ان کا کہنا تھا کہ ملک میں برآمدات کرنے والوں پر زیرو ریٹنگ ہے یعنی برآمدی شعبے پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور یہ نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی، تاہم برآمدات کے ساتھ اپنے ملک میں اشیا فروخت کرنے پر ٹیکس دینا ہوگا۔
مشیر خزانہ نے بتایا کہ برآمد کنندگان کو برآمدات بڑھانے کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں مراعات دی گئیں، جبکہ حکومت کی جانب سے اندرونی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ برآمدی شعبے کے ٹیکس نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی بلکہ ہم برآمد کنندگان کو مدد دینے کے لیے مزید اقدامات کر رہے ہیں، تاہم اس وقت ہمارے اندازے کے مطابق مقامی شعبے میں 1200 ارب روپے کی ٹیکسٹائل کی سیل ہورہی ہے لیکن ہمیں 6 سے 8 ارب روپے ٹیکس ملتا ہے جو ناقابل قبول ہے، اس ملک میں کاروبار کریں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ 1200 ارب پر 6 یا 8 ارب کا ٹیکس دیں۔
عبدالحفیظ شیخ نے ڈالر کی قدر سے متعلق بتایا کہ برآمدات میں واضح کمی آئی ہے جس سے ڈالر کی قیمت بڑھی۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کل موجودہ حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا، جس میں 3 سے 4 اہم چیزوں پر توجہ دی گئی، سب سے پہلا بیرونی قرضوں پر منظم حد تک قابو پانا ہے اور اس کے لیے 9 ارب 2 کروڑ ڈالر موبلائزڈ کیے گئے، پیٹرولیم مصنوعات کے لیے تاخیری ادائیگیوں کا انتظام کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مزدور کی تنخواہ کم ازکم 17500 مقرر، پنشن میں 10 فیصد اضافہ
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ درآمدات پر ڈیوٹی لگائی گئی اور برآمدی شعبے کو مراعات دی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دوسری توجہ مالی خسارے پر تھی کہ یعنی آمدنی اور اخراجات میں توازن اور اس کے لیے ریونیو کا ہدف چیلنجنگ بنایا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنقید کی جارہی ہے کہ ریفنڈز کے سلسلے میں مشکل نہ ہو، اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ریفنڈ کے سلسلے میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور اس نظام میں بہتری کے حوالے سے ایک گیم پلان پیش کریں گے ساتھ ہی کوشش کریں گے کہ بنگلہ دیش اور چین کا ماڈل اپنایا جائے، ہم کاروباری شعبے کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ تجاویز دیں تاکہ اس معاملے کو ختم کیا جائے۔
ٹیکس نظام میں بہتری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مختلف چیزوں پر سیلز ٹیکس مینوفکچرنگ کے موقع پر وصول کیا جائے تاکہ گڑ بڑ کے امکانات کم ہوں۔
مزید پڑھیں: دفاعی بجٹ 11 کھرب 52 ارب روپے برقرار
عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ہم فائلر اور نان فائلر کے فرق کو بھی ختم کر رہے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ لوگ مستقل نان فائلر رہیں، اس نظام کو ختم کیا جارہا ہے اور اب ماضی میں نان فائلر رہنے والا کوئی گاڑی یا جائیداد خریدے گا تو اسے 45 دن میں فائلر بننا پڑے گا، اگر ایسا نہیں کرے گا تو 45 دن بعد اسے نوٹس بھیج دیا جائے گا، جس کے بعد اسے خریدی گئی گاڑی یا جائیداد سے متعلق آمدنی کے ذرائع ظاہر کرنے ہوں گے، اس اقدام کے کافی اچھے اور دور رس نتائج آئیں گے۔
مزید بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فائلر کے طریقہ کار کو بھی کافی وضع کیا گیا ہے، نان فائلر بذریعہ کمپیوٹر 6 منٹ میں فائلر بن سکتا ہے۔
ٹیرف کا نظام بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متعدد مصنوعات پر مشتمل ایک ہزار 655 لائنز، خام مال جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کردی ہے جو ایک بڑا اقدام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لگژری اشیا کی درآمدات پر ڈیوٹی میں 4 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے کیونکہ اگر امیر لوگ ایسی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اضافی 4 فیصد ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج، گو نیازی گو کے نعرے
اس موقع پر صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاست اور معیشت کے حقائق کو مدغم نہیں کرنا چاہیے، سیاست میں اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں جو جمہوریت کی خوبصورتی ہے، تاہم ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ حقائق کو تسلیم کریں جبکہ اس کے باوجود بھی اختلاف رائے رکھا جاسکتا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بجٹ کو کسی بھی انداز میں پیش کرسکتا ہے، کوئی اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا کہہ سکتا ہے لیکن ہمارا عزم ہے کہ حقیقت کو سامنے رکھیں اور ہم سب مل کر 5 ہزار 500 ارب روپے ٹیکس کی وصولی کے ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے درمیان عزت سے کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹیکس وصول کرنا ہوگا، جب بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا ٹیکس وصول کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قدرتی طور پر کوئی ٹیکس دینا نہیں چاہتا لیکن دنیا بھر میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمیں معاشرے میں کن لوگوں کا خیال رکھنا ہے اور اگر ہم فاٹا کے لوگوں کو پیسے دے رہے ہیں تو وہاں جنگ ہوئی ہے اور لوگ پریشانی سے گزرے ہیں۔
ٹیکس آمدن کے ہدف میں فرق سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کچھ فیلڈز کی نشاندہی کی ہوئی ہے تاہم 250 ارب روپے کے فرق کو پورا کرلیا جائے گا۔
نئے ٹیکسز لگائے جانے اور ان سے بڑھنے والی ممکنہ مہنگائی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں سیکٹرز کے اعتبار سے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس میں مہنگائی پر اثر نہیں پڑے گا۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ موجود حکومت قرضہ لے رہی ہے اور اس کو اچھے انداز میں استعمال نہیں کر رہی تو اس پر حکومت خوشی سے احتساب کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔