخالفت کا اظہار کرنے والوں کے تحفظ کے فقدان کی رپورٹس کے بارے میں انتہائی فکر مند ہوں‘۔

شیلا جیکسن لی نے کہا کہ انہیں خاص طور پر اس بات پر تشویش ہے کہ سابق وزیر اعظم کو ’متعدد بار گرفتار کیا گیا‘ اور ’اس بظاہر ناانصافی پر منصفانہ ردعمل کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان میں لوگوں کو ’آزاد، محفوظ اور بلا روک ٹوک احتجاج‘ کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھیں گی اور ان سے اپوزیشن اور دیگر کے خلاف انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے خاتمے پر زور دینے کو کہیں گی اور اس کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم امریکا اور پاکستانی تعلقات اور ایک جمہوری پاکستان کو فروغ دیتے رہیں۔