واضح رہے کہ دورے سے قبل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں آرسی ایم ایچ کے حوالے سے سماعت ہوئی، جس کے فوراً بعد شیخ رشید نے انہیں یہ کہتے ہوئے زیر تعمیر ہسپتال کا دورہ کرنے کی دعوت دی کہ اگر آپ دورہ کریں گے تو 2006 سے التوا کا شکار ہسپتال کے منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز ہوجائے گا۔
اس سے قبل دوران سماعت نیشنل انجینیئرنگ سروس کے حکام کی جانب سے چیف جسٹس کو ہسپتال کی تعمیر کے معاملے پر بریفنگ دی گئی تھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ اب دورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم سماعت کے اختتام پر انہوں نے اچانک راولپنڈی جانے کے احکامات دے دیئے۔
مزید پڑھیں: انتخابات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے،محمود خان اچکزئی
خیال رہے کہ راولپنڈی زچہ و بچہ ہسپتال عید گاہ روڈ پر کئی دہائیوں قبل قائم ہونے والے تپ دق کے ہسپتال کی جگہ پر زیر تعمیر ہے، جو عام طور پر ٹی بی ہسپتال کے نام سے معروف تھا، یہ منصوبہ وفاقی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے شروع کیا تھا تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد یہ پنجاب حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔
ابتدا میں پنجاب حکومت نے منصوبہ لینے سے انکار کیا تھا، اسی دوران ہسپتال کی گنجائش بڑھاتے ہوئے 2 کے بجائے 14 آپریشن تھیٹرز کردیے گئے جس کے بعد یہ معاملہ مزید فنڈ کی فراہمی کے باعث واپس وفاقی حکومت کو منتقل کردیا گیا تھا۔
ادارے کی ساکھ خراب کرنے کیلئے الزامات لگائے گئے، چیئرمین نیب
دوسری جانب چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کی جانب سے نیب کی ساکھ خراب کرنے کے لیے قبل از وقت دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گرفتاریوں، نااہلیوں نے شفاف الیکشن پرسوالیہ نشان لگادیا،شہبازشریف
نیب کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون کے مطابق کام کررہا ہے اور وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہے گا۔
اس ضمن میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے تمام ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت بھی کی گئی کہ بدعنوانی میں ملوث کسی شخص کو بھی نہیں چھوڑا جائے۔
انہوں نے قومی احتساب بیورو کے دیگر عملے کو بھی محنت اور جاں فشانی سے کام کرنے کی ہدایت کی تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ذہنی معذور افراد کے ہسپتال کا دورہ، مریضوں کی شکایات
بیان میں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ گزشتہ 7 ماہ کے عرصے کے دوران نیب کی موثر کارروائیوں کی بدولت 350 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے 2 ارب 20 کروڑ روپے کی خطیر رقم واگزار کرائی گئی جو ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔
چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ نیب پر بے بنیاد الزامات لگا کر اسے معاشرے میں پھیلی بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں سے نہیں روکا جاسکتا۔