پاکستان

نامزدگی فارم میں ترامیم کا معاملہ: لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

اتنخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے، اگر تاخیر ہوئی تو الیکشن کمیشن ذاتی طور پر اس کا ذمہ دار ہوگا،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
|

لاہور: سپریم کورٹ نے نامزدگی فارم میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا۔

انتخابات میں امیدواروں کے نامزدگی فارم میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جنہیں سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ان دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور الیکشن کمیشن کے وکلا کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 2 دن سے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا عمل روک رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کے نامزدگی فارم کو کالعدم قرار دے دیا

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی شیڈول جاری کیا جاچکا، تاہم نامزدگی فارم میں تبدیلی کے معاملے سے عام انتخابات میں تاخیر ہوگی۔

سردار ایاز صادق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا نامزدگی فارم کی قانون سازی کالعدم قرار دینا بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو کسی بھی معاملے پر قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔

دونوں درخواست گزاروں کی جانب سے استدعا کی گئی کہ نامزدگی فارم کے معاملے کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے لہٰذا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کی طرف سے ابتدائی دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کا نامزدگی فارم میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف فیصلہ معطل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: نگراں وزیراعظم کی کاغذات نامزدگی پر فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہدایت

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دورانِ سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئندہ عام اتنخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے، اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو الیکشن کمیشن ذاتی طور پر اس کا ذمہ دار ہوگا۔

خیال رہے کہ یکم جون کو لاہور ہائی کورٹ نے عام انتخابات 2018 کے لیے پارلیمنٹ کی جانب سے نامزدگی فارم میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آئین کی شق 62 اور 63 کے مطابق ترتیب دینے کا حکم دے دیا تھا۔

جسٹس عائشہ اے ملک نے فیصلے میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا مکمل اختیار ہے لیکن عوامی نمائندوں کی چھان بین آئین کے آرٹیکل62،63 کے تقاضوں کے تحت ہونی چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر نئے کاغذات نامزدگی میں ان شرائط کو لازم قرار دے اور مکمل چھان بین کے بعد امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: نامزدگی فارم میں تبدیلی کے خلاف پٹیشن خارج

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور نامزدگی فارم سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے بھی انتخابات کے لیے نامزدگی فارم سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا تھا کہ ایوانِ زیریں کے کسٹوڈین ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایوان کی جانب سے منظور کیے گئے قانون کے خلاف آنے والے فیصلے پر اپیل دائر کریں۔

بعدِ ازاں نگراں وزیراعظم ناصر الملک نے اٹارنی جنرل آفس اور وزارت قانون کو ہدایت کی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے کاغذات نامزدگی کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف فوری اپیل دائر کی جائے اور اس کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔