نقطہ نظر

میں آپ کو یمن دکھانا چاہتی ہوں

یمن کے لوگ نفرتوں سے پاک ہیں اور جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

میں آپ کو یمن دکھانا چاہتی ہوں

سُکینہ عبدالقادر

میں پچھلے 5 سالوں سے یمن میں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔

میں ملائشیا میں تعلیم حاصل کر رہی ہوں، اور جب بھی کوئی مجھ سے میرے ملک کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں فوراً ان کو اپنی خدمات بحیثیتِ ٹور گائیڈ پیش کر دیتی ہوں۔

'جب بھی آپ یمن جائیں گے، تو میں خود آپ کو اپنے ساتھ گھمانے لے جاؤں گی'، یہی میرا ہمیشہ مسکراہٹ سے بھرا جواب ہوتا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ انہیں شبام حضرِ موت لے کر جاؤں تاکہ وہ دنیا کی قدیم ترین بلند عمارتوں والا شہر دیکھیں۔ اس بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ اس شہر کی گلیاں بھی محبت اور اخوت سے بھرپور ہیں۔

میں چاہتی ہوں کہ انہیں وادی داون لے کر جاؤں، تاکہ وہ دنیا کے خالص ترین شہد کا ذائقہ چکھ سکیں۔ یہ صدیوں پرانی روایت امن کی چاہت کی علامت ہے۔ میں ہمیں اس خوبصورت وادی میں چلتے ہوئے تصور کر سکتی ہوں، جب ابو بکر سلیم کے سریلے نغمے پوری وادی میں گونج رہے ہوں۔

میں انہیں باب الیمن دکھانا چاہتی ہوں، جو کہ سعادہ کے قدیم شہر کا داخلی دروازہ ہے۔ میں نے وہاں کے لوگوں میں ایک ناقابلِ یقین اور نایاب رحم دلی اور شفقت دیکھی ہے۔ مجھے اکثر اپنے بھائی کے ساتھ یہاں گزارا ہوا بچپن یاد آتا ہے، جب پاس سے گزرتا ہوا ہر کسان ہمیں پیار سے پھل تحفے میں دیا کرتا، اور بدلے میں پیسے لینے سے انکار کر دیتا تھا۔ یہ سب لوگ غریب تھے، لیکن پھر بھی امیر۔

مجھے یاد ہے کہ یہاں ہمیں کبھی بھی مدد حاصل کرنے میں پریشانی نہیں ہوئی۔ کس طرح اجنبی لوگ بھی بغیر کسی جھجھک کے اپنی گاڑیوں میں ہمیں لفٹ دے دیا کرتے تھے۔

یہاں پر ایک حیرت انگیز سلور مارکیٹ ہے، جہاں میں اپنے والد کے ساتھ اکثر جایا کرتی تھی۔ ہم لوگ ہمیشہ ایک یہودی گھرانے کی دکان پر رکا کرتے تھے، تاکہ ان سے سلام دعا کر سکیں۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ مجھے ہمیشہ ان کی عزت کرنی چاہیے۔ ان گلیوں میں لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ چاہے کسی کے نظریات و عقائد میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہوتا، سب ہی آپس میں گرمجوشی سے ملتے تھے۔

میں چاہتی ہوں کہ اپنے دوستوں کو سعادہ کی سب سے خاص چیز کے بارے میں بتاؤں۔ یہاں کی سب سے خاص چیز یہاں کے رسیلے انار ہیں، جن کا ذائقہ جنت کے پھلوں جیسا ہے۔ میں ان اناروں کی تعریف میں کئی صفحات لکھ سکتی ہوں۔

میں انہیں صنعاء اپنی آنکھوں سے دکھانا چاہتی ہوں۔ اس شہر نے ہمیشہ سے میرے دل پر سحر طاری کر رکھا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اپنے دوستوں کو اپنے رشتے داروں کے گھر جمعے کے دن کی روایتی بیٹھک میں لے کر جاؤں، جس میں ہم چائے پیتے ہیں، اور ایک دوسرے کا حال اور خیریت پوچھتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے دوستوں کو دکھاؤں کہ کیسے ہم گلیوں میں بچوں میں ٹافیاں بانٹتے ہیں، اور کس طرح ٹافیاں دیکھ کر ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔

پھر میں ان کے رہنے کے لیے تیرامنہہ میں انتظام کرواؤں گی، جہاں سے سورج غروب ہونے کا منظر بہت ہی روح پرور لگتا ہے، اور مغرب سے کچھ پہلے پورا شہر ہی سنہرے اور پرپل رنگوں میں نہا جاتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ میں اپنے دوستوں کو سقطریٰ کی ٹھنڈی سفید ریت پر چہل قدمی کے لیے لے جا سکوں، جہاں طرح طرح کی حیات پائی جاتی ہیں۔ اور انہیں بلند ترین پہاڑوں کی سب سے بلند چوٹی تک لے جاؤں، تاکہ وہ وہاں سے بادلوں کے سمندر کا نظارہ کر سکیں۔

میں ان کے ساتھ عدن گھومنا چاہتی ہوں۔ اور جب مرد اپنے دوست کی شادی پر ایک مخصوص دھن کے ساتھ تالیاں بجا رہے ہوں، تو میں وہاں کرنیش پر چلنا چاہتی ہوں۔

اور میں انہیں ایلیفینٹ ماؤنٹین تو ضرور دکھانا چاہتی ہوں، جو کہ سمندر کے بیچوں بیچ کھڑے ہاتھی جیسا لگتا ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ کاش ہم عدن کی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ سکیں، اور ان کے ہاتھ سے تیار کردہ پرفیوم لگا سکیں، جن میں زباد، باخور، اور لبان السفور کی سوندھی سوندھی خوشبوئیں شامل ہوتی ہیں۔

میں انہیں 'تعز' کا شہر دکھانا چاہتی ہوں اور وہاں کا مشہور شیبانی ریسٹورنٹ بھی، جہاں ایک ویٹر چلا کر آپ کا آرڈر دوسرے ویٹر کو، اور وہ اگلے ویٹر کو پہنچاتا ہے، اور اس طرح آرڈر کچن تک جا پہنچتا ہے۔

یہاں ملاوہ کی مشہور ڈبل روٹی اور عدن کی چائے آپ کو دنیا کے تمام مسائل بھلا دینے میں مدد دے گی۔

میں اپنے دوستوں کو تعز کے فنکاروں سے ملوانا چاہتی ہوں۔ یہ شہر یمنی ثقافت کا مرکز ہے۔ مجھے امید ہے کہ انہیں فلسفے پر طویل بحثیں پسند آئیں گی۔ مجھے امید ہے کہ انہیں تعز کی بہادر اور خودمختار خواتین سے مل کر اچھا لگے گا۔

میں لوگوں کو یمن دکھانا چاہتی ہوں، مگر کسی منفی لیبل والا یمن نہیں، بلکہ وہ یمن، جہاں کے لوگ نفرتوں سے پاک ہیں۔

لیکن اس سے بھی زیادہ مجھے امید ہے کہ میرا ملک اب بھی واپس جانے کے قابل ہے، اور جنگ سے مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا ہے۔

مجھے امید ہے کہ وہاں رہنے والے اب بھی بے گھر نہیں ہوئے ہوں گے۔

مجھے امید ہے کہ آپ جان گئے ہوں گے، کہ یمن بھی آپ ہی جیسے لوگوں کا گھر ہے۔ یمن کو صرف ایک چیز بچا سکتی ہے، اور وہ ہے دلوں کا ملنا۔

یمن کے کسی بھی مسئلے کا حل قتل و غارت میں نہیں ہے کیونکہ یہ نظریات کی جنگ ہے۔ اور اگر آپ جنگ رکوانا بھی چاہتے ہیں، تو وہاں کے لوگوں سے پوچھیں، کہ وہ جنگ کا خاتمہ کس شدت سے چاہتے ہیں۔

مجھے اکثر اپنی اوپر لکھی گئی تمام امیدیں ٹوٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

میں نے اپنے دوستوں سے کئی وعدے کر رکھے ہیں، کاش میں انہیں پورا کر سکوں۔

اور اگر میں ان وعدوں کو پورا نہ کر سکوں، تو میں اپنے دوستوں سے معافی چاہوں گی۔

انگلش میں پڑھیں۔


سکینہ عبدالقادر یمنی شہری ہیں، جنہوں نے اپنا بچپن صنعاء میں گزارا، اور حوثی گروہ کو قریب سے دیکھا۔ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا میں سیاسیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

سُکینہ عبدالقادر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔