سپریم کورٹ میں قصور میں زینب کے ریپ اور قتل کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بشیر احمد میمن کی سربراہی میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس سے متعلق ثبوت فراہم کریں۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران مقتولہ کے والد امین انصاری، جے آئی ٹی کے سربراہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس اور چیف سیکریٹری پنجاب، اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت طلب کرنے پر صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اور سینئر صحافی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکم دیا کہ محمد ادریس کی سربراہی میں جے آئی ٹی صرف زینب قتل کیس کی تحقیقاتی کرے گی جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے جلد از جلد از تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے چالان جمع کرانے کی ہدایت کی اور کہا کہ پروسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر چالان کی خود نگرانی کریں۔
انہوں نے کہا کہ تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں اور زینب قتل کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ قصور کے متعلقہ دو ایس ایچ او اور ڈی ایس کی تعیناتی اور دیگر مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس اور شاہد مسعود کے درمیان مکالمہ
سماعت کے دوران چیف جسٹس اور اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، جسٹس ثاقب نثار نے ٹی وی اینکر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ غیر متعلقہ باتیں نہ کریں بینک اکاونٹس کے ثبوت دیں، اگر آپ کی خبر سچی نکلی تو آپ کو نمبر ایک صحافی ہونے کا اعزاز دیا جائے گا لیکن اگر یہ خبر غلط نکلی تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوگا۔
سماعت کے دوران عدالتی حکم پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام کی از خود نوٹس سے قبل اور بعد کی فوٹیج چلائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاہد مسعود نے جو دو نام اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیے تھے وہ عدالتی نوٹس میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی جے آئی ٹی عدالتی نوٹس کے بعد بنائی گئی ، جو کچھ آپ نے کہا اسے ثابت بھی کرنا ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ رات کو آپ کا پروگرام دیکھا تو ازخود نوٹس لیا تاکہ اتنے الزامات کے بعد ملزم کو قتل نہ کردیا جائے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے اپنی بات مکمل کرنے کے لیے وقت چاہیے، مجھے کہا گیا کہ میں ڈی پی او قصور کے سامنے پیش ہوں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم رات 8 بجے تک آپ کی بات مکمل ہونے تک بیٹھے ہیں۔
شاہد مسعود نے کہا کہ قصور سے پورنوگرافی کی 3 سو ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ بچی پر تشدد کیا گیا، اجتماعی زیادتی کی گئی مگر ایک ہی ملزم کو پکڑا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس گینگ کو بچانا چاہتے ہیں جس کو انہوں نے پالا ہے، اگر میری بات پر یقین نہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔
ٹی وی اینکر نے کہا کہ میں راؤ انوار کی طرح فرار ہوجاؤں گا اور نجی طیارے پر یہاں سے چلا جاؤں گا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے جبکہ ہم آپ کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ اتنے الزامات تفتیش کا رخ بدل سکتے ہیں، اب ہم نئی جے آئی ٹی بنا رہے ہیں، جس کے سامنے آپ کو پیش ہونا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ڈاکٹر شاہد کی باتیں درست ہوئی تو انہیں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا لیکن اگر غلط ہوئی تو تین طرح کی کارروائی کی جاسکتی ہے، جس میں انسداد دہشت گردی، توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
مقتولہ زینب کے والد کو پریس کانفرنس سے روک دیا گیا
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران عدالت نے مقتولہ کے والد امین انصاری اور وکیل آفتاب باجوہ کے میڈیا سے بات چیت کرنے پر پابندی عائد کردی، ساتھ ہی عدالت نے دونوں افراد کو تفتیش میں شامل ہونے کا حکم بھی دیا۔