اس حوالے سے جے یو آئی ف کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ جماعت اسلامی 2002 کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر اپنے پسندیدہ اضلاع میں ایم ایم اے کے ٹکٹس چاہتی ہے جبکہ جے یو آئی 2013 کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر ٹکٹس کی تقسیم کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: متحدہ مجلس عمل بحال: مولانا فضل الرحمٰن صدر منتخب
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی جنوبی خیبرپختونخوا کے ہر اضلاع اور صوبائی دارالحکومت پشاور سے آدھی نشستوں پر انتخابی امیدواروں کے لیے نظر جمائے بیٹھی ہے جبکہ بونیر، نوشہرہ اور مردان میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات ہیں، جس کے باعث ایم ایم اے کے امیدواروں کے اعلان میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔
جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ضلع بونیر سے قومی اسمبلی کی نشست کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ اسی ضلع سے منتخب ہونے والے جماعت اسلامی کے سابق ایم این اے نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور وہ اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں ہماری جماعت کے امیدوار تیسرے نمبر پر کھڑے تھے لیکن جماعت اسلامی ہمارے امیدواروں کی مخالفت کر رہی ہے۔
رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ہمارے گڑھ جنوبی خیرپختونخوا کے ہر اضلاع سے نشست کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ آج تک اس جگہ سے جماعت اسلامی کے امیدوار کو 2 ہزار سے زائد ووٹ تک نہیں ملے ہیں، ایسے میں ایم ایم اے کا ٹکٹ دینا ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب جب اس حوالے سے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے کا مرکزی پارلیمانی بورڈ اس بات پر متفق ہوا تھا کہ اسمبلی کی تقریباً 80 فیصد نشستوں پر انتخابی امیدوار ہوں گے۔
تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کے درمیان اس معاملے پر ڈیڈلاک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ مجلسِ عمل نے 12 نکاتی انتخابی منشور پیش کردیا
ان کا کہنا تھا کہ جماعتوں کی مقامی قیادت اپنے متعلقہ اضلاع میں ٹکٹ کے حوالے سے فیصلہ کریں گی اور جب یہ معاملہ طے نہیں ہوگا تو اس معاملے کو صوبائی سطح پر فیصلے کے لیے بھیج دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر صوبائی قیادت بھی اس کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر معاملہ مرکزی قیادت کو بھیجا جائے گا۔
مشتاق احمد نے دعویٰ کیا کہ پشاور میں ایم ایم اے کی نامزدگیوں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔