ٹک ٹاک میں مواد پارٹنرشپ کو دیکھنے والے برائن تھیونسین نے ایک آن لائن کانفرنس کے دوران بتایا کہ کورونا وائرس ککی وبا کے دوران کمپنی نے دیکھا ہے کہ لوگ نہ صرف زیادہ وقت ویڈیوز دیکھتے ہوئے گزار رہے ہیں بلکہ وہ مختلف قسم کے مواد بشمول گیمنگ، کھانا پکانا، فیشن، اسپورٹس اور دیگر کو بھی تخلیق کررہے ہیں۔
کمپنی کی جانب سے لائیو ویڈیو پر بھی زیادہ توجہ دی جارہی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ صارفین نہ صرف کچھ نیا اور منفرد چاہتے ہیں بلکہ ایسے مواد کے بھی خواہشمند ہیں جو گھروں میں محدود رہنے کے دوران چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دے۔
ٹک ٹاک دیگر کمپنیوں جیسے فیس بک کی زیرملکیت انسٹاگرام اور گوگل کی زیرملکی یوٹیوں کے مقابلے میں اس طرح کے نئے مواد کے ذریعے صارفین کو ایپ میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے مجبور کرنا چاہتی ہے، تاکہ اسے اشتہارات کی بدولت زیادہ آمدنی ہوسکے۔
برائن تھیونسین کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں تعلیمی مواد اگلے 12 سے 18 ماہ کے دوران اس پلیٹ فارم کا بڑا حصہ بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تصور کریں مستقبل میں ٹک ٹاک کا ایک صارف اسکوبا ڈائیونگ کی ایک ویڈیو دیکھتے ہوئے یہ معلومات حاصل کرسکے کہ کس طرح وہ اسکوبا ڈرائیور بن سکتا ہے یا آسٹریلیا کے گریٹ بیرئیر ریف کے دورے پر تحقیق کرسکے۔
ان کا کہنا تھا 'مختلف چیزیں دیکھنے سے ہی آگے بڑھیں گی، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مواد ہمیشہ بہترین ہو'۔
ٹک ٹاک میں اب بھی صارفین تفریحی ویڈیوز سے ہٹ کر بھی کافی کچھ ہورہا ہے جیسے لوگ خطاطی یا دیگر صلاحیتوں کا اظہار کررہے ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹروں سمیت دیگرطبی ماہرین کورونا وائرس کی وبا کے دوران اپنی طبی معلومات شیئر کررہے ہیں۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹک ٹاک کی جان سمجھی جانے والی لپ syncing ویڈیوز کا دور ختم ہورہا ہے بلکہ کمپنی کے خیال میں بس گنجائش کو بڑھا رہی ہے۔
خیال رہے کہ ٹک ٹاک کو اپریل 2020 تک دنیابھر میں 2 ارب سے زائد بار ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا تھا۔