پاکستان

حکومت-اپوزیشن معاہدے کے بعد بجٹ اجلاس کی کارروائی محض رسمی ہوگی

دونوں فریقین نے اتفاق رائے سے ووٹنگ کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اسلام آباد: حکومت اور دو بڑی اپوزیشن جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان پس پردہ معاہدے نے بجٹ سیشن کو محض ایک رسمی شکل دے دی ہے۔

دونوں فریقین نے اتفاق رائے سے ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کورونا وائرس کے پیش نظر سماجی دوری کو یقینی بنانے کے لیے ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 86 ارکان (کل 342 ممبران پر مشتمل ایوان کا ایک چوتھائی حصہ) حکومت سے 46 اور حزب اختلاف سے 40 افراد ایوان میں موجود ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی شرائط جنہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایس او پیز (معیاری آپریٹنگ طریقہ کار) کے لیے ہدایت نامہ کہا گیا تھا، کو ایوان میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کی ہدایت پر پڑھ کر سنایا۔

اجلاس کے آغاز پر پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے بعد ادارے کی نجکاری کے حکومتی فیصلے پر پیپلز پارٹی کے اراکین کی طرف سے مختصر وقت کے لیے شور شرابہ بھی دیکھنے کو ملا۔

اپوزیشن کی ایک اور جماعت، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس معاہدے کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی' قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کیا جس کے بعد اس کے اراکین نے ڈائس کے سامنے اسپیکر کی جانب سے ایوان سے ان کی کرسیاں ہٹانے پر احتجاج کیا کیونکہ معاہدے کے تحت صرف 86 کرسیاں ایوان میں رکھی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا 21-2020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکان

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جو بعد ازاں اسپیکر کی غیر موجودگی میں اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، نے اعلان کیا کہ جے یو آئی (ف) کے اراکین کے لیے نشستیں ایوان میں رکھی جائیں گی اور ان کے تمام اراکین کو کارروائی میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی تاہم جے یو آئی (ف) کے اراکین نے کرسیاں دیے جانے کی یقین دہانی کے باوجود واک آؤٹ کیا۔

اپوزیشن کی متفقہ شرائط پر مولانا عبد الواسع اور اسد محمود نے احتجاج کیا اور کہا کہ آئین کے تحت ایوان کے کسی بھی رکن کو اجلاس میں شرکت سے نہیں روکا جاسکتا۔

معاہدے کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ممبران اور عملے، جنہوں نے کورونا ٹیسٹ نہیں کروائے ہیں، کو اسمبلی ہال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، ایوان کی کارروائی 30 جون تک روزانہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے جاری رہے گی اور اپوزیشن بجٹ پر ووٹ ڈالنے کے روز کے علاوہ کورم کی نشاندہی نہیں کرے گی۔

نوید قمر نے کہا کہ پارٹیوں کے سربراہان ذمہ دار ہوں گے کہ وہ کسی خاص دن شرکت کرنے والے اراکین کی فہرستیں فراہم کریں اور صرف ان ممبران کو اس ایوان میں آنے کی اجازت ہوگی جن کے نام فہرستوں میں موجود ہوں گے۔

ووٹنگ کا عمل نہیں ہوگا

نوید قمر کی جانب سے پڑھے گئے معاہدے کا سب سے دلچسپ اور حیران کن نکتہ یہ تھا کہ اپوزیشن کے ارکان تحاریک پیش کریں گے لیکن ان پر رائے دہی نہیں ہوگی اور وہ اس سے دستبردار ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فنانس بل کی گرانٹ اور حتمی منظوری کے مطالبات پر ہی ووٹ ڈالے جائیں گے جو ان کے مطابق ایک قانونی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پوری دنیا کی پارلیمانی جمہوریہ میں بجٹ کی پیش کش اور علامتی تحاریک کی پیشکش پر ووٹ ڈالنا پارلیمنٹ کا سب سے اہم کام سمجھا جاتا ہے اور پوری دنیا کی اپوزیشن جماعتیں حکومتوں کو تحریکوں کی پیش کش کے ذریعہ امتحان سے گزارتی ہیں کیونکہ حکومتوں کو بجٹ اجلاس کے دوران اپنے زیادہ سے زیادہ اراکین کی موجودگی کو یقینی بنانا پڑتا ہے۔

پارلیمانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تحاریک پر حکومتی شکست کو حکومت کی اکثریت برقرار رکھنے میں ناکامی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور یہ حکومت کی برطرفی کا ایک سبب بھی بن سکتا ہے۔

نوید قمر نے مزید نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ممبران کو حاضری کے لیے اسمبلی ہال میں آنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ مرکزی دروازے پر اپنی حاضری کو نشان زدہ کرسکتے ہیں جسے گیٹ نمبر ایک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جے یو آئی (ف) کے مولانا عبد الواسع نے معاہدے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت ایوان کے کسی بھی ممبر کو اجلاس میں شرکت سے روکا نہیں جاسکتا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ جے یو آئی (ف) ہی ملک میں حقیقی اپوزیشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ پر ہر ممبر کو بولنے کا حق ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ جے یو آئی (ف) کے تمام اراکین اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے اور مطالبہ کیا کہ انہیں کرسیاں فراہم کی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے بجٹ کیلئے پیش کی گئی اہم تجاویز

انہوں نے کہا کی یہ معاہدہ انہیں بالکل بھی قابل قبول نہیں، اگر کورونا وائرس کی صورتحال اتنی سنگین ہے تو حکومت اس وقت 18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری جیسے حساس امور کو کیوں چھیڑ رہی ہے۔

اسٹیل ملز کی نجکاری

کراچی سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے آغا رفیع اللہ نے پی ایس ایم کی نجکاری کے حکومت کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے اور اراکین اسمبلی میں پلے کارڈ تقسیم کیے۔

ڈپٹی اسپیکر نے رفیع اللہ سے پلے کارڈز تقسیم نہ کرنے کو کہا لیکن انہوں نے ان ہدایات کو نظرانداز کردیا اور کچھ ممبران نے نعرے بازی بھی کی۔

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے پیپلز پارٹی کے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ملک کے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کو منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اپنے معمول کے جارحانہ انداز میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سابقہ دو حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پی ایس ایم، پی آئی اے، پاکستان پوسٹ اور پاکستان ریلوے سمیت تمام ایس او ای کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پی ایس ایم اور پی آئی اے سمیت 41 کے قریب ریاستی اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

قبل ازیں وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے چار بل متعارف کروائے جو کمیٹیوں کے حوالے کردیئے گئے۔

ان بلوں میں میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (ترمیمی) بل 2020، نیشنل کالج آف آرٹس انسٹی ٹیوٹ بل 2020، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (ترمیمی) بل 2020 اور ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل 2020 شامل ہیں۔

پہلی بار ترک موسیقاروں کی گانے کی صورت میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی

کورونا وبا: ملک میں 6321 ریکارڈ نئے کیسز، متاثرین ایک لاکھ 23 ہزار سے زائد

پارک لین ریفرنس: آصف زرداری پر فرد جرم 26 جون کو عائد کیے جانے کا امکان