حافظ کا شہر شیراز خاصا لبرل
اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ ایسی کون سی چیز ہے جو ایران کے ہر ایک گھر میں پائی جاتی ہے؟ تو اس کا جواب نہایت آسان ہے کہ چودھویں صدی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کی نظمیں۔
حافظ کو گزرے 600 سال گزرچکے ہیں، تاہم اب بھی ایران کی شناخت کو سمجھنے یاسمجھانے کا بڑا ذریعہ حافظ شیرازی ہی ہیں۔
اگرچہ ایران میں آپ کو حافظ کی کتاب کے ساتھ قرآن پاک بھی لازماً ملے گا تاہم اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ پہلی کتاب کو پڑھا جاتا ہے جبکہ دوسری کو نہیں۔
اگر آپ کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو پھر آپ کو ایران کے قومی ہیرو اور 14 ویں صدی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کے مزار پر جانا پڑے گا۔
مزار ہر وقت گل و گلزار بنا رہتا ہے۔ یہاں کا ماحول نہایت دلکش اور پُرسکون ہے۔ دن ہو یا رات مزار کے چبوترے انتہائی خوبصورت طریقے سے سجے رہتے ہیں۔ مزار کے چاروں طرف گلاب کا باغ ہے، فوّارے ہیں اور سنگتروں کے درخت ہیں۔
مزار میں سفید پتھر کے تابوت پر لکھی حافظ کی نظم کو عقیدت مند گنگناتے ہیں۔
دراصل حافظ ایران کے پیچیدہ سماجی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فارسی زبان میں کہے گئے ان کے بہترین محاورے ایران کے لوگوں کو اتحاد کے دھاگے میں پروتے ہیں۔
لیکن، ایک اور وجہ بھی ہے جس کے سبب یہ مزار اس قدر مشہور ہے۔
آج کے ایران میں حکومت کے خلاف بغاوت بے حد مشکل ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مذہبی رہنماؤں کی اقتدار پر گرفت بے انتہاء مضبوط ہے۔
بی بی سی کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کی مسكراتی تصویر پوری دنیا میں ان کا ایک مختلف اور نیا امیج اُبھارتی ہے، لیکن ایران میں ہر ایک مجھ سے کہتا ہے کہ یہاں حالات بہت خراب ہیں۔
پہلے کے مقابلے لوگوں کو زیادہ پریشان کیا جا رہا ہے اور یہاں موت کی سزاؤں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔
لیکن حافظ کی جائے پیدائش اور ایران کے سب سے لبرل شہر شیراز کی داستان کافی مختلف ہے۔
یہاں پہنچ کر آپ کو خواتین کے فیشن سے ہی شہر کے موڈ کا پتہ چل جائے گا۔ حالانکہ ایرانی قانون کی رو سے خواتین کو خود کو سر سے لے کر پاؤں تک ڈھانپنا لازم ہے۔
لیکن شیراز میں ایران کے اس قانون پر بے حد خراب طریقے سے عمل کیا جاتا ہے۔
گوکہ سر پر اسکارف پہننا لازمی ہے، لیکن یہاں آپ کو رنگ برنگے اسکارف ملیں گے۔ یہاں کی خواتین اس طرح اسکارف پہنتی ہیں کہ اس سے بمشکل ہی بال ڈھكتے ہیں۔
شیراز میں بوڑھے اور جوان، عورتیں اور مرد بلاجھجھک ملتے ہیں، ہنستے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔
جب ایک مشہور اداکار حافظ کے مزار پر حاضری دینے کے لیے پہنچے تو ہالی وڈ کی طرز پر ان کے مداحوں نے اُنہیں گھیر لیا۔
سورج ڈوبنے کے بعد مزار کے چاروں طرف روشنیاں جگمگانے لگتی ہیں اور ماحول کسی تہوار سا ہو جاتا ہے۔ لوگ حافظ کے گیت گانے لگتے ہیں۔
ایران میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ تعداد میں یونیورسٹیوں سے گریجویشن کررہی ہیں۔
یہ ماحول ایران کے تضاد پر پردہ ڈالتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی رہنماؤں کی ’تعلیم سب کے لیے‘ کی پالیسی کی بدولت ایرانی معاشرے میں بہت تبدیلی آئی ہے۔
یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ شرح پیدائش میں تیزی سے کمی آئی ہے اور اب زیادہ تر خاندان بچے پر اکتفا کررہے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ اس طرح کی صورتحال ہوگئی کہ بچوں کی پیدائش میں اضافے کے لیے مذہبی رہنماؤں کو مالی امداد کا اعلان کرنا پڑگیا۔